مارگلہ کا ننھا ڈبو۔۔آصف محمود

مارگلہ کی تازہ کہانی کا عنوان ڈبو ہے۔ مارگلہ کو خدا سلامت رکھے،محبت کی کہانیوں کی طرح اس کی داستان بھی کبھی ختم نہ ہو گی۔ کردار اور داستان گو بدلتے رہیں گے ، کہانی جاری رہے گی۔ دھوپ تیز تھی،پانی ختم ہو چکا تھا اور چشمہ دور تھا،میں ندی کے دوسرے موڑ سے لوٹ آیا۔وائلڈ لائف پوسٹ کے پاس پہنچا تو ایک ایسا منظر سامنے تھا،جس نے ساری تھکاوٹ اور پیاس دور تھی۔ وائلڈ لائف کا ایک اہلکار آگے آگے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا سا جانور بھاگ رہا تھا۔جانور خاصا شرارتی لگ رہا تھا ۔ بھاگتے بھاگتے اس نے دو تین قلا بازیاں لگائیں،راستے سے ہٹ کر ایک ٹہنی سے جھولنے لگ گیا اور جب اسے احساس ہوا کہ وہ تو اپنی شرارتوں میں مگن کافی پیچھے رہ گیا تو اس نے تین چار جمپ سے لگائے اور اہلکار کو جالیا۔ سیاہ رنگ کا یہ جانور کون سا ہے؟ یہی سوچتے نزدیک گیا تو دیکھا یہ ریچھ کا بچہ تھا۔ یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ بچہ خوبصورت ہی ہوتا ہے بھلے ریچھ کا ہو۔ یہ ’ ڈبو‘ تھا اور وائلڈ لائف والوں سے اس کا غائبانہ تعارف پہلے ہی سن چکا تھا۔یہ غالبا اس کا ٹریننگ سیشن تھا یا اس کی تفریح کا وقت تھا ، جو بھی تھا میں نے اس کی پرائیویسی میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھا اور آگے بڑھ گیا۔ ڈبو کی کہانی بہت اداس ہے۔ دو ماہ پہلے اس نے وادی نیلم کے حسین ماحول میں جنم لیا۔ لیکن ان حسین وادیوں میں اپنی ماں کے ساتھ پچپن گزارنے کی اسی مہلت ہی نہ ملی۔ شکاریوں نے پکڑا اور اسے فروخت کر دیا۔ وائلڈ لائف والوں کو معلوم ہوا تو اس ننھے ریچھ کو وہ راولپنڈی بازیاب کرا لائے۔کہا جاتا ہے کہ ریچھ کی ماں زندہ ہو تو اس کے بچے کو کوئی شکاری اٹھا کر نہیں لے جا سکتا۔ اس لیے شکاری پہلے ان کی ماں کو مارتے ہیں پھر بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ نیلم کی وادی کے کسی حسین گوشے میں پہلے اس کی ماں کو مارا گیا ہو گا اور اس نے ماں کا ابھی سوگ بھی نہیں منایا ہو گا کہ شکاریوں نے اسے دبوچ لیا ہو گا۔ میں نے اس ننھے ریچھ کو دیکھا تو مجھے فرانس کی مووی The Bear یاد آ گئی۔ یہ ایک ننھے ریچھ کی کہانی ہے جس کی ماں مر جاتی ہے اور اب اسے جنگل میں ماں کے بغیر ززندگی گزارنا ہوتی ہے۔برسوں پہلے یہ فلم دیکھی تو اس ننھے ریچھ سے پیار ہو گیا۔ آج مارگلہ میں ’’ ڈبو‘‘کو دیکھا تو ایسے لگا The Bear کا وہی ریچھ راستہ بھٹک کر درہ جنگلاں میں آ گیا ہے۔ جی چاہا کہ اسے گلے لگا لوں اور ڈھیر سارا پیار کروں لیکن پھر یاد آیا کہ اس کی نگہداشت کے لیے وائلڈ لائف والوں نے جو اصول وضع کیے گئے ہیں ان میں اس اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ ڈبو کو عارضی طور پر مارگلہ میں رکھا گیا ہے۔ اس کی شرارتوں سے جنگل مسکراتا رہتا ہے۔ کبھی یہ درخت پر چڑھ جاتا ہے، کبھی شاخ سے جھولے لینے لگتا ہے، کبھی قلابازیاں لینے لگتا ہے، اس کے لیے خصوصی طور پر ایک سوئمنگ پول بنایا گیا ہے اور اب یہ اس میں تیراکی سیکھ چکا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ چند دنوں بعد تالاب میں مچھلیاں پھینک دی جائیں گی اور صاحب شکار کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ راولپنڈی سے بازیاب نہ ہوتا تو شاید اب تک یہ کسی بے رحم قلندر کے ہتھے چڑھ چکا ہوتا اور شہروں میں کرتب دکھانے پڑتے یا ریچھ کتے کی لڑائی میں کام آتا لیکن اب یہ مارگلہ میں مزے کر رہا ہے اور وائلڈ لائف والے اس کی مہمان نوازی کر رہے اور اس کے نخرے اٹھا رہے ہیں۔ حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں ایسے جانوروں کو ڈھنگ سے رکھنے کی کوئی باقاعدہ جگہ نہیں ہے۔ ایک مرکز بے نظیر بھٹو کے زمانے میں بنایا گیا تھا اور اس میں بھی محدود گنجائش ہے۔اسلام آباد کے مرغزار سے جب عدالت نے 60 دنوں کے اندر جانوروں کو منتقل کرنے کا حکم دیا اور جولائی میں گرمی اور حبس کے مہینے پر شیروں کو منتقل کرنا پڑا تو کوئی سرکاری مرکز ایسا نہ تھا جہاں انہیں بھیجا جاتا۔ چنانچہ انہیں قصور کے ایک نجی بریڈنگ فارم روانہ کیا گیا ۔ ایک وہاں جاتے ہی مر گیا۔ دوسرا دوسرے روز مر گیا۔اب کون کس دیوار گریہ پر سر رکھ کر روئے اور کس سے پوچھے کہ اس کا ذمہ دار کون تھا۔ اسلام آباد میں سہیلی نام کی ہتھنی تھی ، روایت ہے کہ زہر دے کر مار دی گئی۔ اس کا رفیق کاون سالوں بد سلوکی کا شکار رہا ، پھر جا کر اس کی سنی گئی اور بے چارے کو کمبوڈیا منتقل کیا گیا۔ ایک ریچھ تھا مہینوں خم لیے پھرتا رہا کسی نے علاج کرانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ شیر نی نے یہیں پنجرے میں بچے دیے تھے اور ہم بڑے شوق سے دیکھنے گئے تھے،وہ بھی وہیں مر گئے۔شتر مرغ مر گئے،ہرن مر گئے۔ مرغزار میں پرندے تھے وہ مر گئے۔حیرت ہوتی ہے یہ مرغزار تھا یا مقتل؟ جانور مال غنیمت کی طرح بانٹے گئے۔2019 میں مرغزار چڑیا گھر کے مکینوں کی تعداد 914تھی۔ایک سال بعد جب چڑیا گھر وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کیا گیا تو معلوم ہوا چڑیا گھر کے 495 مکین غائب ہیں۔ ان میں پرندے بھی تھے اور جانور بھی۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے یہ کہاں گئے؟ کھا لیے گئے،بیچ دیے گئے یا طاقتور لوگوں کو تحفے میں پیش کیے گئے؟پاکستان میں تحقیقات تو ہوتی ہیں لیکن نتائج سامنے نہیں آتے۔اب تو لوگ جان چکے کہ جس بات پر مٹی ڈالنا مقصود ہو اس کی’’ تحقیقات‘‘ شروع کر دی جاتی ہیں۔ ڈبو خوش قسمت ہے ۔اسے اچھا ماحول ملا ہے اور وائلد لائف کے اچھے لوگ ملے ہیں جو اس کی نگہداشت کر رہے ہیں۔چند سال پہلے آیا ہوتا تو کچھ عجب نہ تھا سی ڈی اے یا اسلام آباد میٹروپولیٹن انتظامیہ خود اسے بیچ دیتی ۔اس سے تو 495 پرندوں اور جانوروں کا حساب کوئی نہیں لے سکا ، بے چارے ڈبو کو کس نے پوچھنا تھا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply