وراثت/افشاں نور

”انسان اپنے جذبوں سے مار کھا جائے تو کہاں جائے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مار ہم اپنے جذبات سے کھاتے ہیں، یہ قدرت کا عجیب ہتھیار ہے ایک ہی وار میں ہم چاروں شانے چت ہو جاتے ہیں۔“ وہ میرے سامنے بیٹھی بے تُکا بولے جا رہی تھی۔ اسے شاید میرے جواب کی ضرورت نہیں تھی اسی لیے بِنا میرا جواب سنے وہ اپنے قدموں میں فرش پر نظریں جمائے مسلسل بول رہی تھی۔
”جذبے گھائل کر دیتے ہیں، بارش میں بھیگتے اس شخص کی طرح جو بارش اور طوفان سے بچنے کی خاطر دوڑ کر چند گز دور جھونپڑی میں پناہ لینا چاہے اور آن کی آن میں اس کی واحد پناہ گاہ کو بجلی اچک لے۔ سوچو کیا گزرتی ہوگی ایسے انسان پر۔ کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جو عمر بھر پائی پائی جمع کر کے اپنی خوشحالی کا منتظر ہو اور خوشحالی سے پہلے ہی اس کی بستی میں دریا بند توڑ کر داخل ہوجائے اور اس کی عمر بھر کی محنت اس کی آنکھوں کے سامنے بہا کر لے جائے؟ تم نے نہیں دیکھا ہوگا۔ دیکھا ہوتا تو یوں ہاتھ تھامنے سے پہلے الوداع نہ کہتے۔ چھوڑ جانے والوں کو کیا خبر پیچھے رہ جانے والوں پر کیا گزرتی ہے۔“

مجھے ایسا لگا اس کا گرم گرم آنسو میرے دل پہ آ گرا ہے۔ مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ نظر اٹھا کر اسے دیکھ سکتا۔ میں اس کا مجرم تھا مجھے ہر حال میں سر جھکائے رکھنا تھا۔

”ایک بات تو بتاؤ۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں بنا دیکھے بھی محسوس کر سکتا تھا کہ اس نے لمحہ بھر کو اپنی نظریں میرے چہرے پر گاڑھی تھیں۔ اس کے دل کی دھڑکن کسی مندر کی گھنٹیوں کی طرح میرے کانوں میں بج رہی تھی۔ ایک لمحے میں اس نے اپنی نظریں میرے چہرے سے ہٹا لیں اور دوبارہ بولنے لگی:
”کبھی ایسا ہو کہ تم آئینے میں خود کو دیکھو اور تمہیں پتہ چلے آئینے میں اُبھرنے والا عکس تمہارا نہیں کسی اور کا ہے تو کیا کرو گے تم؟ کسی روز تم سو کر اٹھو اور تمہیں محسوس ہو کہ تم اپنے خدوخال بھول چکے ہو تو تمہاری کیا حالت ہوگی؟ جانتے ہو محبت میں کھو دینے کا دکھ کیسا ہوتا ہے؟ تم اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اسٹیشن پر منتظر ہو، تمہاری گاڑی تمہاری آنکھوں کے سامنے سے گزر جائے اور تم اسے کوئی اور ٹرین سمجھ کر جانے دو، بعد میں پتہ چلے یہ اس پتے پر جانے والی آخری ٹرین تھی۔۔۔ ایسا ہے کھو دینے کا دکھ۔“

اب کے میرے دل پر کچھ انگارے گرے اور مجھے خون کے جلنے کی بدبو اپنے نتھنوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ میرے لیے خشک سالی کی پہلی بارش جیسی تھی اور میں۔۔ میں مٹی کی اس بوسیدہ کوٹھڑی کی طرح جو بارش کی پہلی بوندوں پر ہی ڈھے جاتی ہے۔ میں جانتا تھا اس کی رگوں میں میری محبت دوڑتی ہے اور میری رگوں میں۔۔۔ میری رگوں میں کینسر جدائی کے بیج بو چکا تھا۔ میں لاکھ چاہتا اپنے خونِ جگر سے محبت کی کہانی نہیں لکھ سکتا تھا کیونکہ میرے مرض کی رفتار میری زندگی سے کہیں زیادہ تھی۔ یوں بھی وہ میری محبت تھی، کوئی زمین جائیداد نہیں تھی جسے میں اپنے نام کر لیتا اور مرنے کے بعد ترکے میں چھوڑ جاتا۔ میری محبت کی وراثت میں صرف جدائی لکھی تھی۔ بہت سوچ سمجھ کر میں نے ایک فیصلہ کیا اور دل کڑا کر کے اسے ملنے کو کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے ہاتھ پہ رکھا اس کا ہاتھ بہت بھلا لگ رہا تھا۔ میرے جی میں آیا اسے مضبوطی سے تھام لوں مگر میرے کینسر زدہ لہو کی گردش سے میری گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور میں نے کپکپاتے ہاتھ سے اس کی خوبصورت انگلی سے اپنے نام کی انگوٹھی نکال لی۔ مجھے لگا وہ سانس لینا بھول گئی ہے۔ سنگِ مرمر سے بنی حسین مورتی کی طرح وہ بنا آنکھ جھپکے یک ٹک مجھے دیکھے گئی اور جب اس کی نظروں کی حرارت سے میری روح پگھلنے لگی تو میں نے رخ موڑ لیا۔ اب زندگی بھر اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ اس نے میری آنکھوں میں اپنے خواب بوئے تھے اور میں نے اس کے دل میں اپنی دھڑکن رکھ دی تھی مگر محبت اپنا انجام خود لکھ چکی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply