گستاخ’کون؟-ڈاکٹر حفیظ الحسن(3،آخری قسط)

اس وقت کون ہو سکتا ہے۔ کمارا نے سوچا۔
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے صادق اور اسکے ساتھی غلام رسول اور شکیل کھڑے تھے۔
“کمارا صاحب۔ آخری بار سمجھانے آئے ہیں۔ آج تم نے جو دیکھا اسے بھول جاؤ اور ہمارا ساتھ دو۔ فائدے میں رہو گے۔ ورنہ نقصان کے تم خود ذمہ دار ہو۔ ”
صادق نے اسے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
میں مر جاؤنگا مگر دھوکہ نہیں دونگا۔ حرام نہیں کھاؤنگا، غلط کو غلط کہوں گا۔ میں تمہارے پیسوں اورتم پر لعنت بھیجتا ہوں۔ تمہارا خدا تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
کمارا غصے میں بولا!
“ٹھیک ہے کمارا صاحب۔ چلتے ہیں۔ آپکو سمجھانا اہمارا فرض تھا۔۔آگے آپکی مرضی۔”
دفع ہو جاؤ۔ یہ کہتے ہی کمارا نے زور سے دوازہ بند کیا۔

اگلے روز وہ فیکٹری پہنچا توصادق ایک پھٹا پوسٹر اُٹھائے مزدوروں کے سامنے چیخ رہا تھا۔
یہ پوسٹر کس نے پھاڑا ہے؟ اس پر تو آیت درج تھی۔ یہ بے حرمتی کس نے کی ہے؟
یہ کوئی غیر مسلم ہی کر سکتا ہے؟
غلام رسول نے بڑھاوا دیا۔
یہ تمہیں کہاں سے ملا۔۔ہجوم میں ایک مزدور نے پوچھا۔
کمارا صاحب کے کمرے کے باہر۔ صادق نے جواب دیا۔
کمارا غرایا: یہ کیا ہو رہا ہے؟

کمارا صاحب آپ نے یہ پوسٹر کیوں پھاڑا؟ ۔ ہجوم میں سے کئی لوگوں نے پوچھا۔
میں نے کوئی پوسٹر نہیں پھاڑا ۔ نہ ہی مجھے پتہ ہے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ ممکن ہے یہ میرے کمرے کے دروازے پر لگا ہوا تھا۔ وہاں اور بھی کئی چیزیں مزدور لگا جاتے ہیں۔
کمارا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ہم آج صبح آئے ہیں تو یہ پھٹا ہوا آپکے کمرے کے باہر ملا ہے۔
ہم نے چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ کل فیکٹری صرف آپ آئے تھے۔ یہ پوسٹر یقیناً آپ ہی نے پھاڑا ہے۔
صادق چِلا کر بولا۔

اس سے پہلے کہ کمارا کچھ کہتا ، چوکیدار سامنے آیا اور بولا۔

جی میں نے کل خود ان کو پوسٹر پھاڑتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا صاحب اسے مت پھاڑیں ،اس پر آیت درج ہے مگر مگر انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا، اپنے کام سے کام رکھو۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر آج کے بعد کوئی پوسٹر نظر نہیں آنا چاہیے۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
کمارا غصے میں بولا۔

غلام رسول چلایا! مارو اسے یہ گستاخ ہے،گستاخ۔۔ اس نے ہمارے دین کی بے حرمتی کی ہے۔
ہاں مارو۔۔۔ صادق آگے بڑھا، اسکے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔
چوکیدار نے کمارا کو پیچھے سے دبوچا اور نیچے گرا دیا۔

کمارا چلّایا یہ الزام ہے۔ جھوٹ ہے یہ سب،ایسا کچھ نہیں
چپ کر گستاخ!صادق نے ڈنڈا اسکے پاؤں پر مارا۔ وہ بلبلایا۔

ساتھیو!  آؤ اس گستاخ کو سزا دو۔ تاکہ آئندہ کوئی ایسی گندی حرکت نہ کر سکے۔

ہجوم آگے بڑھا، کسی نے پتھر اُٹھایا،کسی نے اینٹ، جس کے ہاتھ جو آیا ،اس نے کمارا کو دے مارا
کمارا لہولہان ہو گیا، مگر ہجوم کو ذرا ترس نہ آیا۔ مارنے والے تھک ہی نہیں رہے تھے،وہ ایک عجیب جنون میں تھے۔

اچانک فیکٹری کی عمارت سے الارم بجا، سب چونکے۔ یہ الارم فیکٹری میں کام کے اوقات شروع ہونے پر بجایا جاتا تاکہ ورکر فیکٹری میں جا کر کام شروع کریں۔ سب کی توجہ بٹی تو کمارا تیزی سے سامنے موجود عمارت کی سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ ہجوم اسکے پیچھے بھاگا وہ چھت پر پہنچ گیا مگر ہجوم میں موجود افراد اسکے پیچھے چھت پر آ گئے۔
کہاں بھاگتا ہے حرامزادے، صادق غرایا۔
ہجوم نے پھر سے لاتوں، ڈنڈوں اور مکوں کی بارش کر دی۔
کمارا خدا بھگوان کے واسطے دیتا رہا کہ اُسے معاف کر دیا جائے۔۔ اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔
میرے چھوٹے بچے ہیں، بوڑھی ماں ہے جو میرا انتظار کر رہی ہے۔ مجھے مت مارو۔ وہ بے ہوش ہونے سے قبل نحیف اور دردناک آواز میں روتے ہوئے بولا۔ مگر ہجوم پر ایک کیفیت، ایک جنون طاری تھا۔

اچانک ہجوم میں سے ایک شخص نے چھت پر پڑا ایک بڑا پتھر اُٹھایا اور کمارا کے سر پر دے مارا۔ وہ  بے ہوشی میں تڑپا ۔ اُسکے نرخرے سے کسی ذبح ہوتے جانور کی سی آواز نکلی اور وہ تڑپ کر مر گیا۔
ہجوم اب بھی نہ رکا اور اسکی لاش کو پیٹتا رہا۔
بس کر دو۔ خبیث جہنم واصل ہو گیا ہے۔ کوئی بولا۔
نہیں ۔ اسے جلا دو!
صادق کا ساتھی عبداللہ بولا۔

ایک شخص نیچے کسی موٹر سائیکل سے پیٹرول لے آیا۔ دوسرا ماچس۔ اس نے لاش پر پیٹرول چھڑکا۔ اور جلتی ماچس کمارا کی لاش پر پھینک دی۔
کمارا کی لاش کو آگ لگی۔ سب پیچھے ہٹ گئے۔ اتنے میں فیکٹری میں ہنگامے پر کسی نے پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس وہاں پہنچی، تو ہجوم لاش کو جلا کر نعرے لگا رہا تھا۔ پولیس نے لاش کو جلنے سے روکنا چاہا تاہم ہجوم مشتعل تھا۔
لوگوں نے پولیس کو لاش کے پاس جانے سے روک دیا۔
جب لاش مکمل جل چکی تو ہجوم پیچھے ہٹا۔
کمارا کی جلی لاش کو پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا۔
جلی کٹی لاش سرد خانے پہنچائی گئی۔
سری لنکا میں اسکی موت کی اطلاع اسکے خاندان کو  دی گئی۔ میڈیا پر خبریں چلیں۔
لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج ہوا۔ ہجوم میں موجود کئی افراد کو زیرِ حراست لیا گیا۔

چند روز بعد سری لنکا کی ائیرلائن سے لاہور سے پرواز کولمبو جا رہی تھی۔ فرق بس اتنا تھا کہ اس میں کمارا کی بجائے اسکی ناقابلِ شناخت اور جلی لاش موجود تھی۔ جو اب کھڑکی سے جھانک کر یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ کیا خدا کی پھیلی زمین پر اسکے علاوہ بھی کوئی خاندان سے بچھڑنے کے غم میں اداس ہو گا۔ کیونکہ آج تو وہ خود ہمیشہ کے لیے سب سے بچھڑ چکا تھا۔

کولمبو ائیرپورٹ پر کمارا کا خاندان اسکی لاش وصول کرنے آیا۔ ماں نے اپنے لختِ جگر کا کفن ہٹایا۔ نیچے راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ بیٹا جسے بچپن کی اکیس بہاروں میں اس نے پال کر بڑا کیا۔ ہجوم نے محض لمحوں میں جلا کر راکھ کر دیا۔ کمزور دل تھی اوپر سے ماں۔۔ اسکا کلیجہ پھٹ گیا۔ وہ اُسی لمحے جیتے جی مر گئی۔

کلپنا کے آنسو خشک تھے ۔شوہر کی جدائی اور بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھننے کا غم اُسے اندر سے گھول چکا تھا۔ اُس وقت اسکی روح تک زخمی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی پر اسکا حلق خشک تھا۔

شانتی نے بابا کی طرف دیکھا۔ اسکی لاش سے گلے ہوئے آموں کی بو آ رہی تھی۔
” بابا تم تو آم لینے گئے تھے۔ وہاں جہاں لوگ ان آموں سے بھی میٹھے تھے۔ مجھے نہیں چاہئے آم، مجھے بس میرا بابا لوٹا دو۔ میں آج کے بعد کبھی ایسی فرمائش نہیں کرونگی۔”
وہ رو دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کمارا کے مرنے کے بعد قاتلوں پر مقدمہ چلا، کچھ کو سزا ہوئی اور کچھ بری ہو گئے۔ مگر جب تک سوچ نہ بدلے، سزا کسی معاشرے کو کیسے سدھار سکتی ہے؟
اس واقعے کو دو سال گزر گئے۔ آج کلپنا نے ٹی وی چلایا  تو خبریں تھیں، پاکستان میں ننکانہ صاحب میں ایک اور گستاخ کو ہجوم نے پولیس سٹیشن میں ٹھکانے لگا دیا۔
کلپنا نے سامنے رکھی کمارا کی تصویر دیکھی اور بولی۔
تمہاری قربانی شاید رائیگاں گئی۔ کاش تمہاری تصویر پاکستان کے ہر سکول ، ہر کالج اور ہر عوامی جگہ پر لگائی جاتی تاکہ گزرنے والے کی سوچ بدلتی۔ خدا آسمان پر ہے مگر لوگ زمین پر خدا بنے پھرتے ہیں۔
یہ کہہ کر کلپنا نے ٹی وی بند کر دی اور صحن میں آ گئی۔
آنسو اسکی آنکھوں سے رواں تھے۔
اس نے روتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھا اور بولی۔
گستاخ کون تھا؟ وہ جس نے مذہب کے نام پر ظلم کیا یا وہ جس نے غلط کو غلط کہنے پر سزا پائی؟
مگر آسمان چپ تھا۔
کلپنا سہم گئی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply