دوسری/تحریر -افشاں نور

نجانے اسے میرا پتہ کہاں سے ملا، مگر اسے میرے ذاتی فون نمبر کے ساتھ ساتھ میرے نوکری کے اوقات بھی معلوم تھے۔ دو دن پہلے فون پر پندرہ منٹ تک بات کرنے کے بعد اس نے مجھے ملنے پر راضی کر لیا تھا اور اب وہ میرے سامنے تھی۔ عمر میں وہ مجھ سے لگ بھگ سات آٹھ برس چھوٹی تھی، چہرے پہ معصومیت کے ساتھ ساتھ کسی انجانے دکھ کے آثار واضح دکھائی دیتے تھے۔ نین نقش تیکھے، آنکھیں سیاہ اور روئی روئی سی تھیں وہ اچھی خاصی خوبصورت دکھتی تھی مگر اسے بیس اکیس برس کی عمر میں ایسا کیا دکھ لاحق تھا کہ اس کی خوبصورت آنکھیں ویران پڑی تھیں یہ میرے لیے معمہ تھا۔ اس کا یہ اصرار کہ اس کے مسئلے کا حل میرے پاس ہی ہے ،میری اس سے ملاقات میں دلچسپی کا باعث بنا۔ میں جلد از جلد اس کا مسئلہ جاننا چاہتی تھی کیونکہ مجھے وقار سے ملنے جانے کی جلدی تھی۔

وقار میرا کولیگ تھا۔ میں پچھلے تین سال سے ایک بینک میں کام کر رہی تھی تقریباً اتنے ہی عرصے سے وقار بھی میرے ساتھ کام کر رہا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا ایک بچے کا باپ بھی تھا پھر بھی نجانے کیسے مجھے اس سے محبت ہوگئی۔ یہ محبت صرف مجھ تک محدود نہ تھی بلکہ وقار بھی مجھ سے محبت کا اظہار کئی مرتبہ کر چکا تھا۔ ابا کے گزر جانے کے بعد میں چونکہ اپنے گھر کی کفیل تھی اس لیے اپنی شادی کو پسِ پشت ڈال کر میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں لگی رہی۔ لیکن وقار کے میری زندگی میں آنے سے مجھے یکدم احساس ہوا کہ مجھے باقی سب کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی شادی کا بھی سوچنا چاہیے۔ میری بینک میں ملازمت کے کوئی ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر میرا چھوٹا بھائی بلال بھی اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا اس لیے شادی کا فیصلہ کرنا میرے لیے قدرے آسان ہو چکا تھا۔ جلد ہی بلال کو ایک قریبی شہر میں نوکری مل گئی اور میں پرسکون ہو کر شادی کے فیصلے پر سوچنے لگی۔ بلال کو نوکری کرتے تین چار ماہ ہو چکے تھے اور چونکہ وہ جلد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے والا تھا لہذا خالہ نے یہ موقع غنیمت جان کر جھٹ سے اپنی بیٹی کے رشتے کی بات کر ڈالی۔ اماں کو یوں بھی اپنی بہن سے بہت محبت تھی خالہ کی یہ بات سن کر پھولے نہیں سمائیں اور رشتہ پکا کرنے کی غرض سے بجائے بلال کی منگنی کے سیدھا نکاح کر ڈالا۔ بلال کو پہلے پہل اعتراض ہوا لیکن جلد ہی اس نے اماں کی خوشی کو قبول کرتے ہوئے رومیصہ سے نکاح کر لیا اور نوکری کے سلسلے میں شہر سے باہر چلا گیا۔ اب صرف رخصتی باقی تھی جو سال دو سال میں کبھی بھی ہوجاتی، اس طرح میں مکمل طور پر بےفکر ہو کر اپنے مستقبل کے بارے میں غور کرنے لگی۔ وقار کی پہلی بیوی میں یوں تو کوئی عیب نہ تھا۔ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پڑھی لکھی بھی تھی مگر بقول وقار کے اسے زارا سے محبت نہ تھی۔ دونوں میں باہمی ربط کی کمی تھی اور اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ مجھ سے شادی کا فیصلہ کر چکا تھا۔ آج وہ اور میں کسی ریستوران میں ملنے والے تھے اور یہ میرے اور وقار کے درمیان باقاعدہ طے ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔ لیکن آج ہی وہ روتی بسورتی صورت والی لڑکی میرے سامنے آن بیٹھی تھی۔ نجانے اسے کیا پریشانی لاحق تھی۔ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتانے سے پہلے وہ کچھ دیر یونہی خاموش آنسو بہاتی رہی پھر دونوں ہاتھوں سے رگڑ کر اپنے آنسو صاف کیے اور یوں گویا ہوئی:
“میرا نام ثانیہ ہے۔ میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے نوکری کی غرض سے لاہور آئی تھی۔ یہاں میری ملاقات بلال سے ہوئی جو عہدے میں مجھ سے سینئر تھے۔ مجھے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا تو میں بلال صاحب کی مدد لیتی۔ وہ بہت ہمدرد اور مہربان تھے میرے سارے مسائل کو بڑی خوش دلی سے حل کرتے تھے۔” وہ بات کرتے کرتے ہونٹوں کو سختی سے دباتی جیسے آنسو پی رہی ہو۔ “آہستہ آہستہ ہم قریب ہوتے چلے گئے اور ایک دن انہوں نے مجھے شادی کے لیے کہا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ میں انہیں پسند کرنے لگی تھی لیکن اچانک ان کے رویے میں تبدیلی آنے لگی وہ مجھ سے اکھڑے اکھڑے رہنے لگے۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ ان کا نکاح ہو چکا ہے۔ میرے پوچھنے پر پہلے تو وہ انکار کرتے رہے بالآخر انہوں نے اقرار کر لیا کہ ان کا نکاح ہو چکا ہے اور وہ صرف اپنی والدہ کی خوشی کے لیے اس نکاح پر راضی ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ رومیصہ سے نکاح کے باوجود وہ مجھ سے بھی شادی کریں گے۔ میں بہت حد تک مطمئن ہوگئی لیکن ایک دن میں نے رومیصہ کے بلال کو بھیجے گئے پیغامات اتفاقاً پڑھے تو میرا دل مٹھی میں آگیا۔ بلال کی اور میری بے تکلفی اس حد تک تھی کہ انہوں نے مجھے اپنا پاسورڈ بھی بتا رکھا تھا۔ اسی بنا پر میں نے موقع پاکر پاسورڈ کھولا۔ بلال اور رومیصہ کی گفتگو میرے سامنے تھی اور میں یہ پڑھ کر دھک سے رہ گئی۔ بلال کی گفتگو سے کہیں بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ نکاح ان کی مرضی کے خلاف ہوا ہے۔ وہ ایک ہی میسج مجھے اور رومیصہ دونوں کو بھیجتے رہے۔ مجھے یہ احساس دلاتے رہے کہ میں ان کی پسند ہوں اور رومیصہ ان پر مسلط کی گئی ہے۔ میں اس معاملے پر بلال سے بات کرنا چاہتی تھی اور یہی میری غلطی تھی۔” وہ کچھ دیر رک کر اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی۔ “انہیں میری بات سن کر اتنا غصہ آیا کہ شادی سے ہی انکار کر دیا بلکہ اب وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے تعلق بڑھانا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔” “اب مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ میں بلال کے سہارے اتنی آگے بڑھ چکی ہوں کہ واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں اب کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتی کہیں اور نہیں جا سکتی۔ میں ذہنی طور پر انہیں قبول کر چکی ہوں اگر اب بلال نے مجھے قبول نہ کیا تو میں خودکشی کر لوں گی” وہ بلک بلک کر رو رہی تھی اور میرا دل آندھیوں کی زد میں تھا۔ یقین نہیں آتا تھا میرا بھائی ایسا کر سکتا تھا۔ رومیصہ کو چھوڑنا اس کے بس میں نہ تھا لیکن کیا وہ ثانیہ کو اپنا سکتا تھا؟ کیا وہ دوسری عورت کو اپنی زندگی میں جگہ دے سکتا تھا یا وہ ہمیشہ دوسری عورت کی بد دعاؤں کے حصار میں رہے گا؟ میں بے حد پریشان تھی اسی لیے وقار سے ملنے بھی نہیں جا سکی۔اب میں اپنے اور وقار کے تعلق کو کسی اور نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ ابھی آج ہی تو میں کسی دوسری سے مل کر آ رہی تھی اور میں خود۔۔۔میں خود دوسری بننے جا رہی تھی۔ مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا۔ زارا مجھ سے کہیں مضبوط تھی کیونکہ وہ زارا نہیں تھی زارا وقار تھی۔ وہ پہلی عورت تھی اور دوسری عورت ساری محبتوں کا مرکز ہونے کے باوجود کبھی پہلی جتنی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ زارا کو سب وقار کے نام سے پہچانتے تھے، وہ اسی کے نام سے جانی جاتی تھی اور میں کہاں کھڑی تھی۔ تب مجھے پہلی بار محسوس ہوا میرے پیروں تلے زمین ہے نہ آسمان۔ میں تو ہوا میں معلق تھی بے سمت، بے منزل، بے نشان۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر بہت دیر سوچنے کے بعد میں فیصلہ کر چکی تھی اور میرا فیصلہ یہ تھا کہ میں “دوسری” نہیں بنوں گی کیونکہ مرد کی زندگی میں پہلی بیوی اور عورت کی زندگی میں پہلی محبت کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply