کتاب ہم نے لکھ ماری تو سوچا کہ پہلی کتاب زندگی کا ایک سنگ میل ہے، سو ایک معروف اشاعتی ادارے کے پاس گئے ۔ انہیں ای میل کیا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ پھر فون کیا تو انہوں نے کہا کہ جناب، ہم اپنی اور ادب کی خدمت معروف ادیبوں کی کتابیں شائع کرکے کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر رخصت ہو چکے ہیں سو وہ آخرت کے حساب کتاب میں دنیا کی رائیلٹی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
ہم نے کہا کہ کیا میر بھی آپ کے پاس آئے تھے؟ کہنے لگے، کون سے میر؟ ہم نے کہا ، وہی جن کا شعر ہے کہ
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس اشاعتی میں عزتِ سادات بھی گئی
کہنے لگے، پتہ نہیں آئے ہوں گے، پہلے مصرعے سے تو لگتا ہے کہ آئے ہوں گے، دوسرا مصرعہ البتہ غورطلب ہے کہ کس کی بات کررہے ہیں۔
ویسے ہم آپ کو بتادیں کہ آپ جیسے کئی نئے لکھاری ہمارے یہاں قطار میں لگے کمر اور سر کھجا رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا کن کی کمر اور سر کھجا رہے ہیں؟کہنے لگے آپ صرف نئے لکھاری ہی نہیں بلکہ خاصے نامعقول بھی ہیں۔ ہم نے کہا اسی لیے کتاب چھپاوا رہے ہیں کہ لوگ واقف ہو جائیں۔ پوچھا آپ کو کوئی جانتا ہے؟ ہم نے کہا ایک والدہ تھیں جو اس نامعقول کو معقول جانتی تھیں، اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ایک اہلیہ ہیں جو اس نامعقول کو نامعقول ہی جانتی ہیں، آپ کے قولِ سدید کا علم ہوگا تو انہیں مسرتِ شدید ہوگی۔ بولے ہمارے اور سود خوروں کے ہاں گھر والوں کی گواہی نہیں چلتی، کسی اور کو ڈھونڈ کر لائیے۔
سو ایک مربی کو ڈھونڈا جن کی کتاب اِسی ادارے سے شائع ہوئی تھی گو رائیلٹی کبھی نہ پائی تھی۔ انہوں نے مسودے کو پڑھا، کہنے لگے کہ مسودہ کہیں سانس لیتا ہے، کہیں پھڑپھڑاتا ہے، ، کہیں ہائی جمپ لگاتا ہے، ایک دو جگہ پربانس کود یعنی پول والٹ بھی کرتا پایا ہے اورالفاظ ہیں کہ کہیں تیرتے جاتے ہیں اور کہیں سرپٹ بھاگتے ہیں ،ہمیں تو مسودے نے ڈیکاتھلون مقابلے کا رنگ دیا ہے۔اُن کی بات سنی تو ہم نے کہا سمجھ آگئی، یہ کتاب نہیں شائع ہوگی۔ بولے کیوں۔ہم نے کہا پاکستان کا اولمپکس میں ریکارڈ تو دیکھیے ۔ کہنے لگے فکر نہ کیجیے، ہماری جان پہچان ہے۔ ہم نے پوچھا صرف جان پہچان ہی ہے کہ پہچان بھی ہے، کہنے لگے جان پہچان ہے۔ سو ایک سال مسودہ اشاعتی ادارے کے پاس رہا۔ پوچھتے تو ہاں یا نہ کو ئی جواب نہ آتا۔ اب پتہ نہیں ان کے ہاں رشتے کیسے کیے جاتے ہیں۔
ایک سال بعدپتہ نہیں کہ مربی کو پہچان ہوگئی یا نہیں مگر ہمیں ضرور ہوگئی اور ہم اگلے پبلشر کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفرِ تلاش ِاشاعت میں ایک اور اشاعتی ادارے کے سربراہ تک پہنچے۔ کہنے لگے، اشاعت کردیں گے۔ ہم نے کہا مسودہ تو پڑھ لیں، کہنے لگے اُسے بھی پڑھ لیں گے۔ اصرار کرکے مسودہ اُن کو پڑھنے کو دیا۔ دو تین دن بعد جواب تقریباً پرانا تھا سوائے معمولی تبدیلی کے ، کہ اب کہا” اشاعت ہو جائے گی”۔ پھر فرمایا ، آپ باہر مقیم ہیں ، دو سے ڈھائی ہزار ڈالر آپ کو ادا کرنے ہوں گے۔ ہم نے کہا باقی اشاعتی اداروں سے آپ ماورا ہیں کہ اشاعت کے پیسے ڈالروں میں مانگ رہے ہیں ۔ اب تو بال پین کا دور آگیا ہے، ورنہ ہم آپ کو کہیں نہ کہیں سے ڈالر انک پین لا دیتے ، ویسے اُس وقت بھی ہمارے پین میں سیاہی نہ ہوتی تھی، وہ بیرونی امداد پر چلتا تھا۔ عزیز دوست منصور ہمایوں اپنے پین کی دم کا کور اتارتا ، ہمارا قلم بھی لنڈورا ہو جاتا۔ پھروہ اپنے پین کی نب کو ہمارے پین کی نب سے عمودی جوڑتا اور پین کی پشت پر لگے پیچ کو ہلکا ہلکا گھماتا، اوپری نب سے ہلکی ہلکی سیاہی نکلنا شروع ہوجاتی ، اُس وقت ہم نچلے پین کے پیچ کو دوسری جانب حرکت دیتے اور سیاہی جرعہ جرعہ ہمارے پین کے پیٹ میں اترنا شروع ہوجاتی۔ قطرہ قطرہ سیاہی ٹپکتی کچھ پیٹ بھر جاتا تو قلم حوادث کو لکھنے کو تیار ہوتا۔ وقت اچھے تھے، قلم کی نب پر لگی سیاہی چھٹی جماعت کے بچے سر کے بالوں سے رگڑ کر صاف کر لیتے تھے۔ بچے بڑے ہوئے تو جانا کہ اعمال کی سیاہی چہروں پر آجائے تو پھر صاف نہیں ہوتی ، چاہے جتنے بھی رتبے کی بیساکھیوں سے اونچے ہو جائیں، چاہے تشہیر ی مہم پر جتنا بھی خرچ کردیں، چاہے واہ واہ کرتے قوال قافلہ بند ہوں ، یہ سیاہی رگڑنے سے نہیں، مسلسل گڑگڑانے سے جاتی ہے۔
پین بھرتے جان لیا تھا کہ پیٹ بھرا ہو تو پھر ہی کچھ لکھا جاتا ہے۔
عرصہ قبل لاہور میں ایک مشہور خطاط کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا تھا۔ سادہ آدمی تھے، غربت ساتھ تھی۔ قرآن خطاطی میں جانے جاتےتھےا ور بعد میں اسی بنا پر حکومتی سطح پر پذیرائی پائی۔ ہم کچھ شاگرد زمین پر چوکڑی مارے کاغذ کے رجسٹر پر صفحات کے صفحات ج گول کرنےاور ش کا لمبا قط لکھنے کی مشق کرتے۔ ایک پرانا شاگرد ہمارے کام کو دیکھتا ، جب کہ استاد صاحب ایک جانب بیٹھے صفحات پر قرآن کی خطاطی کررہے ہوتے۔ بعض اوقات کسی فلم کا ہیجان انگیز پوسٹر آجاتا، استاد صاحب صفحات کو دوسری جانب رکھ کر اس پوسٹر پر الفاظ سے مزید رنگ ڈال دیتے اور نقد ادائیگی قبول کر کے کرتے کی بائیں جیب میں ڈال لیتے، دائیں جیب میں ڈالنے والی رقم کا ماخذ دوسرا ہوتا۔ شروع میں عجب لگا مگر بعد میں جان لیا کہ مفلسی حسِ لطافت کے ساتھ ساتھ دوسری حسیات پر بھی اثر پذیر ہوتی ہے۔ جان لیا کہ پیٹ خالی ہو تو فلسفہِ حیات اور ہے۔
اب اگلے پبلیشر کی تلاش تھی۔ ایک مصنف سے ایک معروف اشاعتی ادارے کے بارے میں پوچھا۔ الٹا انہوں نے ہم سے سوال داغ دیا کہ کتنے سوشل میڈیا کے فالور ہیں، کتاب چہرے یعنی فیس بک پر آپ کو کتنے پری چہرے فالو کرتے ہیں؟ ہم نے کہا، حضرت کیا آپ نے ہمیں کوئی چھب اور چُھپ دکھاتی ٹک ٹاکر جانا ہے، ویسے اس سوال کا کتاب کی اشاعت سے کیا جوڑ ہے؟، ہاں ضرار شہید ٹرسٹ کے فورم سے عرصہ بیس سال سے سوشل ورک سے منسلک ہوں۔ فرمانے لگےسوشل ورک چھوڑیے، وہ اشاعتی ادارہ کہتا ہے کہ لکھاری مرزا جہلمی کے مقابلے میں سوشل میڈیا فالور رکھتا ہو تو کتاب شائع ہوگی، آخر کتاب بیچنا بھی تو آپ ہی کو ہوگا۔ ہم نے کہا کہ نہ ہم ملا ہیں کہ جدلِ قول و اقوال کریں ، داڑھی ضرور رکھی ہے مگر خضاب کے فصائل سے عاری ہیں، نہ واعظ ہیں، نہ مناظرے کرتے ہیں،نہ حسین و جمال ہیں ۔ انہوں نے کہا ، ” فیر اوناں ولوں نہ ہی سمجھو”۔
ہم نے سوچا کہ اشاعت گھر کا چناؤ کرتے رہیں گے مگر کتاب کا ٹائیٹل بنوانا چاہیے ۔ سو نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک فارغ التحصیل آرٹسٹ کو اپنا خیال بیان کیا، ایک پرانے تجربہ کار آرٹسٹ سے رابطہ کیا جس نے کئی کتابوں کے ٹائٹل بنائے تھے، اردو بازار لاہور میں ایک دوست کے توسط سے دو ٹائیٹل بنوائے، ہمارے مہربان قاسم محمود بھائی نے بھی اپنی کمپنی کے آرٹسٹ سے ٹائٹل بنوا کر دیا۔ سو بارہ سے تیرہ ٹائٹل بن کر سامنے آگئے۔ اپنے محلے کے جہانگیر خان گرم مکئی فروش کا سا معاملہ تھا جو ہر شام کو لکڑی کی ریڑھی گھر کے سامنے لے کر آتا تھا۔ وہ جلتی ہوئی لکڑیوں کے اوپر مٹی سے لیپے چولہے پر دھری پرات کی گرم نمکین ریت پر مکئی اور چنوں کے دانے پھینک دیتا تھا کہ ذات میں چھپا رنگ سامنے آن ظاہر ہو۔ ہمیں تو یہ زندگی کے سفر کا عکس محسوس ہوتا۔ کچھ دانے سرخ ایسے بُھنے کہ باقیوں سے الگ چھب دکھائیں ، اور کچھ کالے سیاہ خاکسترکہ اٹھا کر دور پھینک دیں۔ پھر دو ٹائیٹل میں مقابلہ ٹھہرا، آخر میں قاسم بھائی کے ڈیزائن کا چناؤ کیا۔
استاد بیگ پھر آن بولے، ویسے وہ آپ کا ٹائٹل بھی کیا ہے۔ ایک عجب سا پس منظر ہے، آسمان کا رنگ دھندلا نیلا ہے بلکہ سفیدی زیادہ ہے، اس کے نیچے کبھی پہاڑ لگتا ہے، کبھی کسی حویلی کا شائبہ آتا ہے، کہیں پودوں یا پھولوں کی کیاری کا شبہ ہوتا ہے، ایک جانب کسی پرانی حویلی میں داخل ہوتی بجری کی روڈ کے کنارے لگے لیمپ پوسٹ کا خیال آتا ہے، لیمپ پوسٹ جو اوپر سے قوس کی شکل میں گھومتی اکیلی کھڑی ہے اور اس پر لگی لالٹین کہیں کھو چکی ہے،ہاں البتہ صفحات بکھرے اور گرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اچھا کیا کہ اوپر نیلے رنگ کا ایک ٹکڑا لگا کر اس پر اوارقِ منتشر کے نیچے افسانے، قصے، یادیں، طنز و مزاح لکھ دیا کہ پتہ لگ سکے کہ کتاب میں کیا ہے، ورنہ ٹائٹل کی تصویر سے تو کچھ پتہ نہیں لگتا۔ ہم نے کہا ، استاد، یہ تحریریں غیب سے خیال میں اتری ہیں، خواب ہیں۔ یہ ٹائٹل دھندلکے کا رنگ لیے ہے، کہانیاں پڑھیے، یہ صبح کی روشنی کی جانب لے جائیں گی۔ استاد بیگ کہنے لگے، اب کوئی ایسی کتاب کیا پڑھے کہ ہمارے جہان میں تو دن نکلتا نظر نہیں آتا۔
نوٹ: فیس بک پر اوراقِ منتشر کا صفحہ بنا یاہے جہاں پر قارئین نے اپنی رائے دینا شروع کی ہے۔ آراء سے علم ہوا کہ کتاب اپنا کچھ رنگ ضرور رکھے ہے۔ یہ آراء درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں ۔
https://www.facebook.com/AuraqEMuntashir
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں