میں نے “آتش طور” کو “شعر شور انگیز” کی طرح کیوں پڑھا؟-جاوید رسول

کسی اردو والے سے جب جدیدیت پر اعتراض کی کوئ منطقی صورت نہ بن پائے تو فوراً “شعر شور انگیز” پر انگلی اٹھاتا ہے کہ وہ دیکھو روایت اور سماج سے منحرف نقاد کیسے میر کی بازیافت کو جدیدیت کا لبادہ پہنانے کی کوشش کررہا ہے۔بھلا جدیدیت اور کلاسیکیت میں بھی کوئ تعلق ہے؟ بھئ تم اگر روایت سے منحرف ہو تو کچھ نیا کرو جو چونکا دینے والا ہو، جسے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو، یہ میر کی بازیافت سے کیوں خود ہی اپنا موقف جھٹلاتے ہو؟
یہ اور اس قسم کے سارے سوالات دراصل ایسے ذہن کی پیداوار ہوتے ہیں جو جدیدیت کے ادبی تفاعل کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ایسا ذہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوگا کہ ادبی جدیدیت میں تاریخی شعور کی اہمیت مسلم ہے ورنہ ہماری جدیدیت تو انحراف کے بجائے سیدھا تنسیخ کا دعوی کرچکی ہوتی۔ظاہر ہے “شعر شور انگیز ” کو اسی تاریخی شعور یا روایت سے تعلق کے طور پر دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا وہ اس لیے کہ روایتی تنقید نے میر سے متعلق جو گمراہ کن مفروضے عام کردیے تھے ان سے نہ صرف میر کے کلام کی معنوی تکثیریت متاثر ہوئ تھی بلکہ ان کی شاعرانہ عظمت میں بھی ایک ابہام سا پیدا ہوگیا تھا۔ فاروقی صاحب نے اگر شعر شور انگیز نہ لکھی ہوتی تو ممکن ہے میر کو جو مرکزیت ہماری ادبی تاریخ میں آج حاصل ہے نہ حاصل ہوتی۔یہی ادبی جدیدیت کا تفاعل رہا ہے کہ کلاسیکی متون سے متعلق جو منفی بیانیے روایتی نقادوں نے عام کیے تھے ان کا رد کیا جائے تاکہ میر کی طرح دوسرے اہم شعرا کو بھی حاشیہ سے نکال کر مرکز میں لایا جاسکے۔”آتش طور” غنی کشمیری کی بازیافت ہے۔گوکہ اس سے پہلے بھی کئ اہم نقاد یہ کوشش کر چکے ہیں جن میں علی الخصوص علی جواد زیدی کا نام قابل ذکر ہے،تاہم پروفیسر مفتی مدثر صاحب نے غنی سے متعلق کئ مفروضوں کا رد کیا ہے اور غنی کے کلام کے معنوی ابعاد کو عصری تناظر میں کھولنے کی ایک نئ کوشش کی ہے۔میں جب بھی اس قسم کی کوئ تنقیدی یا تحقیقی کتاب پڑھتا ہوں تو سب سے پہلے میری نظر کتاب کے مقدمہ پر ٹھہرتی ہے۔ایسا اس لیے کہ میرے نزدیک مقدمہ ایسی کسی بھی کتاب کا مغز ہوتا ہے جو “آگے کیا ہوگا؟” کے دھندلکے کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس لحاظ سے “آتش طور” کا مقدمہ مرتب کی وسعت نظر اور گہرے مطالعہ پر دال ہے۔اس میں غنی کی زندگی کے حالات، شعری اسلوب اور شعری موضوعات پر محققانہ بحث ملتی ہے۔مثلاً غنی سے متعلق یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کشمیری ترکیب “کرالہ پن” کا استمال کیا تھا جس کا مطلب جاننے کے لیے مشہور فارسی شاعر صائب تبریزی ان سے ملنے کشمیر آئے تھے۔شعر یوں تھا؛
موی میانہ توشدہ کرالہ پن
کرد جدا کاسئہ سر ہازتن
(تمہاری کمر کمہار کا دھاگا بنی ہے، جو سروں کو تنوں سے جدا کررہی ہے)بحوالہ مقدمہ “آتش طور”
اس واقعہ میں کتنی صداقت ہے اور کیا واقعی صائب تبریزی کبھی کشمیر آئے تھے؟ کیا یہ ثابت ہے کہ ان کے کشمیر آنے کا زمانہ غنی کی حیات کا ہی زمانہ تھا؟ مفتی مدثر صاحب نے ان تمام امور پر مختلف تاریخی حوالوں سے بحث کی ہے اور نتیجے کے طور پر ایک اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں؛
” تذکرہ نگاروں نے صائب اور غنی کی ملاقات کے کئ دلچسپ واقعات نقل کیے ہیں.اس سے قطع نظر کہ یہ واقعات افسانوی ہی معلوم ہوتے ہیں لیکن اس بات کی عکاسی ضرور کرتے ہیں کہ غنی کا نام ایران کے بلند ترین شاعروں کے ساتھ لیا جاتا تھا” (مقدمہ، آتش طور)
ظاہر ہے یہ رائے کافی معنی رکھتی ہے اور اس لحاظ سے ہم اس عہد کے فارسی شعرا کے یہاں غنی کی مقبولیت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں اس کتاب کا بنیادی مقصد غنی کو جدید اور کلاسیکی شعری ڈسکورس کے تحت نئے سرے سے متعارف کرانا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سبک ہندی کی شعری خصوصیات بالخصوص ابہام پر جس قسم کی تنقید اس زمانہ میں ہورہی تھی ٹھیک اسی نوعیت کی تنقید بعد کے زمانوں میں جدید شاعری پر بھی ہوئ حتی کہ اسے صاف لفظوں میں روایتی نقادوں نے “مہمل گوئ” قرار دے دیا۔حیران کن بات ہے کہ سبک ہندی پر تنقید کرنے والوں کی طرح ان کا بھی موقف یہی تھا کہ شاعری کی خوبصورتی جذبات کی فوری اپیل میں ہے، ابہام سے اس کا حسن مجروح ہوجاتا ہے۔لیکن غنی کے نزدیک شعر کا حسن ابہام سے تھا۔مقدمہ آتش طور میں اس حوالے سے مرقوم ہے کہ “اس عہد کے کسی شعر شناس نےکہا تھا کہ جو شعر ایک بار پڑھ کر سمجھ میں نہ آئے وہ بے معنی ہوتا ہے، اس پر غنی نے تعجب کیا اور کہا کہ میرا ان کی شعر فہمی پر سے اعتماد اٹھ گیا”۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غنی شعر کے استعاراتی نظام کو اہم مانتے تھے اور یہی چیز ان کے لیے معنی آفرینی کا باعث ہوتی تھی جسے صرف غنی ہی نہیں بلکہ ہر زبان کے ہر بڑے شاعر نے کمال فن سے تعبیر کیا ہے۔یہ بحث واقعی نئ نسل کے شعرا کے لیے توجہ طلب ہے،اس لیے کہ وہ بھی شعر سے فوری تاثر یا کیفیت پیدا کرنا ہی کمال فن سمجھتے ہیں اور شاعری میں استعارہ یا علامت سازی کے عمل سے خوف کھاتے ہیں۔
“آتش طور” کے مرتب نے غنی کی شاعری کا جو موضوعاتی مطالعہ پیش کیا ہے وہ غنی کے فلسفیانہ دانش کا پتہ دیتا ہے۔مثلاً،
بچشم خود نتواں دید صبح پیری را
خوشم کہ دیدہ زمو پیشتر سفید شد است
(اپنی آنکھوں سے اپنے ہی بڑھاپے کی صبح نہیں دیکھی جاسکتی، میں خوش ہوں کہ بالوں سے پہلے میری آنکھیں سفید ہوگئیں)
فلک در گردش است از بہر خواب بخت ناسازم
بود در جنبش گہوارہ راحت طفل بدخورا
(میری پھوٹی قسمت کو سلانے کے لیے ہی افلاک گردش کررہے ہیں، جیسے ایک بےقرار بچے کو گہوارے کی مسلسل جنبش سے ہی راحت ملتی ہے)
یہاں اس شعر پہ مجھے میر یاد آئے، ان کا مشہور شعر ہے؛
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ان دونوں اشعار میں “گردش افلاک” قدر مشترک ہے لیکن دونوں شعرا نے اس ترکیب کو مختلف معنی میں استعمال کیا ہے۔غنی نے بدنصیبی کو سلانے یعنی اس سے پیدا یونے والے کرب کی شدت کو کم کرنے یا اس سے نجات پانے کے معنوں میں استعمال کیا ہے جبکہ میر نے پرانی کاسمولجی کے تناظر میں اسے تخلیق انسان کے پروسس یا عمل کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔میر کا ہی ایک اور شعر ہے؛
کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک
پھرتے ہیں کمہاروں کے پڑے چاک سے اب تک
یہاں لفظ “چاک” تخلیق انسان کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔سودا کا شعر اس کی وضاحت کرتا ہے؛
دنیا تمام گردش افلاک سے بنی
ماٹی ہزار رنگ کی اس چاک سے بنی
یہاں “ہزار رنگ” نسل انسانی کے مختلف رنگوں کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں کی مختلف جغرافیہ کا بھی اظہاریہ ہے۔
بہرکیف! یہ سب باتیں میرے ذہن میں “آتش طور” کے مطالعہ کے دوران ہی آئیں اور مجھے خوشی ہے کہ مفتی مدثر صاحب نے غنی کے فارسی کلام کو اردو زبان کے ذریعہ نئ نسل تک منتقل کرنے کا جو کام انجام دیا ہے وہ یقیناً ہمیں موضوعاتی سطح پر اردو کلاسیکی شعرا کو دوبارہ پڑھنے کی ترغیب دےگا۔
میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک “آتش طور” غنی کے حق میں محض خراج عقیدت کی حیثیت رکھتی ہوگی۔وہ اس سے غنی کے شعری امتیازات کو کسی نئے زاویے سے جاننے کے بجائے نظرانداز کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ان کے لیے ہر اس زبان کی حیثیت اب صفر رہ گئ ہے جو انہیں بولنا اور لکھنا نہیں آتی۔لیکن ایک ایسے ذہن کے لیے جو ادب سے تاریخ، ثقافت اور فلسفہ اخذ کرنے کی استعداد رکھتا ہو، کے لیے یہ کتاب کسی تحفہ سے کم نہ ہوگی۔پھر یہ بات سوچنے کی ہے کہ کشمیر میں فارسی زبان کے مفقود ہونے کے ساتھ ہی غنی جیسے کتنے ہی اہم شعرا حاشیے پر چلے گئے ہوں گے؟کیا ان کی بازیافت جدید تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی؟ان شعرا کے ساتھ جس کلچر اور تہذیب کا خاتمہ ہوا، کیا مابعد جدید تھیوریز، نوتاریخیت یا ثقافتی مطالعہ کے تناظر میں اس کی کوئ اہمیت نہیں؟ مفتی مدثر صاحب نے جو کام انجام دیا ہے اسے سراہنے کے لیے نئے ذہن کو چاہیے کہ مذکورہ سوالات پر غور و فکر کرے تاکہ اسے اپنے لیے کوئ معقول جواز پیدا کرنے میں آسانی ہو۔
پس نوشت؛ اس کتاب کو میں نے پہلی بار جامعہ کشمیر کے باہر ایک کتاب فروش کے پاس دیکھا.سرورق ہی اتنا جاذب نظر تھا کہ میں نے فوراً کتاب اٹھائ اور پندرہ صفحات پر مشتمل پورا مقدمہ پڑھ ڈالا۔چونکہ میرے پاس کتاب خریدنے کی رقم نہیں تھی اس لیے میں نے غنیمت جانا کہ کھڑے کھڑے جتنا پڑھ سکوں پڑھوں۔ہفتہ بھر بعد جب کتاب پر لکھنے کا خیال آیا تو میں نے زاہد ذاکر سے کتاب کا مقدمہ مانگا جس کے لیے میں اس دوست کا شکرگزار ہوں۔مضمون کی اشاعت کا ذمہ پہلے ہی مبارک لون نے لے لیا تھا جس سے تعلق دوستی سے بڑھ کر ہے لہذا اس کا شکریہ نہیں بنتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply