اردو زبان کے جدید کلاسک شاعر ستیہ پال آنند۔۔فاروق سرور

ستیہ پال آنند کی خوفناک تصویر
آنند جی دکھ کی باتیں نہ کریں
پشتو زبان کی خوبصورت لہجے کی شاعرہ حسینہ گل تنہا کاکا خیلہ کی نظم “لچهے والا”
رہتا تو یہ شخص یورپ میں ہے ،ہے بهی بوڑها ، لیکن ذہن ان کا پهنسا ہے عجیب سی خوفناکیوں میں اور جذبہ جوانوں سے بهی آگے ۔ ان کی شاعری کو اگر آپ دیکهیں ، تو رنگوں کی برکها ۔ فیس بک پر ان سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور ان کی نظموں پر میں اپنی رائے دے کر انہیں اپنے پیج پر شیر کرتا رہتا ہوں ، میری رائے کبهی کبهار ان کے حق میں بهی نہیں ہوتی لیکن اس سے یہ بزرگ کبهی بهی خفا نہیں ہوتے ۔

ایک دفعہ میں نے لکها ۔ اب کی بار انہوں نے موجودہ انسان کی تصویر  کھینچی  ہے ۔ اس قدر خوفناک کہ توبہ توبہ ۔ کو دا گراس سزائے موت کا ایک عمل ہے ، جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو ، اسی لیے مرنے والے کے سر میں گولی ماری جاتی ہے یا اس کا تن فوری طور پر جسم سے الگ کیا جاتا ہے ۔ اب کی بار بابا جی خطہ کی خوفناک صورت حال یا انسانی نفسیات کی عجیب سی المناک منظر کشی کررہے ہیں کہ ہر انسان دوسرے کو زخمی تو کررہا ہے ، لیکن یہاں بهی وہ اپنے مفاد کا سوچ رہا ہے کہ اسے ختم کرکے مجهے کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ آنند جی کی اس نظم میں بہت سارے سوالات اٹهائے گئے ہیں اور ان کے جواب بهی موجود ہیں کہ یہ سارا کهیل سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے ، جس نے انسان کو خودغرضی کی انتہاؤں  میں پہنچایا ہے ۔ ایک کمزور ہورہا ہے ، دن بدن کمزور اور دوسرا دن بدن بد سے بدتر ۔ ملاحظہ کیجیئے اردو زبان کے قابل فخر اور شاندار شاعر ستیا پال آنند کی نئی نظم ۔
کو دا گراس‘‘Coup d’ Grace *
وہ ہاتھ جس نے
ہزار ہا بار اپنے خنجر سے مجھ کو زخمی کیا تھا پہلے
وہ ہاتھ اب بھی اٹھا ہوا ہے
میں بے بس و بے سہارا نیچے پڑا ہوا ہوں
نہ مر رہا ہوں
نہ جی رہا ہوں
عجیب حالت ہے۔۔
صرف گنتی کے کچھ نفس ہی بچے ہوئے ہیں
تڑپ تڑپ کر بھی تھک گیا ہوں
رُکا ہوا ہوں فقط اسی آس کے سہارے
اٹھے ہوئے ہاتھ اور خنجر کا فیصلہ کُن ہی وار مجھ کو
رہائی دے گا!
وہ دیکھتا ہے مری اذیت
عجیب بیگانگی سے جیسے
یہ کہہ رہا ہو
کہ پہلے اپنا حساب چکتا کرو، تو جاؤ!
اٹھے ہوئے ہاتھ اور خنجر کی سمت گھائل پرند سا میں
بڑی اذیت سے دیکھتا ہوں
زبان دانتوں تلے ہے، میرے گلے میں کانٹے اُگے ہوئے ہیں
مگر اسے یہ خبر نہیں ہے
کہ ایسی حالت میں صرف ’کو دا گراس‘ کا راستہ ہی میرے لیے
رہائی کا راستہ ہے!
وہ کیسے سمجھے کہ وہ بھی اک مخمصے میں شاید پھنسا ہوا ہے
کہ مار کر بھی وہ خوش نہیں ہے
کہ زندہ رکھنا بھی اس کو لگتا ہے بار خاطر!

اب ان کی ایک دوسری نظم کی طرف آتے ہیں ، جب میں نے اس عنوان کے ساتھ  لکها
آنند جی دکھ  کی باتیں نہ کریں ۔یہاں میرے الفاظ یہ تهے ۔ آنند جی آپ کا دکھ  اپنی جگہ ، نئی نظم “رشتہ” آپ کی شاندار نظم  ہے ، ڈهلتی عمر کا دکھ  اپنی جگہ ، لیکن میری پچانوے سال کی دادی نے زندگی ہنس کر گزاری ۔ میرے وکیل والد صاحب تندرست نہیں رہتے ، لیکن وہ ساری رات جاگ کر بهی مجهے آ نکھیں دکهاتے ہیں کہ باہمت رہو اور ہر وقت اللہ پاک پر بهروسہ رکهو ۔ ڈهلتی عمر کا دکھ ادب میں نیا نہیں ۔ یہ ٹی ایس ایلیٹ کے جے الفریڈ پروفراگ کو بهی تها ۔ ستیا جی آپ نے تو یورپ کی شاندار زندگی ، سکون اور وسائل دیکهے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں لوگ دہشت گردی کی دوزخ میں اور اپنے پیاروں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھ کر بهی مسکرا مسکرا کر مشکلات کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ آپ کا احترام ہر وقت رہے گا ، لیکن اس وقت اور ان حالات میں ہمارے ادب کو گورکی اور شولوخوف جیسے ادیبوں کی ضرورت ہے ، تهامس ہارڈی جیسے قنوطیت پسند کی نہیں ۔ آپ کا شمار اساتذہ کرام میں ہوتا ہے ، رشتہ جیسی نظمیں ہونی چاہیے  ، لیکن خطہ کے حالات کو دیکهتے ہوئے اس وقت ہمارے زخموں کو   اُمید کے ادب کی ضرورت ہے اور اسے پروپیگنڈے کے الزام سے بهی بچانا چاہیے ۔ ستیا جی کی نظم کچھ  یوں تهی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رشتہ۔ ستیہ  پال آنند 
اک رسی کو ہاتھ میں پکڑے
ڈانواں ڈول سے
ہم اس کے آخر تک جا کر
دم لینے کو رک جاتے ہیں
اک اک لمحہ
رک رک کر، ہم احتیاط سے
انچ انچ آگے بڑھتے ہیں
ہاتھوں سے رسی کو مضبوطی سے تھامے
رہتے سانسوں کی دوری تک
رسی کی لمبائی طے کرتے کرتے ہم
خود بھی رسی بن جاتے ہیں
لیکن میں اک مختلف مخلوق ہوں شاید
مجھ کو پتہ ہے
ہر رسی کے آخر میں اک
پھانسی کا پھندہ ہوتا ہے
اس رسی کو برسوں سے پکڑے پکڑے میں
آگے بڑھتا
شاید اس پھندے تک آخر پہنچ گیا ہوں
دیکھنا یہ ہے
کب میں پھندہ اپنے گلے میں
ڈال کے مضبوطی سے رسی کو کس دوں گا!
کیا کچھ اور بھی کر سکتا ہوں؟
رسی، رشتہ
تیر ا ، میرا
رشتہ ۔۔۔۔
ر۔۔۔ ش۔۔۔ ت۔۔۔ ہ
کب میری گردن تک پہنچ کر
پھانسی کا اک پھندہ بن کر
مجھ کو آخر جیون کے اس بندھن سے
چھٹکارہ دے گا ۔۔
یا میرے ہاتھوں کی جکڑ میں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا
ٹوٹا رشتہ، ٹوٹا بندھن!
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصراً  ہم یہ کہیں گے کہ وہ اردو کے کافکا بهی ہیں ، جن کا کام خوف کی دنیا میں جهانکنا ہے ۔ ٹی ایس ایلیٹ بهی ، بلکہ درحقیقت وہ ایک بڑی ورائٹی لے کر سامنے آتے ہیں اور موجودہ وقتوں میں وہ واقعی اردو زبان کے ایک بہت بڑے جدید کلاسکل شاعر ہیں ، جن کا کام ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے خبردار رکهنا ہے ، ستیہ جی آپ پر ہم بلاشبہ فخر کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply