ایوب خان کے مارشل لاء کو لگے دو سال ہوئے تھے جب سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے اور ساتھ ہی پاکستان کو خوراک میں خود کفیل بنانے کے لیے میکسیکن سبز انقلاب کے ماڈل کو مشعل راہ بناکر پاکستان میں زراعت کو ترقی دینے والی گرین پالیسی کو تشکیل دیا گیا اور اس پالیسی کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج کو “سبز انقلاب” سے تعبیر کیا گیا ۔ ایوب خان کی حکومت کے امریکی فنڈڈ گرین انقلاب کی لبرل ماہرین معاشیات بڑی تعریف کرتے ہیں اور وہ اسے چھوٹی ملکیت کے حامل کسانوں اور ملکیت نہ رکھنے والے مزارعین کے لیے انقلابی پالیسی قرار دیتے نہیں تھکتے ۔ جبکہ بے زمین دیہی غریبوں کا تو وہ سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کرتے ۔
ان کے نزدیک گرین انقلاب کی تباہی کی ذمہ داری بھٹو حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے ان کے بقول پھر سے جاگیرداروں کو طاقتور بنایا تھا۔
میں نے زرعی معشیت پر تجزیہ نگاروں اور اخبارات میں اس موضوع پر لکھنے والوں کو ہمیشہ سے گرین انقلاب سے سے ایوب حکومت کے دس سالوں میں گندم ، چاول اور کپاس کی پیداوار میں ہونے والے بے تحاشا اضافہ کو گرین انقلاب کی کامیابی کی دلیل بناتے دیکھا۔
فی زمانہ سوشل میڈیا پر بھی لبرل تجزیہ نگاروں کو اسی دلیل سے آگے بڑھتے دیکھا ہے ۔
لیکن ان کو کبھی میں نے گرین انقلاب میں زرعی پیداوار میں “انقلابی اضافے” اور اس اضافے کا موازانہ زمین کی ملکیت اور زرعی آمدنی کی اس ملکیت کے اعتبار سے تقسیم کے ساتھ موازنے کو کہیں نہیں پایا ۔ نہ ہی میں نے انھیں کبھی دیہی آبادی میں غربت ، بے روزگاری کے اعداد و شمار کے ساتھ گرین انقلاب کی جانچ کرتے دیکھا۔
گرین انقلاب سے پہلے یعنی 1960ء میں اگر ہم زمین کی ملکیت کو تین بڑی کیٹیگری میں تقسیم کریں تو وہ صف بندی کچھ یوں ہوگی :
بڑی و درمیانی ملکیت رکھنے والے زمیندار
چھوٹے کسان جو چھوٹی زرعی ملکیت کو گزارے کے لیے ناکافی ہونے کے سبب درمیانی اور بڑی ملکیت رکھنے والوں سے کچھ زمین مزارعت پر لینے پر مجبور تھے ۔
ملکیت سے مکمل محروم مگر کلی طور پر مزارعت پر مجبور کسان
گرین انقلاب نے ایوب خان کے دس سالوں میں ملکیت کے اعتبار سے درمیانے اور چھوٹی ملکیت رکھنے والے کسانوں کی ملکیتی زمین کو مزید کم کیا اور مزارعوں کے زیر کاشت رقبے کی تعداد کو بھی کم کیا جبکہ بڑی ملکیت رکھنے والوں کی ملکیت میں اور اضافہ کیا ۔
آصف نیازی کا تحقیقاتی مقالہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اس گرین انقلاب نے دس سالوں میں جدید فارمنگ کی طرف جانے میں زمیندار اشرافیہ کی بڑی مدد کی اور پاکستان میں ان دس سالوں میں 44 ہزار سے زائد ٹریکٹروں اور ٹیوب کی ملکیت کا 99 فیصد بھی مالک بڑی لینڈ ہولڈنگ رکھنے والوں کو بنایا اور ان میں سے ہی ایک سیکشن کو اجناس کے آڑھتی صاحبان کے ساتھ مشترکہ ایگرو بیسڈ انڈسٹری جن میں کاٹن اینڈ جیننگ و پریسنگ آئل فیکٹریوں کا مالک بنایا ۔ جبکہ اس زمانے میں جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ظہور ہوا اس کے مالکان کی بھاری اکثریت انھی سیٹھوں کی تھی جنھیں ہم 22 ساہوکار خاندان کہتے ہیں۔ ایوب رجیم کے زمانے میں پاکستان کی کل آبادی کا 80 فیصد دیہی آبادی پر مشتمل تھا اور ان میں 1968ء تک اوپر ذکر کردہ تین کیٹیگری میں تقسیم طبقات کی تعداد محض 44 لاکھ 70 ہزار تھی جن میں بڑی اور درمیانے درجے کی لینڈ ہولڈنگ ( انھیں مارکسی اصطلاح میں آپ بورژوازی لینڈ لارڈ اور پیٹی بورژوازی لینڈ لارڈ کہہ سکتے ہیں) کی تعداد 22 لاکھ 5 ہزار تھی ۔ جبکہ چھوٹی ملکیت کے کسانوں کی تعداد 19 لاکھ 28 ہزار تھی ۔ باقی کا زیر کاشت رقبہ مزارعین کے پاس تھا۔ چھوٹے کسانوں میں کسی پاس نہ تو ٹریکٹر تھے اور نہ ٹیوب ویل تھے اور ان کے پاس اعلی ورائٹی کے بیج اور اعلی کوالٹی کی کھاد بھی نہیں تھی ۔ جبکہ یہ لینڈ ہولڈنگز والی کیٹیگریز دیہی آبادی کا مشکل سے 20 فیصد تھے یعنی 80 فیصد آبادی اس گرین انقلاب سے پیداوار میں ہونے والے بے تحاشا اضافے میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں رکھتی تھی ۔ جبکہ اس 20 فیصد میں مشکل سے جو 5 سے 7 فیصد بڑی لینڈ ہولڈنگز والے تھے وہ زرعی پیداوار کے 90 فیصد کے مالک تھے اور اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہی اس پیداوار کی 90 فیصد آمدنی پر قابض تھے ۔
ایوب خان کے خلاف جو عوامی تحریک چلی تو اس کے دیہی آبادی میں سب سے بڑے مخالف اور زرعی اصلاحات کے نعروں کو اسلام کے خلاف سازش قرار دینے والوں میں سب سے زیادہ پُرجوش اور اس کے خلاف کھڑے ہونے والے ملاوں اور ان کی جماعتوں ( جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے پاکستان وغیرہ) کے سب سے بڑے فنانسرز بھی یہی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی زمیندار تھے ۔
انجمن زمینداران تحت شریعہ میں بھی انھی بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی اکثریت تھی ۔
دلچسپ بات یہ ہے اس انجمن میں وہ زمیندار اشرافیہ و پیٹی بورژوازی زمیندار سیاست دانوں بھی تھے جو ایوب خان کے خلاف بننے والی کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ۔ سی او پی میں بھی شامل تھے ۔ اور جب ایوب خان کے خلاف مغربی پاکستان میں چلنے والی تحریک 1969ء میں واضح طور پر بائیں بازو کے نعروں کے زیر اثر آگئی اور اس تحریک میں شامل دیہی آبادی کی اکثریت نے زمینوں پر قبضے شروع کیے اور زرعی اصلاحات کے ریڈیکل نعرے دیہی علاقوں میں مقبول ہوگئے اور شہروں میں وہ تحریک 22 ساہوکار خاندانوں کی سرمائے پر اجارہ داری کے خاتمے کی تحریک بن گئی تو یہ سی او پی ایوب خان سے مذاکرات مذاکرات کا کھیل کھیلنے لگ گئی ۔
اس وقت کمباینڈ اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کو سب سے بڑے تخریب کار اور انارکسٹ بھٹو اور بھاشانی لگتے تھے جن کی جماعتیں واحد دو جماعتیں تھیں جو ایوب خان کو عوامی تحریک کے ذریعے گھر بھیجنے کے سوا اور کسی طریقہ کار کو قبول نہیں کر رہی تھیں ۔ سی او پی 1968۔69 کی انقلابی تحریک کو دفن کرنا چاہتی تھیں ۔
انجمن زمینداران تحت الشریعہ کا سب سے بڑا کارنامہ جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب ‘اسلام کا تصور ملکیت زمین’ کو اپنے خرچ پر چھپوا کر بڑے پیمانے پر شایع کرنا تھا۔ اس انجمن کے مرکزی صدر نوابزادہ نصر اللہ خان تھے ۔
اگر آپ 1968 اور 1969ء کے جماعت اسلامی کے ترجمان رسالے “ترجمان القرآن” کے دو سالوں کے 24 شماروں کی دو جلدیں اور ان میں مولانا مودودی کے لکھے اداریے پڑھ لیں تو وہ 22 ساہوکار خاندانوں کی دولت کے ارتکاز اور دیہی علاقوں میں زمیندار اشرافیہ کی وسیع ترین ملکیت کے شرعی جواز اور ان کے خلاف عوامی تحریک اور اس کے نعروں کو اسلام کے خلاف لادینیت اور الحاد کی خطرناک سازش قرار دینے سے بھرے ہوئے نظر آئیں گے ۔ استحصال اور جبر پر مبنی شدید ترین ارتکاز دولت اور زمین کی لا محدود ملکیت کے حق میں مذھب کا ھتیار پوری طرح سے استعمال ہو رہا تھا۔ دوسری جانب سیکولر لبرل اور اسلامی لبرل دانشور تھے جیسے اے ایچ برنی و اے کے بروہی و جی ڈبلیو چودھری و گوہر الطاف جو ویکلی ‘آؤٹ لک’ کراچی اور ڈیلی ڈان میں درجنوں آرٹیکلز اس تحریک کے خلاف لکھ رہے تھے ایوب کی مالیاتی ، صنعتی اور زرعی پالیسیوں کے انقلابی ثمرات گنوا رہے تھے ۔ یہ بتانے سے قاصر تھے کہ اس انقلابی ترقی نے دولت اور ملکیت کو ایک اقلیتی ٹولے تک ہی کیوں محدود کرکے رکھا ہوا تھا ؟
دولت کی پیدائش کرنے والے کروڑوں شہری اور دیہی محنت کش گھرانے غریب کیوں تھے؟
گرین انقلاب نے زرعی پیداوار سے جو دولت پیدا کی تھی اس کا 99 فیصد امیروں کے پاس کیوں تھا؟ یہاں تک کہ شہری صنعتی و مالیاتی مراکز میں پاکستانی مڈل کلاس نام کی مخلوق تک وجود کیوں نہ رکھتی تھی ؟
آج رعایت اللہ فاروقی ، جاوید چودھری جیسے صحافی جب ایوب دور کے 22 خاندانوں کو پاکستان کے پوٹینشل ٹا ٹا و برلا بناکر پیش کرتے ہیں تو وہ ایوب دور کے بدترین معاشی استحصال اور جبر پیدا ہونے والی اس بدترین سماجی معاشی نا انصافی اور اس سے پیدا ہونے والی بدترین طبقاتی خلیج پر ہی اپنی لفاظی سے پردہ نہیں ڈال رہے ہوتے بلکہ وہ اس دور کے 22 گماشتہ شہری سرمایہ داروں اور چند لاکھ دیہی بورژوازی و پیٹی بورژوازی اس نا اہلی اور نکمے پن پر بھی پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں جو پاکستان میں بورژوازی سیکولر جمہوریت اور صنعتی انقلاب لانے کے آڑے آگئی تھی جو یورپی بورژوازی نے اپنے ممالک میں برپا کیے تھے اور آج تک وہ یہ فریضہ سرانجام دینے میں ناکام ہی رہے ہیں اور بار بار وہ اس ملک کے محنت کش طبقات کے خلاف فوجی جنتا اور عالمی سرمایہ دار سامراجیت سے گٹھ جوڑ کرتے پائے جاتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں