قصہ وِیپنگ وِلّو کا ۔ اور میرا۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

’ٗٗقصّے سناتے رہو کہ لوگ شاید سوچ بچار کریں ۔‘‘
قال الملاٗرکوع ۱۱، الاعراف ۶، (القران)

پہلا قصہ
بارش ہے اور میں ویپنگ وِلّو کے ساتھ جُڑا بیٹھا ہوں
ٹپ ٹپ اشک بہاتی وِلّو، اور میں، دونوں
بچپن سے اک سنگ رہے ہیں
’’بارش کب لاؤ گے، اے میرے ہمجولی؟‘‘
ہوا کی شائیں شائیں کرتی بولی میں وہ روز پوچھتی
اور میں اکثر
بادل کو بالک ہٹ سے کھینچ کےنیچے لے ہی آتا
ٹپ ٹپ رونے لگتی ولّو
۔۔۔اس کا رونا اس کی ہنسی تھی

نوّے  سال کی عمر میں دونوں
پھر مل بیٹھےہیں ہم سنگی
چھتری، چلمن ، سائبان سی ویپنگ وِلّو
ٹپ ٹپ آنسو روتی روتی
ہنستے ہنستے جھوم رہی ہے
مَیں، لیکن
واماندہ، بے دم، اعضا شکنی کا مارا ہوں
اس کی جانب جھُک کر دھیرے سے کہتا ہوں
تم تو، ِولّو،
ویسی ہی ہو جیسی بچپن میں ہوتی تھیں
مَیں، لیکن ، ہلکان کھلاڑی
دنیا کی ہر دوڑ میں اوّل آتے آتے
پاؤں زخمی کر بیٹھا ہوں
اس کے آنسو
ٹپ ٹپ کے سرگم میں جیسے پوچھ رہے ہیں
دنیا کی ہر دوڑ میں اوّل آنا ہی کیا اہم تھا اتنا
جس کی خاطر تم نے خود کو مار دیا ہے؟
اب بھی آخر کیا بگڑا ہے؟
آؤ، دونوں پھر مل بیٹھیں
آنچل کھینچ کے بادل کا بارش برسائیں۔۔
بارش ہے اور میں ویپنگ وِلّو کے ساتھ جُڑا بیٹھا ہوں

دوسرا قصہ
’’ہنسنا، رونا، ایک عمل کے دو چہرے ہیں
ٹپ ٹپ روتی، ویپنگ وِلّو، ہنستے ہنستے یہ کہتی ہے
’’ اپنے چہرے سے ہنسنے کی پرت ہٹاؤ
نیچے گالوں پر آنسو بہتے دیکھو گے
غم اور خوشی کو ایک سا جانو
دل کا فولادی مادہ پگھلا کر اس کو موم بناؤ
آنکھوں میں آنسو چھلکاؤ
تم نے ، وِلّو، میں کہتا ہوں
ایسی رمزیں، ایسا گوڑھا گیان بھلا کیسے سیکھا ہے؟
رونے کو بزدل لوگوں کی بات سمجھ کر
کائر کی اوقات سمجھ کر
مرد آدمی، میں تو ساری عمر نہیں رو پایا، ولّو

۔۔۔۔’’اسی لیے تو،مرد آدمی‘‘۔۔۔۔
وِلّو، پھر ہنستے روتے مجھے سے کہتی ہے
تم کھُل کر ہنس سکنے کے نا اہل رہے ہو
روتے، تو پھر ہنس بھی سکتے

تیسرا قصہ
’’اوپر اُٹھنا، آسمان کو چھونے کی کوشش میں گرنا
کندھوں سےدو پنکھ باندھ کر
اُڑنے کی بیکار سعی میں گر کر اپنی جان گنوانا
محل ماڑیاں آسمان کی سرحد تک اونچا لے جانا
میناروں کو
بادل کی اونچائی تک پہنچانے میں اک عمر گنوانا
ولّو روتے ہنستے روتے یہ کہتی ہے’ یہ نادانی تم انسانوں کا شیوہ ہے
پیڑ، گھنے، چھتنار، جڑیں پیوست کیے اوپر اُٹھتے ہیں
لیکن اونچائی تک جا کر
اپنی شاخوں کو لٹکا کر
پھرزمین کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں
میں بھی اپنی گھنی گھنیری شاخیں، باہیں
دھرتی تک واپس پہنچا کر خوش رہتی ہوں
میرے گر جانے کا کچھ امکان نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سچ کہتی ہو
رشک بھری نظروں سے اُس کی جانب دیکھ کے مَیں کہتا ہوں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply