رودادِ سفر (24) ۔۔شاکر ظہیر

ہماری کالونی میں جہاں اور بہت سے عرب ممالک کے باشندے رہتے تھے وہاں ایک بہت پیارا سا دوست ، بھائی نجیب بھی جو بہت ہنس مکھ اور دیکھنے میں پاکستانی ۔ بلکہ وہ یہ کہتا کہ مجھے اکثر لوگ پاکستانی ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ یمن کے شہر تعز ( Taiz ) کے رہنے والے تھے اور یہ بھی بتاتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کسی دور میں ہندوستان سے ہجرت کرکے یمن میں آباد ہوئے تھے ۔ ہماری بلڈنگ کے دوسرے فلور پر بھی یمنی بھائی احمد اپنی فیملی سمت مقیم تھے یعنی ان کی زوجہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا جس کی پیدائش چائنا ہی میں ہوئی ۔ نجیب اور احمد بھائی دونوں ایک ہی کمپنی کے آفس میں کام کرتے تھے ۔ ان کے کمپنی کا سعودیہ میں کاروبار تھا اور اس کےلیے وہ مصنوعات یہاں سے خریدتے تھے ۔ نجیب کا کام مارکیٹ سے مصنوعات کا آرڈر کرنا اور گودام میں مال ریسیو کرنا تھا جس کے بعد کنٹینر میں لوڈ کر کے سعودیہ بھیج دیا جاتا ۔ نجیب بھائی سے میری بہت اچھی گپ شپ اور دوستی تھی ۔ اکثر میں انہیں کھانے کےلیے گھر بلاتا تھا ۔ مارکیٹ میں ہم کہیں اچانک مل جاتے تو گلے لگ کر ایک دوسرے کو عربی بوسہ دیتے ۔ جو عربوں میں گرمجوشی سے ملنے کی علامت ہے لیکن چائینیز یہ دیکھ کر کچھ اور ہی مطلب نکالتے تھے اور ہنسنے لگ جاتے ۔ ان کے خیال میں ہم دونوں کہیں عاشق معشوق ہیں ۔ یہ بات جاننے کے بعد ہم خاص طور پر ایسا کرتے تاکہ وہ عربوں کی اس روایت کو اچھی طرح جان لیں اور یہ بات ان کےلیے اجنبی نہ رہے ۔ شاید یہی کسی معاشرے کا عرف و عادت کہلاتا ہے ۔ جو بات باقی عربوں کےلیے معمول کی بات تھی وہ چائینز معاشرے میں انوکھی بات کیونکہ انہوں نے ایسا کبھی دیکھا نہ تھا یعنی ان کے معاشرے کی عرف و عادت نہ تھی ۔شاکر
اگر اس بات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ محدثین جن کی اکثریت غیر عرب تھی جو اپنا ایک بیک گراؤنڈ رکھتے تھے جیسے وہب بن منبہ جو یمن کے یہودی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے شاگرد تھے اور جن کے اپنے ہاں ایک تفسیری روایت موجود تھی جو چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو بھی تحریر میں لانا ضروری سمجھتے تھے جس کی مثال یہود کی مشناتہ اور گمارا ہیں ۔ ان کےلیے اس مدنی معاشرے کی ہر بات نئی اور اہم تھی اس لیے وہ اس معاشرے کی چھوٹی سی بات کو تحریر کرتے جاتے ۔ جبکہ وہ بات کیونکہ اس معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہو رہی تھی اس لیے مقامی لوگوں کےلیے عام سی بات یا روازنہ کا معمول ۔ مسجد نبوی میں جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ یا خلفائے راشدین کے پیچھے روزانہ نمازیں پڑھیں اور وہ وہاں کے مقامی تھے ان کےلیے اس میں کوئی بھی عمل معمول کی بات تھی کہ آج رسول اللہ ﷺ کے گھٹنے میں تکلیف ہے اس لیے دونوں پاؤں نکال کر تشہد میں بیٹھے ہیں لیکن باہر سے آنے والے کےلیے وہی بات قانون بن گئی ۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جن چائنیز کا بہت زیادہ واسطہ جن ممالک کے لوگوں سے پڑتا تھا وہ ان کی عرف و عادت سے اچھی طرح واقف ہو جاتے تھے اور جن کا کبھی کبھار واسطہ پڑتا وہ بہت سی باتیں نوٹ کر کے پوچھتے رہتے تھے ۔
احمد بھائی کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تو میری بیوی دن کو اکثر احمد بھائی کے گھر چلی جاتی تاکہ اس کی بیوی کے کام میں کچھ ہاتھ بٹا سکے ۔ کچھ اور یمنی خواتین بھی جو قریب ہی رہتی تھیں آ جاتی تھیں ۔ سب مل کر کچھ نہ کچھ خاص اپنے علاقے کی ڈش تیار کرتی تھی ۔ اور ساتھ ہنسی مذاق بھی ۔ ایک دن ان کے ہاں اکٹھے ہونے کا پروگرام تھا تو میری بیوی ماریا کو بھی سپیشل بلایا گیا ۔ شام کو واپسی پر میری بیوی کی ہنسی رک نہیں رہی تھی ۔ میں پوچھا کیا ہوا ۔ بتایا کہ ہم ساری خواتین احمد کی بیوی کے ساتھ باہر ہال میں بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھیں ۔ احمد کی بیوی اپنے بیٹے کو سلا کر کمرے میں بستر پر لٹا آئی ۔ اچانک اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا ۔ بھاگ کر جا کر دیکھا تو احمد کی چھوٹی بیٹی اور میری بیٹی جو اس وقت صرف شاید دو اڑھائی سال کی تھی اس کے عضو کو پکڑ کر کھینچ رہی ہیں ۔ احمد نے بیوی نے جا کر دونوں کو منع کیا تو احمد کی بیٹی نے کہ ماں یہ بھائی کے ساتھ کیڑا چمٹ گیا تھا ہم اسے کھینچ کر علیحدہ کر رہی تھیں ۔ یہ بچوں کی شرارتیں اور معصومیت ۔ پھر ساری محفل ہی گلزار بن گئی ۔
ان لطیفوں کے ساتھ ساتھ گھر میں نئی نئی اسلامی چیزوں کی انٹری ہوتی رہتی تھی ۔ کیوں میری بیوی دوسرے فلور پر مقیم یمنی احمد بھائی کے گھر جاتی رہتی اور ان کی زوجہ سے بہت کچھ پوچھتی رہتی ۔ کبھی مسلم سنت والی کجھور اور کبھی عطر اور ایک دن زیتون کا تیل ۔
اور چیزیں تو سنت کے نام سے داخل ہوئیں لیکن زیتون کا تیل قرآن کے حوالے سے کہ اس کی قسم قرآن میں خدا نے خود اٹھائی ہے ( سورہ التین ) ۔ یہ بات میری بیوی کو احمد بھائی کی بیوی نے بتائی ۔ لیکن مجھے خود سمجھ نہیں آئی کہ یہ انجیر اور زیتون میں کون سا کمال ہے کہ اس کی قسم خدا نے اٹھائی یا دوسرے لفظوں میں اسے شہادت کے طور پر پیش کیا ۔ کیونکہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے اس طرح کی قسموں کو شہادت کے معنی میں لیا ہے اور میرے علم میں اس وقت تک یہ بات بھی نہیں تھی کہ کیا عرب میں اس وقت تک زیتون اور انجیر کی کاشت ہوتی تھی اگر نہیں تو ظاہر ہے باہر سے امپورٹ کی جاتی ہوگی ۔ تو باہر سے لائی جانے والی چیز کی شہادت کو مقامی لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی وجہ ؟ فوائد تو دنیا کے ہر چیز میں خدا نے رکھے ہیں لیکن یہ کیا خاص بات ہے کہ اسے ( زیتون ) اور انجیر کو شہادت میں پیش کیا گیا ۔ کیونکہ اس سورہ میں آگے دو مقامات کا ذکر ہے جنہیں گواہی میں پیش کیا گیا ہے ایک طور سیناء جہاں موسیٰ علیہ سلام کو توریت کی شریعت دی گئی اور دوسرے مکہ کا شہر جہاں پر آخری نبی کی بعثت ہوئی ۔ شروع میں دو پھل اور آگے دو مقامات یہ ایک بے جوڑ سی بات بن رہی تھی ۔ پہلے دو بھی کوئی ایسے مقامات ہونے چاہیے جس کے ساتھ اللہ کے دین کی کوئی روایت وابستہ ہو جیسے اگلے دو طور سینا اور مکہ کا شہر ۔ شاید اس وقت تک یہ بات میرے ہی ذہن ہی میں آئی کیونکہ میری بیوی کے پاس اس وقت تک چائینز ترجمہ قرآن تھا تو سہی لیکن شاید اس کی توجہ نہیں ہوئی تھی ۔ ورنہ جہاں وہ اپنی غیر موجودگی میں گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلی کو بھی واپس ا گر چیک کرتی یہ تفتیش بھی اس نے ضرور کرنی تھی ۔ پھر مجھے آرڈر ہو گیا کہ بازار سے زیتون کے تیل کی بوتل ڈھونڈ کر لانی ہے کہ یہ مبارک تیل ہے ۔
نجیب کو ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھایا اور وہ مجھے اس سبزی مارکیٹ لے گیا جہاں پر کریانہ کی وہ دوکان جس میں سارے مصالے ، پاکستانی سہلہ چاول ، انڈین آٹا ، دہی ، مائنیز ، کافی ، دالیں ، چنے ، بیسن ، کالی چائے ، پاکستانی اچار اور زیتون کا تیل ملتا تھا ۔ یہ ساری وہ چیزیں تھیں جن سے اس وقت تک بہت کم چائینز واقف تھے ۔ اور بہت ہی تھوڑے لوگ انہیں استعمال کرتے تھے ۔ ہمارے لیے پھر یہ دوکان مرکز بن گئی ۔ کہ اپنے علاقے کی محسوس ہوتی تھی ۔ اسی سبزی مارکیٹ میں مجھے تازہ انجیر بھی ٹوکری میں رکھی نظر آئی تو وہ بھی خرید لی کہ مسلمانی کے لوازمات پورے ہو جائیں ۔ ویسے یہ سیب ، انار انگور اور ناشپاتی وغیرہ کیوں حقیقی مسلمان نہ بن سکے وہ بھی رب کی نعمتیں ہی ہیں ، اس کی وجہ بھی مجھے سمجھ نہ آئی ۔ کسی چیز کا صحت کےلیے بہت مفید ہونا الگ بات ہے لیکن کسی چیز کے ساتھ تقدس کا جڑ جانا الگ بات ۔ ابھی ایک شہد بھی رہتا تھا جس کی مکھی پر خدا نے وحی کی تھی لیکن وہ وحی کیا تھی اور جسے تمام بیماریوں کا علاج کہا گیا لیکن میری بیوی کو میٹھا پسند نہیں اس لیے وہ اس کی مسلمانی سے گریز ہی کر رہی تھی حالانکہ وہ تو چائینز برانڈ کے ساتھ تمام بڑے سٹوروں پر موجود تھا کہ چائنا میں شہد کی بہت بڑی پیداوار تھی ، ورنہ احمد بھائی کی بیوی نے اسے بھی مسلمان بتایا تھا ۔ کجھور کی جگہ چائنا میں سوکھے بیر وافر مقدار میں دستیاب تھے ۔ ان میں مٹھاس بھی نارمل ہی ہوتی ہے اور طبیعت پر بھاری پن طاری نہیں کرتے شکل بھی بالکل کجھور ہی کی طرح ہوتی ہے ۔
ضرورت کی چیزیں خریدیں جن میں زیتون کا تیل تو سپیشل تھا لیکن یہ کیا یہ تو اسپین ( Spain ) سے امپورٹ کیا گیا تھا تو کیا یہ بھی مبارک ہی تھا ۔ خیر تھا تو زیتوں ہی کا تیل مبارک والی بات بعد میں دیکھ لیتے ۔ اب وہاں کسی مسلمان سرزمین کا تو تھا نہیں اور کیا کرتا ۔ یہی معاملہ انجیر کا بھی تھا وہ بھی جو میں نے تازہ خریدی وہ بھی چائنا ہی کی پیداور تھی ۔
بعد میں اور نجیب نے پروگرام بنایا کہ مسلم میکڈونلڈ کھانا ہے ۔ ہماری کالونی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں او آئی ( Wu ai ) کی کالونی آتی تھی ۔ اس کالونی میں بھی بہت سے مسلمان چائینز اور عرب پاکستانی رہائش پذیر تھے ۔ اور دو چائنیز مسلمانوں کے کریانہ سٹور بھی تھے جن میں وہی چیزیں ملتی تھیں جن کے خریدار عرب اور پاکستانی ، انڈین تھے لیکن یہ مہنگے تھے ۔ چائنیز مسلم کے ریسٹورنٹ بھی کافی تعداد میں تھے اور ان پر رونق لگی رہتی تھی ۔ انہی ریسٹورانٹ میں ایک مسلم میکڈونلڈ بھی تھا ۔ یہ شاید پاکستان میں بات عجیب لگتی ہو لیکن ہمارے لیے نعمت تھی جہاں آپ اعتماد کے ساتھ حلال گوشت کھا سکتے تھے ۔
یہ کھانے پینے میں حلال و حرام کھانے کا مسئلہ پہلے پہل چائنا میں بہت تھا لیکن اب شاید ہر علاقے میں آپ کو کہیں نہ مسلم ریسٹورنٹ مل ہی جاتا ہے ۔ یہ ریسٹورنٹ زیادہ تر کانسو ( Gansu ) ، چھن ہائی ( Qinghai ) کے مسلمانوں نے کھولے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ دو ہزار آٹھ سے پہلے تو ایغور مسلمانوں کے بھی بہت سے ریسٹورنٹ تھے لیکن وہ آہستہ آہستہ حکومت کی طرف سے سمیٹ دیے گئے اور انہیں سیکورٹی رسک قرار دے کر واپس ان کے علاقوں میں بھیج دیا گیا ۔ یہ آزمائش بھی ان پر خدا کی طرف سے آئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہمارا مذہبی فکر ہے جو ہر حال میں اقتدار کی بات کرتا ہے ۔ خدا انہیں اس آزمائش میں کامیاب کرے کہ ان کی آواز اٹھانے والا اور فریاد سننے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ۔ باقی ہر ایک کو اپنے مفاد عزیز ہیں ۔ اور شاید پوری دنیا میں یہ واحد مسلم آبادی ہے جو حقیقتاً مذہبی جبر کا شکار ہے ۔ کہ شاید حکومت کوئی نشانی کوئی علامت بھی چھوڑنا نہیں چاہتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply