پہاڑوں پلی باتونی لڑکی/مسلم انصاری

دفعتاً تم اس پہاڑی لڑکی کو ایک بار گولڑہ کے اسٹیشن پر دیکھ چکے ہو جب وہ برگد کے پیڑ پر چڑھتی گلہری میں بدلنے کا سوچ رہی تھی

یقینی طور پر اگر تمہاری ریل رفتار نہ پکڑ چکی ہوتی تو تم اتر آتے، ممکنہ طور پر تم کھڑکی کھولنے کی کوشش کرتے اور بے ساختہ تمہارے منہ سے اس کا نام نکل آتا، مگر تم واقف ہو کہ تمہارا پکارا ہوا نام ہمیشہ سے بند کھڑکی سے ٹکرا کر لوٹ آئے گا
اس سے بھی قبل کہ تم ریل کی ایمرجنسی بریک چین کھینچتے اور بوگی سے کود آتے، تم دیکھ چکے ہو اس لڑکی نے پاس سے گزرتی بلّی کو دبوچ کر اپنی گود میں بھر لیا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بلی کے بال سنوار رہی ہے تمہارے جسم کے سبھی خدوخال الجھ گئے ہیں!

حتمی طور پر تم اس لڑکی کو جانتے ہو، جس کے انتظار میں تم اپنی پیلی ٹیکسی بس اسٹینڈ سے ملحق کھڑی رکھتے ہو تاکہ وہ تمہارے ساتھ سفر کرے، مگر وہ ہر بار “نارنگ انسٹیٹیوٹ” کی بس سے اتر کر ایک رکشہ لیتی ہے اور ایک ٹیشو ہاتھ میں دبوچے ہوئے سوار ہو جاتی ہے
(اُس لمحے تمہیں لگتا ہے کہ زندگی بھر کا کمایا ہوا منافع خسارے میں ہے)

میں جانتا ہوں! جب تم اسے سپر اسٹور کی قطار میں دیکھتے ہو، تب گھر میں ختم ہوئے راشن کو بھول جاتے ہو! اچار کی برنی بھرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر چڑھا مومی دستانہ تمہیں دنیا کی آخری مہنگی شے لگتی ہے، یہ امر بھی زائد نہیں ہے کہ جب تم نے اسی لڑکی کو چوک پر گجرے خریدتے ہوئے چناؤ کے لمحے میں دیکھا تھا، تو تم کتنے ہی احمق تھے کہ اپنے کرائے کے گھر میں باغیچہ بنانے کا سوچ لیا!

لیکن تم اِس لمحے میں سب سے زیادہ اداس ہو!
جب گاؤں کی طرف آتی واحد کچی سڑک پر “کے بی نائن نائن نائن” نمبر کی پرانی ڈاٹسن اپنی ٹرالی میں ایک لاش رکھے پگڈنڈیوں پر جھولتی ہوئی آرہی ہے، کچے راستے اس خاموش پڑی باتونی لڑکی کے جسم کو ادھر ادھر سرکا رہے ہیں، میں تمہارے سر کی کیفیت سے بخوبی واقف ہوں کہ جب تم داہنی طرف گردن ڈھلکاتے ہو کوئی چیز تمہارے سر میں داہنی طرف چلی جاتی ہے اور عین اسی طرح دوسری جانب سر ڈھلکانے پر ہوتا ہے! تم کتنے عجیب ہو کہ اِس لمحے آسمان کو تکتے ہوئے یہ سوچ رہے ہو کہ بادلوں کا اُمڈ آنا تمہارے غم میں شراکت جیسا ہے جبکہ پچھلے بدھوار سے یہی موسم گاؤں میں آکر رک چکا تھا۔

پرانی ڈاٹسن قریب آرہی ہے
تم ونڈو اسکرین پر دو مردوں کا چہرہ دیکھ رہے ہو، ان میں سے ایک اس خاموش پڑی لڑکی کا باپ ہے (جو کچھ گھنٹے قبل بالکل جوان اور توانا تھا، اب وہ ایک دن میں بوڑھا ہو چکا ہے!) اور دوسرا فرد کسی بھی چوک چوراہے سے بھاڑے پر مل جانے والا ڈرائیور ہے
تمہیں مایوس ہونے کا قطعی کوئی حق نہیں کہ تمہاری پیلی ٹیکسی میں وہ ٹھیک سے لیٹ بھی نہیں سکتی تھی، بہتر ہے کہ تم پیچھے مڑ کر گاؤں سے باہر واویلا مچاتی ہوئی عورتوں کو آتا دیکھو! ان میں سب سے آگے وہی عورت ہے جسے تم اپنی ساس بنانے کے خواہاں تھے، اُس عورت کے پیر ننگے ہیں، دوپٹہ سر سے ڈھلک چکا ہے اور وہ دیوانہ وار دوڑ رہی ہے!

عورتوں کی آتی اس بھیڑ میں تم اپنی ماں کو کبھی نہیں تلاش کرسکتے، کیونکہ تمہیں اِس منصب کا کوئی چہرہ یاد نہیں، سوائے اُس ایک دن کے جب فصل کٹنے پر جھگیوں والے لوگ اپنا حصہ لینے آئے اور سرپنچھ کے بیٹے نے “زیادہ” کے سوال پر ٹوکے کی مشین میں ایک مزدور بچہ انڈیل کر اس کے کئی ٹکڑے کردئے، تب تمہیں ایک سیاہ چادر میں لپٹی عورت نے اناج مانگنے سے روک دیا، ایسی عورت کے بارے میں شبہ ہوسکتا ہے کہ وہی تمہاری ماں ہو مگر اب یہ بھی گزری بسری یاد ہے
(بھیڑ اور گاڑی پر نظر بنائے رکھو کہ اِس لمحے کا یہی حق ہے)

یہ عجیب اتفاق ہے کہ جہاں تم کھڑے ہو وہاں دوڑ کر آتی عورتوں اور لاش لاتی ڈاٹسن کی ملاقات ہوگی! دیکھنے میں یہ کسی طرح کا فلمایا ہوا منظر ہے، جبکہ یہ حقیقت میں ہو رہا ہے

بہت خوب!
کہ تم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، تاکہ ایک بوڑھا باپ لرزتا ہوا باہر آئے اور کربناک چیخوں سے لپٹی عورت کو دلاسہ دے سکے! خود پر قابو رکھو کہ ابھی وہ روتی عورت لڑکی کے چہرے سے چادر ہٹانے والی ہے، حالانکہ وہ عورت اپنی بیٹی کو اس کے پیروں سے بھی پہچانتی ہے، وہی پیر جو غیر متوازن پگڈنڈیوں کی وجہ سے ننگے ہوچکے ہیں
ایک پیر میں پازیب اور دوسرے پاؤں پر جلے ہونے کا نشان! ہاں! یہ ٹھیک وہی لڑکی ہے!
(سچ بتاؤ! آج سے قبل تم نے اپنے محبوب فرد کو اتنے قریب سے کبھی دیکھا تھا؟ آہ! مگر اس حالت میں! مجھے افسوس ہے!!)

“مجھے بے حد افسوس ہے کہ تمہاری محبت مر چکی ہے!
اس نے موت کے چناؤ کے لئے ویک اینڈ کا انتخاب کیا، جان بوجھ کر اپنے داہنے پیر سے پازیب نہیں اتاری، اپنا پسندیدہ رنگ زیب تن کیا، نارنگ انسٹیٹیوٹ کو میل میں شہر چھوڑنے کی خبر دی، بڑے سیلقے سے اپنے کپڑے تہ لگائے اور انہیں بیگ میں بھرا، رات سے قبل ٹیرس کی بتیاں جلائیں، کمرے کی کھڑکی سے دوڑتی ہوئی گاڑیوں کو ایک نظر دیکھا، پھر مسکراتے ہوئے اپنے کٹے ہوئے بالوں کی ایک لٹ کان کے پیچھے گھمادی، سیل فون سے کیفے “نائٹس لائٹس” پر کال کی اور انہیں “پیپرونی پیزا” کے ساتھ “فلیٹ وائٹ کافی” بھیجنے کا کہا، پھر باقاعدہ تنبیہ کرتے ہوئے، جب وہ کہ رہی تھی کافی میں جھاگ کی مقدار زیادہ ہو، تب وہ کھنکھاری، اس کے بعد، جب وہ مکمل پرسکون تھی اس نے اپنے بیگ میں گولیوں کی موجودگی پر کراس چیکنگ کی، مزید منفرد کام میں اس نے گولیاں کافی میں چمچے کے بجائے انگلی سے حل کیں!
سنو! مجھے اس سب کا سچ مچ بہت افسوس ہے!”

ڈاٹسن میں دیگر عورتوں کے ہمراہ سوار ہو جاؤ!
رونا روکو! اپنے پیروں میں رکھی اپنے محبوب ترین فرد کی لاش کو جھولتے ہوئے دیکھو! تم دیکھ رہے ہو کہ اب اس لڑکی کا سر اپنی ماں کی گود میں ہے، وہ اس کے بال سہلا رہی ہے، پہاڑی زبان میں اس عورت کے الم ناک جملے تمہاری سمجھ سے بالا تر ہیں مگر تم دکھ جانتے ہو، یہ کتنا عجیب ہے کہ اب اس گاڑی کی ٹرالی میں چھ عورتیں، ایک لاش اور تم اکلوتے مرد ہو، بوڑھا باپ جو آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہے، بار بار گردن گھما کر دیکھ رہا ہے، جس تیزی سے وہ گردن موڑتا ہے اسی تیزی سے بڑھاپا اس پر اتر رہا ہے، ڈرائیور مستعد فرد ہے مگر گاؤں کی کچی سڑک لاابالی پن کا مظاہرہ کر رہی ہے، تمہاری محبت کی کان کے پیچھے اڑسائی ہوئی لٹ واپس باہر آ چکی ہے، اس کی ماں کو اس کے بال چھونے دو! تمہارے حصے کے تمام بوسے بھی وہی عورت اس کی پیشانی پر چھوڑے گی!

تمہارے خیالات کتنے پر پیچ ہیں!
میرے بتانے کے بعد اب تم سوچ رہے ہو
“آخر کیسے ایک پہاڑی لڑکی نے شہر میں ایک طرح کی لگژری موت کو گلے لگایا؟ آخر کیوں وہ ایک ایسی جگہ سے تعلق رکھتی ہے جہاں کی سڑکیں غیر متوازن ہیں؟
ظاہر ہے یہ دونوں منظر میل نہیں کھاتے! اپنے فلیٹ کی بالکونی سے شہر کی گاڑیاں دیکھنے والی لڑکی اپنی آخری رسومات میں ایک ایسی ٹرالی میں سوار ہے جو اس کے لئے ایمبولینس کا کام کررہی ہے! جب تم اپنے سوالات کے جوابات کے لئے لڑکی کے باپ کا چہرہ پڑھوگے تب تم جان جاؤگے، یہ وہی انسان ہے جس نے گاؤں میں پہلی فارمیسی کھولی! عین ممکن ہے وہ اپنی بیٹی کو قبیلے کی پہلی ڈاکٹر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہو! جب تم اپنے متوقع ساس کو دیکھو گے تب یہ بھی جانو گے کہ یہ وہی عورت ہے جو تمہاری محبت کو کچن کے کام ٹھیک سے نہ کرنے کا طعنہ دیا کرتی تھی! کیا تمہاری محبت ایک فرار لڑکی تھی؟ جس نے رہن سہن کے لئے گاؤں کی عوض شہر چنا؟
ڈاٹسن گاؤں میں داخل ہوچکی ہے اور تم یہاں کے گھروں کو دیکھ کر سوچ رہے ہو کیا یہ وہی قصبہ نہیں ہے جہاں لڑکیاں غیر ضروری سامان تصور کی جاتی ہیں!
(دھیان سے! تمہارے پاؤں کا انگوٹھا اس لڑکی کے بدن کو چھو رہا ہے! اپنی ٹانگیں سکیڑو!)

بے شک! تم اِس گھر کے باہر لگی بھیڑ سے جان گئے ہو کہ یہ وہی گھر ہے جہاں کے باسیوں نے اپنا فرد کھویا ہے!
پہلے تمہیں انجن بند ہونے کی آواز سنائی دے گی، پھر سسکیاں اور بعد میں قریب قریب آہ و بکا میں بدلتا ماتم!
حسرت سے اس لڑکی کو گھر کے اندر لے جاتے ہوئے دیکھو!
تم اِس گھر کے مکین نہیں ہو سو زنان خانے کی سمت نہیں جا سکتے! یہ تمہارے لئے علاقہ غیر ہے
دھیرے دھیرے مردوں کے ساتھ گھر کے اس احاطے میں داخل ہوجاؤ جہاں چیری، چیکو، سفیدے اور اخروٹ کے کچھ درخت ہیں، تم انہیں چھو سکتے ہو! اس گمان میں کہ جب وہ اس باغیچے میں آئی ہوگی تب اس نے بھی ان کے تنے اور شاخیں چھوئی ہونگیں!
پر یہ ایک مضحکہ خیز اور غیر سود مند حرکت ہے! بہتر ہے جنازے کے منتظر مردوں کے ساتھ بیٹھ جاؤ اور اتنا وقت انتظار کرو جتنی دیر تمہاری محبت کو غسل اور کفن دیا جانے والا ہے!

توقف کے اِس لمحے میں، مردوں کو جگ سے گلاس بھر کر پانی پیش کرتے اس 23 سالہ جوان کو دیکھو جس کی شکل تمہاری محبت سے ہو بہو ملتی ہے! یہ اُس لڑکی کا منجھلا بھائی ہے، اِس جوان کا چہرہ آج بھی سپاٹ ہے، اسے موت کا کوئی دکھ نہیں، ساری زندگی اِسے کسی نے اپنی بہن سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا!
اِس کدورت کو مٹانے کے لئے لڑکی کے باپ کو دیکھو! وہ دیوار سے ٹیک لگائے ایسے لرز رہا ہے جیسے کوئی پختہ عمارت بس ابھی ڈھ جانے کو ہے!

یہ پاگل پن ہے! تم لوگوں سے نظر بچا کر گھر کے اس حصے میں نہیں جا سکتے جہاں تمہاری محبت کو نماز کا وقت ہونے تک رکھا گیا ہے، مجھے اتنی عجلت میں کہانی بدلنے کا مت کہو! مانا کہ تم آخری بار اس کا دیدار کرنا چاہتے ہو پر میں فقط ایک کہانی کار ہوں، تم مارے جاؤ گے اور آج کے دن میں دو موتیں لکھنے کی سکت نہیں رکھتا!

میں جانتا ہوں تم میری ہر دلیل رد کردوگے، میں تمہیں تنے ہوئے ستونوں اور جالیوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دیکھ رہا ہوں، تم نے راہداری عبور کرلی ہے، لکڑی کے دروازے کو اندرونی سمت دھکیل کر گھر میں داخل ہوگئے ہو، قدرت تم پر مہربان ہے کہ تم بالاخانوں سے آتی عورتوں کی دبی سسکیاں سنتے ہوئے داہنی سمت بنے اس کمرے تک چلے آئے ہو جہاں اسی کے کمرے اُس لڑکی کو لٹایا گیا ہے، جب تم کمرے میں داخل ہورہے ہو تب میرا دل بھی پھٹنے کے قریب ہے، پر تم اُسے دیکھتے ہی پتھر کے ہوگئے ہو!

تم نے اسے دیکھا! وہ سفید چادر میں لپٹی ہوئی ہے، اس کے اطراف کتنے ہی سرخ پھولوں کی پتیاں ہیں، اُس کا دودھیاہی چہرہ ان لال پتیوں کے بیچ چنبیلی کی کلی جیسا ہے! تم کیسے تھرکتے ہوئے پھونک پھونک کر اس کی جانب قدم بڑھا رہے ہو، اففف کہ اِسی لمحے تمہاری آنکھ سے ایک قطرہ ڈھ گیا!

میرے دوست! میرے بھائی! فرطِ عقیدت سے اس کا سرد اور خالی ہاتھ اتنی زور سے مت دبوچو! تمہیں نہیں معلوم کہ یہ سرد مہری تمہارے دیر سے اظہار کے باعث آئی، جس انس اور عقیدت سے تم اپنے ہونٹ اس کے ہاتھوں پر رکھ رہے ہو، کوئی قلم کار یہ منظر قید نہیں کرسکتا!
چوم لو! اس کی پیشانی، ایک سچی محبت کی تلاش میں یہاں بوسے پانے کے لئے وہ ساری عمر ترستی رہی، نرم و گداز گال اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس نے اپنا جسم کسی کو کھانے نہیں دیا، یہ ہونٹ جن پر تم اپنی بلکتی آنکھوں کے ساتھ اپنے پَورے پھیر رہے ہو، مر کر بھی بنجر نہیں ہیں، کیا تم اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر یہ یقین کرنا چاہتے ہو کہ یہیں وہ رحمِ مادر ہے جس میں تم اپنی محبت کا پہلا بیج بوتے! (میں تمہیں جانتا ہوں! تمہاری خواہش پہلی اولاد کا بیٹی ہونا تھا!)

تم اس کے دونوں پیر اپنے ہاتھوں میں بھر کر چوم رہے ہو، تمہیں اس کے پیروں پر ابھرا تِل دکھ رہا ہے، شاید تمہیں پتہ ہے کہ زخم کیسے بھرتے ہیں تبھی تو تم ان ایڑھیوں پر کم عمری میں آجانے والی پھٹن سے اپنے رخسار ملا رہے ہو!
قریب ہے کہ دروازہ کھلے اور کوئی تمہاری موجوگی پاکر شور اٹھا دے، پھر وہ لوگ تمہیں کھینچ کر اس لڑکی سے جدا کردیں، اسی ڈر سے پیروں پر تمہاری گرفت بڑھتی چلی جا رہی ہے!

میں چاہتا ہوں تم یہاں سے چلے جاؤ!
مگر تمہارے آنسوؤں کی دھاریں اُس تِل پر گر رہی ہیں، تم قدم بوسی نہیں روک رہے، تمہاری بندھ چکی ہچکی سے میرا دل پسنج گیا ہے، تم تو وہ ہو جو اس حالت میں موت کو گلے لگانے سے بھی گریزاں نہ ہوگا!

پر اب اس سے قبل کہ میری ہی آنکھیں خون اگل دیں، میں تمہاری کہانی بدل رہا ہوں!
بیدار ہوجاؤ! یہ سب ایک خواب کا منظر تھا جو میں نے تمہیں اس وقت دکھایا جب تم اپنی پیلی ٹیکسی میں بیٹھے “نارنگ انسٹیٹیوٹ” کی بس کا انتظار کرتے ہوئے سو گئے، میں تمہارا کہانی کار ہوں، میں نے تمہاری پتھر آنکھیں جاری کیں، تم سوتے ہوئے رو رہے ہو، میں نے تمہیں دکھلایا کہ تم اُس سے کتنی محبت کرتے ہو، مجھے تمہاری قوت گویائی جگانے کے لئے خواب میں اُس لڑکی کو مارنا پڑا، پھر جب میں نے تمہیں تمہاری محبت سے اُس کمرے میں ملوایا، تب جیسے تم روئے، تمہارا کہانی کار ہار گیا!
اب بس جاگ جاؤ! میرے دکھائے ہوئے خواب سے باہر آؤ!
تمہارا پیراہن اس خواب کی ہولناکی سے پسینے میں شرابور ہوچکا ہے، اٹھو! انسٹیٹیوٹ کی بس پہنچنے والی ہے، اور آج تم اُس سے وہ سب کہ دینا جو تم اس کے پیر پکڑے ہوئے کہ رہے تھے
تمہیں یاد ہے نا کہ اس کے ہاتھ کتنے سرد اور خالی تھے؟
اور یہ سرد مہری اظہار میں دیری سے آتی ہے
وہ بس سے اتر رہی ہے
اس کی سمت بھاگو!
اسے روکو!
اس کا نام لو (تم جانتے ہو کیا نام ہے!)
اور اس سے کہ دو!

Advertisements
julia rana solicitors

اے فلاں لڑکی : مجھے تم سے محبت ہے!!
مجھے تم سے محبت ہے!!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply