خواب سا تھا
کوکھ میں محبوس، نا مولود بچے کا، کہ جو
دریائے خوں میں
ڈوبنے، کچھ تیرنے
کچھ ہاتھ پائوں مار کر
اُس پار اترنے کی تگ و دو میں اکیلا مبتلا ہے
پار اترتے ہی خوشی سے
چیخ کر اعلان کرتا ہے، کہ لوگو
میں ، بحمد اللہ، عافیت سے گھرتک آ گیا ہوں۔
خواب سا تھا
سانس کی اکھڑی ہوئی زنجیر میں
جکڑے، تڑپتے
نیم مردہ، بے سکت، بیمار تن میں
طائر ِ جاں کا ۔۔۔۔
کہ جو دو چار سانسوں میں ہی اپنے
نزع کے عالم میں پنجرے سے نکلنے
کی تگ و دو میں اکیلا مبتلا ہے
چھٹپٹاہٹ سے تڑپتے
نرخرہ بجتے ہوئے جب
کامیابی سے قفس عنصری سے چھوٹتا ہے
چیخ کر اعلان کرتا ہے، …فرشتو
میں ، بحمد اللہ، واپس اپنے گھر تک آ گیا ہوں
گھر کہاں ہے؟
Facebook Comments