مدھر ملن کی شبھ گھڑی/سیّد محمد زاہد

(وہ ایک ایسے میوزیم میں ملتے ہیں جہاں مورتیاں اور پینٹنگز ہندو دھرم کی پریم کتھائیں بیان کرتی ہیں۔ شکنتلا کے ملاپ کی مورتی، اروشی کی جدائی کی پینٹنگ، پریتم ملن کے بعد شکنلتلا کی واپسی کی پینٹنگ۔۔ کہانی آگے بڑھتی ہے اور دونوں مہا بھارت کے کرداروں میں کھو جاتے ہیں )

میں اس میوزیم میں صرف دو شہ پارے دیکھنے آتا ہوں۔ مرکزی ہال کے بیچ میں کھڑے شکنتلا و راجہ دشونت کی بغلگیر مورتیاں اور راجہ روی ورما کی بنائی ہوئی اروشی و وکرم کی قد آدم سے بھی بلند پینٹگ۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے مورتیوں کو پرنام کر کے ان کے گرد طواف کرتا ہوں اور پھر دوسرے مجسموں پر اچٹتی نگاہ ڈالتے ہوئے بام و در اور دالان در دالان پار کرتا ہوا منقش ستونوں اور کٹاؤ دار محرابوں والے پینٹنگز کے ہال میں پہنچ جاتا ہوں۔ ساری تصویریں کئی کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اروشی و وکرم کی پینٹنگ کے پاس پہنچ کر سامنے پڑے بنچ پر بیٹھ کر نظریں جما کر انہیں دیکھنے لگتا ہوں۔
٭٭٭
بہشت کی اپسرا اروشی ورن اور متر دیوتاؤں کی صحبت سے اوبھ گئی تو زمین پر اُتر آتی ہے۔ اندر لوک کے سکھ شانت بھرے ستھر جیون کی بجائے اس مرتیو لوک کی دکھ سکھ اور چنچلتا و چنتا بھری زندگی اسے بھا جاتی ہے۔
راجہ وکرم تن من سے اس پر فدا،ہر شرط پر اس سے وِواھ کرنا چاہتا ہے۔ عہد لیتی ہے، ”میرے میمنوں کی ہمیشہ رکھشا کرو گے: مجھے پرش کا لج کھونا ذرا نہیں بھاتا سو بجز خاص وقت کے میرے سامنے اپنا شریر ننگا نہیں کرو گے۔“
دونوں کئی ورش تک پریم سمبندھ کا آنند لیتے ہیں۔ اس بیچ سورگ کا راجہ اندر ان کا پریم دیکھ کر کڑھتا رہتا ہے۔ بہشتی سنگیت کاروں کے سربراہ گندھروان کو اپدیش دیتا ہے کہ اروشی کو واپس سورگ لایا جائے۔

ایک رات دونوں پریم میں ویست تھے، گندھروان میمنوں کو کھول کر چلتا بنتا ہے۔ شور سن کے اروشی ان کی رکھشا میں کوتاہی پر راجہ وکرم سے ناراض ہوتی ہے۔ وہ اٹھ کر ان کے پیچھے بھاگتا ہے۔ جلدی میں بھول جاتا ہے کہ ننگا ہے۔ ٹھیک اسی سمے گندھروان بجلی کے لشکارے سے کمرے کو روشن کر دیتا ہے۔
راجہ کا برہنہ جسم اروشی کے سامنے۔
عہد ٹوٹ گیا۔
وکرم میمنے تو واپس لے آیا لیکن اروشی ناراض ہو کر واپس چل پڑتی ہے۔
***
اس پینٹنگ میں اس سمے دونوں کے مکھڑوں پر چھائی جدائی کے دکھ کو راجہ روی ورما نے رنگ و برش کے ساتھ کینوس پرایسے بکھیرا ہے کہ پورا ہال ان کے غم میں ڈوبا نظر آتا ہے۔
میں اس کے سامنے بیٹھا رگ وید کے اس قصے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔
کیا سورگ پدھارے بھی واپس آ سکتے ہیں؟
کیا لوک سے پرلوک کا سفر یک طرفہ ہے؟
نہیں؟
ہاں؟
وکرم کو اروشی کشیتر کے تالاب میں سہیلیوں کے ساتھ نہاتی مل جاتی ہے۔
دیوتاؤں کی کرپا ہوتی ہے۔
ان کا مشورہ، ”یگ کرو۔“
کامیابی۔
اروشی اسے مل جاتی ہے۔
یہ باتیں سوچتے سوچتے واپس چل پڑتا ہوں۔ لوٹتے وقت بھی شکنتلا و راجہ دشونت کی مورتیوں کے سامنے کچھ دیر بیٹھنا چاروں طرف گھوم کر اسے دیکھنا نہیں بھولتا۔
٭٭٭
جب میری پتنی جیوت تھی اس کے ساتھ ایک دو مرتبہ میوزیم آیا تھا۔ اس میوزیم میں ہر مہینے کے پہلے رویوار کو داخلہ مفت ہوتا ہے۔ اس دن ہمیشہ سب سے پہلے پرویش کرنے والوں میں شامل ہوتا ہوں۔
آج بھی ان مورتیوں کے سامنے بیٹھا دھیان سے دیکھ رہا تھا۔
منوش جتنا لمبا مورتیوں کا یہ بالکل ننگا جوڑا سنگ مرمر سے تراشا گیا ہے۔ ان کے پتھریلے جسم کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔
عریانی کو صرف تراشا نہیں گیا بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کی گرمی نے انہیں سنوارا بھی ہے: تراشنا صرف ہاتھ کا ہنر ہی نہیں بلکہ کلاکار یہ بھی جانتا ہے کہ محبت کرنے والوں کا کیسے حوصلہ بندھانا ہے۔
مجھے یاد ہے جب پہلی بار بیگم کا ہاتھ تھامے اس مورتی کے سامنے کھڑا تھا تو کیسے من میں خیال سما گیا کہ میں بھی اس کے سینے میں سر دے کر بیٹھوں اور پھر ساری دنیا بھول جاؤں۔ کیسا مدھر اور اٹوت ملن ہے جو یگ یگ سے قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا!

شکنتلا و راجہ دشونت کی مورتی کے  سامنے بیٹھا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ تبھی اپنے ساتھ بنچ پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔
”ایکسیوز می! ایسا لگتا ہے کہ تمہیں یہ مورتی بہت زیادہ بھا گئی ہے۔“
شوخ رنگوں سے سجی ریشمی ساڑھی لگائے ادھیڑ عمر سانولی مہیلا مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی۔ لہجہ ساؤتھ انڈین تھا۔ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی تھی۔ چہرہ جھریوں سے بالکل پاک، کالے گھنگھریالے بال سمیٹنے کے باوجود کانوں کے سامنے رخسار پر کھیل رہے تھے۔ نشیلی آنکھیں مورتی سے حیا مانگ لائی تھیں بدلے میں موٹے سرخ ہونٹ مورتی کے شریر کو لالی دے آئے تھے جو آج پتھر کی سفیدی کے اندر جھلکتی دکھائی دے رہی تھی۔
”جھک کر پرنام کیا: شانتی میرا نام ہے۔“
”میں، ماتلی۔“
اس کی آنکھوں میں تجسس دیکھ کر مجھے اپنی کہانی بتانے کی اِچّھا ہوئی۔
”میں اور میری پتنی اکثر یہاں آیا کرتے تھے، بہت پہلے۔ جب میرے بال سفید نہیں ہوئے تھے، میرے چہرے پر جھریاں نہیں پڑی تھیں، اس وقت شریر کا درد مجھے جگائے نہیں رکھتا تھا، میرا انگ انگ جب میرا ساتھ دیتا تھا، بوڑھا ہونے سے بہت پہلے۔“
“شما کیجئے! میرا یہ مقصد نہیں تھا۔تم تو اداس ہو گئے۔“

اس کی طرف دیکھا، وہ آنکھیں جھکائے اپنے کومل پاؤں کو جھانک رہی ہے۔ندامت ہے یا بھارتی مہلاؤں کی روائتی شرم؟

”ایسی کوئی بات نہیں۔ بہت دنوں بعد کوئی ہندوستانی ملا تو انکھیاں پانی سے بھر گئیں لیکن دل کا غبار دھل گیا۔“
”مجھے بھی یہ پراتیما بہت پسند ہیں۔“
”کیوں نہ ہو؟ بچپن سے کالی داس کا ناٹک دیکھ رہے ہیں۔ اس سمے تو نرم و نازک بالکل ان مورتیوں کے سماں کومل شریر والے بالکے استری کا روپ دھارن کر کے شکنتلا کا کردار نبھاتے تھے۔ ہم انہیں نقلیے کہا کرتے تھے۔“
”ہمارے بچپن میں تو تھیٹر میں مہلائیں آ گئی تھیں: سندر ناریاں۔“
”کوئی بھی دھرم ہندو دھرم کے سماں لنگوں کے بیچ پریم کی سندھرتا پردان نہیں کرتا۔ سنسکرت ادب میں موجود پریم کتھائیں اس کی گواہ ہیں۔ مہابھارت کی اس کہانی کو کالی داس نے ناٹک کا رنگ دیا تو یوں لگا یہی دیوتاؤں کی بھاشا ہے۔“
٭٭٭
جب راجہ دشونت کی یاد داشت واپس آتی ہے اور وہ شکنتلا کو پہچان لیتا ہے تو سندری کے رندھے ہوئے گلے سے آدھی چیکار نکلتی ہے،
‘جے ہو! آریا پتر کی جے۔’
راجہ کہتا ہے،
‘میں نے تیرے چہرے کے درشن ایک بار پھر کیے؛ تم نے سنگھار نہیں کیا تو پھر کیا ہوا، یہ ہونٹ تو پھر بھی گلزار ہیں۔ میں نے تمہیں نہ پہچان کر تمہاری جو توہین کی اس کی کسک اپنے دل سے نکال دو۔’
یہ کہہ کر وہ شکنتلا کے پاؤں میں گر جاتا ہے۔ شکنتلا ‘اٹھیے، اٹھیے آریا پتر ‘ کہہ کر اسے سینے سے لگا لیتی ہے۔
اس میوزیم میں پڑی ان مورتیوں کا یہ سنیوگ اسی ناٹک کا وہی انتم درشے ہے جب ورشوں کی پیاسی شکنتلا اپنے پتی راجہ دشمنت کو اپنی باہوں میں لپیٹ لیتی ہے۔“
٭٭٭
شانتی میری طرف ایسے دیکھتی ہے جیسے بوڑھا نہیں جوان مرد ہوں۔ میں بھی اپنا  بڑھاپا بھول جاتا ہوں۔
”میں تمہیں اکثر اروشی اور وکرم کی تصویر میں بھی کھوئے  ہوئے دیکھتی ہوں۔“
”اس تصویر میں جدائی کا دکھ ہے۔ ویوگ جو میری پتنی مجھے دے گئی ہے۔
اور ان مورتیوں میں سنیوگ کا سکھ مسکرا رہا ہے۔“
”تم نے اسی میوزیم میں موجود مونالیزا کی پینٹنگ بھی دیکھی ہوگی۔ دکھ اور سکھ دونوں اکٹھے مونا لیزا کے ہونٹوں پر مل جاتے ہیں۔“
اس کے ہونٹوں کو غور سے دیکھو تو ایک افسردگی کا احساس چھلکتا نظر آتا ہے اور نظریں چہرے سے ہٹا کر کنکھیوں سے جھانکو تو وہی ہونٹ مسکرا اٹھتے ہیں۔ یوں جیسے کسی اداس و نراش چترکار نے ہونٹ بنائے اور ہنسی چپکے چپکے خود ہی ان میں سما گئی ہو۔ مونا لیزا کا چہرہ بھی کبھی پرش جیسا دکھتا ہے اور کبھی مہلا جیسا۔ شاید اس میں راجہ وکرم کے ویوگ کا روگ اور شکنتلا کے سنیوگ کا سکھ دونوں سمائے ہوئے ہیں۔“
کچھ دیر خاموش رہتی ہے پھر پوچھتی ہے،
”تمہارا کیا خیال ہے شکنتلا اور راجہ دشونت کی یہ پراتیما کیا کہتی ہیں؟
”ہر مہینے دیکھتا ہوں، ہر بار نیا سندیش دیتی ہیں۔“
اب شانتی کی آنکھوں سے شرارت جھلکنے تھی۔ میں اپنی بات جاری رکھتا ہوں،
”طالع سوتے ہو ئے دونوں کے جاگے، دکھ درد یک لخت بھاگے۔“
”ایسا پرش جو دکھ کا علاج ایک سنگم میں پا لیتا ہے وہ ملن کے اسی سکھ کا حقدار ہے جو ان مورتیوں میں نظر آ رہا ہے۔“
اس کی شرمیلی آنکھوں سے مدھر ملن کی چاہت ٹپک رہی تھی۔
‘اتنا کھلا سندیش!’
میں پیار بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں لیکن وہ شرم سے گلنار آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں کرتی، اٹھ کر مورتیوں کے پاس چلی جاتی ہے اور اپنی نظریں اُن  پر جمالیتی ہے۔
میں بھی اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ شانتی بہت دھیرے دھیرے بول رہی ہے۔ سننے کے لیے اس کے قریب جھک جاتا ہوں۔
”میں تمہیں بتاتی ہوں۔ میں تم سے زیادہ جانتی ہوں۔
میں تمہیں کئی بار اس میوزیم میں دیکھ چکی ہوں۔ تم سمجھتے ہو کہ بوڑھے ہو چکے ہو لیکن عمر ایک وچار ہے، تمہاری ان شاہکاروں میں دلچسپی بتاتی ہے کہ تم جوان ہو۔“
چپ چاپ اس کی باتیں سنتا جاتا ہوں۔
”تم نے غور کیا ہوگا کہ مورتی نرماتا نے شکنتلا کی گردن کو ایک خم دے کر دعوت محبت کے پوروی ڈھنگ کو اس مورتی میں قید کرلیا ہے۔ بایاں ہاتھ یوں لٹکا ہوا ہے جیسے کسی درخت کی بے جان ٹہنی اور دایاں انگور کے گوشوں جیسے پستان کو چھپا رہا ہے۔ گھٹنوں کے بل جھکے راجے کا مکھڑا اس کے سینے میں سمایا ہوا ہے۔
تم نے یہاں موجود یونانی دیویوں کا ننگ ناتا دیکھا ہوگا، ان میں مکمل ننگا پن ہے لیکن کلاکار نے ہماری دیوی کے ملن میں پوروی لجا کا دھیان رکھا ہے۔
یہ مورتیاں، یہ پینٹنگ سندیسہ  دیتی ہیں کہ دوری کی کسک اور جدائی کی ٹیس محبت کی بڑھوتری کرتی ہیں گرچہ ہندوستانی مہلائیں انہیں بیان نہیں کرتیں۔“
وہ واپس مڑتی ہے۔

میں اس کی باتیں سن رہا تھا لیکن دماغ اسی بات میں الجھا تھا۔ اس کا کیا مطلب تھا؟ بھارتی مہلاؤں کی شرم و حیا کا ذکر اوراس کا اپنا محبت کا واضح پیغام؟
”تم مجھے کب سے دیکھ رہی ہو؟“
”میں ہر رویوار ادھر آتی ہوں۔ راجہ روی ورما اپنی پینٹنگز اور پرنٹنگ پریس کی مدد سے دیوتاؤں کو گھر گھر لے آیا تھا۔ ان ممالک نے ان پینٹنگز کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ایک چھت کے نیچے جمع کر کے ہم ودیسیوں کو پوجا کرنے کا اوسر پردان کیا ہے۔
میں اکیلی ہوں تمہیں دیکھا تو اکیلا پن دور ہونے لگا ۔“
شانتی میری طرف دیکھتی جاتی ہے،
”تم مجھے ایسے دیکھ رہی ہو جیسے میں کوئی جوان آدمی ہوں۔“
”تم سندر آدمی ہو اور مجھے لگتا ہے کہ تم دکھشنی بھارت سے ہو۔“
”میں کیرلا سے ہوں۔ جہاں کا راجہ روی ورما تھا۔
اس میوزیم میں تمہیں اور کیا پسند ہے؟“
وہ پینٹگز والے ہال کی طرف چل پڑتی ہے،
”یہ روی ورما کی سب سے پیاری پینٹنگ ہے۔“
٭٭٭
شکنتلہ اپنی سکھیوں کے ساتھ تپ ون میں پوجا کے پھول چننے آئی ہے۔ شام ہونے کو ہے۔ پچھم میں سوریا مہاراج، اپنے رتھ پر سوار، شفق کے رتھ بان ارون کے پیچھے، آرام کی غرض سے درختوں کی اوٹ میں چھپ جانے کو تیار ہے۔ اس کی چمکتی روشنی میں درخت سرخ ہو گئے ہیں لیکن وہ جاتے جاتے بھی دور پہاڑیوں اور بادلوں پر اپنی روشنی پھینک کر ان کے حسن کو دوچند کررہا ہے۔ یہی چمک زمین پر بہتے جھرنے کو بھی روشن کر رہی ہے۔
سائے لمبے ہو گئے ہیں۔ چمبیلی کی وہ بیل جس نے موسم بہار میں آم کے پیڑ کے ساتھ اپنا بیاہ رچایا تھا پوری طرح اس سے لپٹ چکی ہے۔ بیل پر کھلی سفید کلیاں کمسن دلہن کی جوبن کی یاد دلاتی ہیں۔ شکنتلا اس بیل اور نئی کونپلوں سے لدے پیڑ کا سنجوگ دیکھ اپنا من بھاونا دلہا تلاش کر رہی ہے۔
وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کرتی ہے۔ پریمودا کے ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری ہے۔ اس کی باہیں پیڑ کی نازک نازک ٹہنیاں، اسکے لب لعلیں سرخ سرخ کونپلیں اور اس کا پھٹا پڑتا جوبن ٹوکری میں پڑے تازے کھلے پھولوں جیسا۔
سامنے اس تپ ون کا اک رشی سر جھکائے گذر ہا ہے۔مانو عمر پرش کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔
مصور نے اپسراؤں کے سنگھار سے بچے رنگوں سے پورے ماحول کو ارمان و چاہ میں رنگ دیا ہے۔

شکنتلا نے آج دوپہر پہلی بار راجہ دشونت کو دیکھا تھا اب بار بار دیکھنے کومن چاہتا تھا۔
شکنتلا کا دایاں بازو پھڑکنا شروع کرتا ہے تو وہ سوچتی ہے کہ کیا محبت کا کوئی نیا سندیسہ آیا ہے؟ کیا پریتم نے اسے چپکے چپکے پکارا ہے؟
وہ اپنی سکھی انسویا کو پکار کر کہتی ہے، ‘ہائے میرے پاؤں میں دوب کا کانٹا چبھ گیا، اوئی میرا پلو جھاڑی میں الجھ گیا۔’ پلو کو سلجھانے اور کانٹا نکالنے کے بہانے مڑ کر راجہ کو دیکھتی ہے۔“
٭٭٭
میں مالتی کے میٹھے بولوں میں گم اس کی اور دیکھتا جاتا ہوں۔ جب وہ رکتی ہے تومجھے پتا چلتا ہے کہ اس نے مجھے مدہوش کردیا ہے۔
”میں کلاکار کے کمال اور تمہاری باتوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ کلاکار نے مقدس تپ ون کو زندہ کردیا ہے اور تمہارا بیان مجھے اس ماحول میں لے گیا ہے۔“
شانتی اپنا داہنا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر پینٹنگ کی طرف دیکھتی جاتی ہے،
”اس پینٹگ میں کنواری کنیاؤں کے ارمان اور بھٹکی بھٹکی آشائیں کینوس پر بکھری نظر آ رہی ہیں۔ شکنتلا کے چہرے پر ارمانوں کی اداسی چھائی ہوئی ہے، وہ اداسی جو محبوب کا ساتھ مانگتی ہے۔ دیکھو اس سندری کے مرگ نین اس شکاری کو ڈھونڈ رہے ہیں جو اس ہرنی کو پکڑ لے اور اسے اپنے دل میں قید کر لے۔“
”اس کی سکھیوں کو دیکھو، ایک سا رنگ روپ اور وہ ایک ہی عمر کی ہیں۔
مقدس تپ ون میں بسنت کی مست رت، سہانا موسم اور اپسراؤں کا توبہ شکن حسن، شکنتلا جگمگاتی ہوئی بجلی کی جوت، جیسے سپنے میں چل رہا ہو کوئی، مانوں پریتم اس جوت میں گھر گیا ہے۔“
”یہ اپسرائیں اپنے ساتھ بھی ایک ناٹک کر رہی ہیں۔“
”تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟“
”وہ اپنے ہی عشق میں کھوئی ہوئی ہیں۔ پھول،پتے، جھرنا، کونپلیں،سب کے ساتھ، سب سے بے نیاز اپنی ہی دھن میں مگن۔“
وہ میرےکندھے پر سر رکھ دیتی ہے۔ شانتی کے شریر کی گرمی، سانسوں سے ابھرتی مہک مجھے مدہوش کر دیتی ہے۔
میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔
”تمہارا چہرہ سرخ ہو گیا ہے۔“
شانتی اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی سے میری تھوڑی کو اوپر اٹھا کر پوچھتی ہے، ”کس کارن تمہارا شریر آگ میں پھنک رہا ہے؟“
”تمہیں یہ بھی پتا ہوگا کہ میرا یہ حال کیوں ہوا؟“
شاید تم پچھلے جنم میں کوئی پریمی رہے ہو، جس کی پریمیکا کھو گئی تھی، کسی اپسرا کی چاہت میں جنگل جنگل گھومے ہو؟
شاید تم وشوا مترا ہو؟ جو اندرا کے مقابلے میں ایک نیا سورگ بنانا چاہتا تھا۔ وہ تم سے ڈر گیا کیونکہ کٹھور تپسیا سے تم بھی ادھک شکتی شالی ہو سکتے تھے۔ دیوتاؤں کے دیوتا اندرا نے پھر اپنی اپسرا مانیکا کو پرتھوی پر بھیجا کہ تمہیں بہکا سکے۔ مانیکا، جو دودھ کے سمندر کی جھاگ سے پیدا ہوئی تھی، بادلوں میں، ہواؤں میں، اڑتی آتی ہے اور تم اس کے پریم میں کھو جاتے ہو۔
تم کوئی مہا پرش تھے جو کسی بھی مصیبت میں کبھی ڈانواں ڈول نہیں ہوتا یا شاید کوئی سیناپتی رہے ہو جس نے مہابھارت میں کورو پانڈو یدھ میں اپنی شکتی کا سار دکھایا ہو، جسے سندر ناریوں کی سورکھشا کی چنتا ہو؟ یا تم ارجن ہو جو کرشنا کی بہن سوبھادرا سے ویواہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا سو تم اسے بھگا کر لے گئے۔
ہاں! ارجن ہی دِکھتے ہو؟“
”تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟
تم مذاق کر رہی ہو؟
کیا تم سوبھادرا ہو؟“
وہ ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنے لگتی ہے،
”نہیں! میں سوبھادرا ہوں اور نہ تم ارجن۔ لیکن تم کچھ بھی بن سکتے ہو کیونکہ تم راج کمار کی طرح دکھتے ہو۔ لوگ کبھی کبھی کلپنا کرنا پسند کرتے ہیں۔ کیا تمہیں بھی روپ دھارنا پسند ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تم نے بتایا کہ تمہارے بچپن میں نقلیے کیا کرتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ تم یہ چاہو گے۔
سوچوکتنا مزہ آئے گا!
میں تمہیں دیکھتے ہی جان گئی تھی کہ تم یہ کھیل کھیلو گے۔ تم کلپنا کرنا چاہو گے کیونکہ جہاں ہم جا رہے ہیں وہاں جانے کے لیے کچھ کلپنا کی ضرورت ہوگی۔ سوچو کہ ہم اس یگ میں جانا چاہتے ہیں۔ تم اپنی یہ شکل کھو دیتے ہو۔ تم اپنی مادی حالت بدل لیتے ہو، کیول ایک وچار یا آتما ہی بن کر رہ جاتے ہیں جو ہر جگہ جا سکتی ہے۔“
ہال میں بہت سے لوگ آ جا رہے ہیں لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ پینٹنگ میں موجود انسویا اپسرا کی دنبالے دار آنکھیں ہمیں گھور رہی ہے۔ ہمارے ہلکے پھلکے شریر ہوا میں اڑ کر اس کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
”انسویا ہمیں دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔“
”مسکرا رہی ہے یا بلا رہی ہے؟“
ہم دونوں چپ چاپ پینٹنگ پر جھک جاتے ہیں۔ وہ میرے ساتھ لگ جاتی ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن مجھے سنائی دیتی ہے تو میرا دل اچھل کر سینے سے باہر نکلنے کو مچلنے لگتا ہے۔
سمے رک جاتا ہے۔ میں اپنی سدھ کھو دیتا ہوں۔ اگر کسی حسین کو دیکھ کر یا کوئی مدھر گیت سن کر بندہ سدھ کھو دے تو یہ سمجھنا چاہیےکہ کسی پیارے کی بھولی بسری یاد تازہ ہو گئی ہے۔ میرا کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے لگتا ہے کہ میں گر جاؤں گا۔ وہ مجھے تھام لیتی ہے۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ہاتھ میری کمر پر گھوم رہا ہے۔
کیا یہ کوئی پریم سندیسہ ہے؟
میں اس کا ہاتھ تھام لیتا ہوں۔ اس کے ہاتھ کی گرمی سے میری ٹھنڈی انگلیاں جلنے لگتی ہیں تو اس کا ہاتھ اپنے گال پر رکھ لیتا ہوں۔ مجھ جیسے ضعیف و نزار آدمی کو کوئی ان دیکھی شکتی حوصلہ دیتی ہے اور میں اس ہاتھ کی پشت پر اپنے ہونٹ رکھ دیتا ہوں۔ اس کے چہرے کا ایک ایک رواں ابھر آتا ہے۔
وہ دھیرے سے بولنے لگتی ہے،
”تمہیں اننت جیون مل سکتا ہے۔ کیا تم ایک خواب بن کر مجھ میں سمانا چاہوگے؟“
میں اک پل میں ورتمان کو بھول جاتا ہوں۔ نتیانند کی چاہ مجھے گھیر لیتی ہے۔
”تمہارا کیا مطلب ہے؟“
”کچھ بھی نہیں۔ مونا لیزا کو یاد کرو۔ وہ اس وقت مسکراتی ہے جب تم اس سے نظر پھیر لیتے ہو۔
تم بھی اپنی اور مت دیکھو۔ اپنے بارے میں چنتا مت کرو۔ کبھی کبھی سمسیائیں سامنا کرنے سے نہیں بلکہ ادھر ادھر بھٹکنے سے حل ہو جاتی ہیں۔
حل خود چل کر تمہارے پاس آئے گا۔ اس سنسار کی چنتا چھوڑ دو؟
آؤ، اس یگ سے اس یگ میں چلیں۔ آؤ! لوک سے پرلوک کی طرف بڑھیں۔“

وہ میرے ہونٹوں کو دیکھنے لگتی ہے۔ اپنے ہونٹ میرے سامنے لاتی ہے۔ ہونٹ ہونٹ سے ملتے ہیں وہ پیچھے جھک جاتی ہے۔ داہنا ہاتھ میری گردن کو تھامے رکھتا ہے اور میرا داہنا ہاتھ اس کی کمر کے نیچے اسے گرنے سے روک لیتا ہے۔ آنکھوں میں لال لال ڈورے تیرنے لگتے ہیں، خم دار ابرو یوں کھچ جاتے ہیں جیسے کام دیو کی کمان۔
”او راما! جب شیو نے محبت کے پیڑ کو جلا کر راکھ کیا توتقدیر نے ایک شاخ علیحدہ رکھ دی تھی، کیا یہ وہی شاخ ہے؟
کوئی سپنا ہے یا میرا واہمہ؟
کیا سہانا سماں ہے!“
ہونٹ میرے کان کے پاس لا کر کہتی ہے۔
”میرے پریتم، تمہارا چوما تمہاری جوانی سے میل کھاتا ہے، کام دیو کے پانچوں تیروں میں سے سب سے تیکھا تیر، بان بن کر مجھے گھائل کر گیا ہے۔
یہ سپنا ہے نہ واہمہ، تم جوان ہو اور ہمیشہ جوان ہی رہو گے۔
چلو پریتم! چلیں۔

کیا تم تیار ہو؟“
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑتی ہے۔ تیزی سے شکنتلا اور راجہ دشونت کی مورتیوں کی اور۔
”ان مورتیوں کو دیکھو۔
ماہرین طبیعات کہتے ہیں ‘ٹھوس شکل ایک وہم ہے۔’ گوتم کا سندیش ہے، ‘روپ اصل میں خالی پن ہی ہے۔ یہ خالی پن ہی شکل کا روپ دھارتا ہے۔’ ہردیہ سترا بتاتا ہے، ‘ہر چیز کا جوہر خالی ہے۔’
سنگ مرر سے بنی ان مورتیوں کو چھو کر دیکھو، کچھ نہیں ملے گا۔ خلا! بس خلا۔
تم بھی خالی ہو، میں بھی۔ “
میرا سر گھومنے لگتا ہے۔ لیکن میں خود کو بہت ہلکا اور مضبوط محسوس کرتا ہوں۔
”بہت سندر، تم نے مجھے جوان کر دیا۔ دھنیہ واد، اس وچار کا بہت دھنیہ واد۔“
”چلو! آؤ، چلتے ہیں، اس مورتی کے اندر۔“
مورتی کا خالی پن مجھے اپنی اور کھینچنے لگتا ہے۔
”نہیں میں نہیں جانا چاہتا۔“
مجھے پتا نہیں یہ میرا شریر ہے یا میری آتما؟

”ٹھہر جاؤ! شانت رہو ،تم مرتیو لوک سے امرتیو سنسار کی طرف جا رہے ہو۔ امر جیون، میرا وعدہ ہے۔ مورتی کو خود سے ہم آغوش ہونے دو۔“
میں خود کو مورتی سے دور کر لیتا ہوں تو میرا دل شریر کو چیر کر باہر آجاتا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچ لیتا ہے۔
”یہ ٹھیک نہیں ہے؟ تم مجھے بہکا رہی ہو۔“
”دیوتاؤں کی کرپا ہے،
یاد کرو دیوتاؤں کا مشورہ تھا، ‘یگ کرو۔’
تمہارے بھاگ کی کنجی تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
اپنی آتما کو شانت کرو۔
اب دبدھا میں پڑنا بیکار ہے۔
وکرم کی پوجا سپھل ہوئی اور اسے اروشی واپس مل گئی۔ وہ سورگ سے واپس لوٹ آئی۔
تمہاری پوجا بھی سپھل ہو گئی۔ ہم پریمی ہیں، گپت پریمی۔ میں وہی ہوں جس کی تلاش میں تم ادھر آتے تھے۔“
جیسے ہی میرا سینہ پھٹا شدھ ہردے ہواؤں کے تل اور جل بھرے بادلوں پر سوار ہو کر مورتی کے اندر پہنچ گیا۔
پھوار برساتی، سورگ سے زیادہ پرکیف، ہوائیں ہیں یا کہ امرت کنڈ جس میں میں تیر رہا ہوں۔
میری کمر بھی آگے کو نکلنے لگتی ہے، میرے پیٹ سے باہر، دل کے پیچھے پیچھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں آہستہ آہستہ مورتی میں داخل ہو جاتا ہوں۔ خالی پن خالی پن میں گھل مل جاتا ہے۔ مورتی کے اندر سے میں جھانکتا ہوں توپورا ہال خالی ہو چکا ہوتا ہے۔ میرا ہاتھ تھامے وہ بھی شکنتلا کی مورتی میں داخل ہو جاتی ہے۔
میں گھٹنوں کے بل گرا پڑا تھا۔ وہ مجھے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے،
”اٹھیے آریہ پتر، اٹھیے۔“
میں اپنا منہ اس کے سینےمیں چھپا لیتا ہوں۔
اس کے غیر مرئی ہونٹ مجھ سے دور، شرمیلی سی، پوروی لجا سے بھری مسکراہت سجائے گنگنانے لگتے ہیں۔
”تمہاری مراد بر آئی ہے۔
یاد کرو! ابھی کل کی ہی بات ہے تم اپنی پتنی کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے۔ تمہاری چاہت تھی کہ تم بھی اس کے سینے میں سر دے کر بیٹھو اور پھر ساری دنیا بھول جاؤ۔ تم بھی ایسے ہی مدھر اور اٹوٹ ملن کے خواہش مند تھے۔
وہی شبھ گھڑی آ گئی ہے۔“

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply