• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • خالد جاوید کا ناول ” موت کی کتاب”: ایذا رسانی کی کتاب(حصّہ اوّل)۔۔فیصل اقبال اعوان

خالد جاوید کا ناول ” موت کی کتاب”: ایذا رسانی کی کتاب(حصّہ اوّل)۔۔فیصل اقبال اعوان

خالد جاوید کا ناول” موت کی کتاب” پڑھ کر امریکی ادیب سٹیفن کنگ کا یہ قول شدت سے یاد آتا ہے:
” بری تحریر، زبان و کلام کی خرابی اور مشاہدے کے عیوب ہی سے پیدا نہیں ہوتی؛ بری تحریر، عموماً ایسی کہانیاں سنانے سے کڑے انکار کا نتیجہ ہوتی ہے، جن میں اس زندگی کا تزکرہ ہو جو لوگ حقیقت میں گزارتے ہیں۔
بہ قول شمس الرحمن فاروقی صاحب: “یہ کوئی آسان کتاب نہیں ہے۔ اس کتاب کو برداشت کرنے کے لئے ہمیں ادب اور افسانے کے کئی مروجہ تصورات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا۔”
فاروقی صاحب کی پہلی بات سے تو اتفاق کرنا پڑے گا کہ یہ کوئی آسان کتاب نہیں ہے۔ واقعی یہ ناول نہایت ہلاکت خیر اور ایذا رساں ہے۔ دورانِ قرآت پہلا مرحلہ تو قاری کے لئے اپنے آپ کو جنونِ ہائج، مالیخولیا, ضعفِ جمیع قویٰ اور خفقانِ قلب سے محفوظ رکھنا ہے۔ اگر اس مقام سے قاری، شومئی قسمت سے، مامون و محفوظ گزر گیا تو اگلا مرحلہ شروع ہوگا جس میں اسے ان جاں گسل اور روح فرسا لمحات کی یاد کو فراموش کرنا ہے جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے اس پر بیتے۔
ناول دقیق اور الجھا ہوا ہے لیکن اس کی پیچیدگی نہ تو کسی پیچیدہ تجربے کا اظہار ہے اور نہ ہی ادق علامتی نظام کا نتیجہ, یہ مشکل صرف و محض تکنیک کی شعبدہ بازی اور اسلوب کے ابہام کا انجام بلکہ اس کی سزا ہے۔ یہ نہیں کہ معنی رمز و کنایہ کے دبیز پردے میں مستور ہیں، المیہ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اپنی اصل ہی میں بے معنی اور لایعنی ہے۔
ناول نگار نے حقائق، ان کی منطقی ترتیب اور رسمی تفہیم کو تیاگ کر ایسی ماورائی اور علامتی فضا بنانے کی ناکام کوشش کی ہے جس میں اشیا کے اشارے سے معنی کے کنارے ابھر سکیں۔ لیکن علامتی تخیل کے ڈسپلن کی صریح خلاف ورزیوں کی وجہ سے نہ تحریر میں علامت کے ستارے ابھرتے ہیں، نہ حقیقت نگاری کا سورج تمتماتا ہے اور نہ ہی استعارے اور تمثیل کے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ ناول میں ہمہ وقت ایک مریضانہ حبس کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ تفہیم کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے، کوئی منظر صاف دکھائی نہیں دیتا کہیں دھندلکا ہے تو کہیں جھٹپٹا۔ مصنف اس حقیقی جہان کو تج کے کسی دھیان کے مقام پر قبولیت کے لمحوں میں مسلسل دہائی دے رہا ہے:
‘ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی’
دعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مصنف کے سخن اور قدرت کے اذن سے قاری، نقاد حتی کہ ناول نگار خود بھی سمجھ نہیں پاتا کہ آخر یہ تحریر ہے کیا!

الجھاؤ کے ان لمحوں میں ایسی الم غلم اور مدقوق تحریروں کے ازلی وکیلِ صفائی، قبلہ! شمس الرحمن فاروقی صاحب بغل میں حوالہ جاتی کتابیں دابے حاضر ہوتے ہیں۔ جو کبھی اس ناول کو صحیفہء ایوب سے مشابہہ قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے انسان کے دکھوں کا جدید بیان کہتے ہیں ( صفحہ نمبر 115) فاروقی صاحب کا تعریفی مضمون بھی ہمراہ ناول لف ہے جس میں دئیے گئے دلائل کی نوعیت ایسی ہے کہ عدالت میں وکیل ایسے دلائل دے تو اس کا لائیسنس معطل کر دیا جائے۔ قاری کو محض ناول ہی کے عذاب سے نہیں گذرنا، فاروقی صاحب کے مضمون کی قیامت بھی جھیلنی ہے۔ قارئین، ہوشیار باش۔
فاروقی صاحب کی دوسری بات کہ اس کتاب کو برداشت کرنے کے لئے ہمیں ادب اور افسانے کے کئی مروجہ تصورات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا، تو اس باب میں عرض ہے کہ محترمی و مکرمی، قبلہ، شمس الرحمن فاروقی صاحب نے جدیدیت کی قینچی سے اردو افسانے کو روایت سے کاٹنے کی ناکام کوشش کر چکنے کے بعد اب بھیس بدل کر وہی حملہ ناول کی صنف پر بھی کر دیا ہے۔
نئے لکھنے والوں کو ہئیت، تجرید، چشمہء شعور اور اسالیب کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر فاروقی صاحب خود ہمیشہ روایت اور حقیقت پسندانہ اسلوب کی بس میں بیٹھے ہیں۔ یہاں بیٹھے بھی وہ موہوم، مبہم، عناصرِ ترکیبی سے محروم اور فکر و نظر کے نظم سے عاری تحریروں کو ادبِ عالیہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ابھی تک تو مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ بغیر ٹکٹ بس میں سفر کرنے والے عموماً اس بس کی سیٹیں پھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خیر ناول کی کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔
سیوکوگر یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے ماہر پروفیسر والٹر شیلر کو گرگٹہ تل ماس نامی شہر کے ایک پاگل خانے کے کھنڈرات کی تحقیقات کے دوران ایک مسودہ ملتا ہے جو دو سو سال سے بھی قدیم ہے۔ یہ قلمی نسخہ گزشتہ دو سو سالوں سے بھی زیادہ عرصہ پانی میں ڈوبا رہنے کے باوجود صحیح و سالم ہے اور اس کا ایک ورق تک نہیں گلتا۔ یہ مسودہ ایک معدوم و متروک زبان میں ہے جسے والٹر شیلر اپنے ایک دوست ہیوگو کو ترجمہ کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔ ہیوگو کا شجرہء نسب مشہور محقق اور مستشرق گارساں ژاتاثی سے ملتا ہے۔ وہ اس مخطوطے کا ایک مشینی ترجمہ کر کے اسے والٹر کو ارسال کرتا ہے اور یہی ترجمہ یکم اپریل، 2211 میں شائع کیا جاتا ہے جو اصل میں اس ناول کی کہانی ہے۔
پروفیسر والٹر شیلر کے مطابق : ’اس کتاب کو شائع کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسے پڑھ کر شاید کسی کو اس زمانے کے انسانوں کے جذباتی، انفرادی یا اجتماعی مسائل اور ان کے دکھ سکھ کا کوئی سراغ حاصل ہو ورنہ یہ کتاب نہ تو گرگٹہ تل ماس کی کسی تاریخی جہت پر روشنی ڈالتی ہے اور نہ ہی ادبی نقطۂ نظر سے یہ کوئی قابلِ ذکر کتاب قرار دی جا سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے Dutch writing کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جو نشے کے زیر اثر لکھی جانے والی کسی تحریر کو کہتے ہیں۔ ( صفحہ نمبر17)
کہانی صیغہء واحد متکلم میں بیان ہوئی ہے جسے انیس اوراق ( ابواب) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص ( متکلم) کے گرد گھومتی ہے جو آٹھ ماہ سے رحمِ مادر میں ہے جب اس کا باپ اس کی ماں کے ساتھ مباشرت کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے سر میں چوٹ آتی ہے اور وہ ایک طرف سے پچک جاتا ہے۔ بعد از پیدائش وہ ہر وقت اپنے ماں باپ کو لڑتےجھگڑتے دیکھتا ہے جس سے اس کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی ماں میراث اور باپ ایک زمین دار گھرانے کا معزز فرد ہے۔ باپ کو شک ہے یہ بیٹا اس کا نہیں بلکہ اس کی ماں کے ایک بھگوڑے فوجی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔ باپ کے سخت گیر رویے سے اس کے اندر نفرت اور منفیت پنپنے لگتی ہے۔ متکلم گھر کی چھت سے اپنے سے قدرے بڑی عمر کی لڑکی کو جنسی اشارے کرتا ہے جسے دیکھ کر اس کا باپ اسے پہلی مرتبہ سرِعام تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔
دونوں باپ بیٹا شدید نفرت کی زنجیر میں بندھے ہیں، بیٹا باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ متکلم کی ماں ایک دن اس کے باپ سے جھگڑ کر گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد مرکزی کردار کے باپ کا رویہ اس سے کچھ بہتر ہو جاتا ہے لیکن عمومی طور پر اس میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اسی دوران متکلم مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے لیکن ان حالات میں اس کی بد فعلیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ دوا دارو اور تعویز گنڈوں سے علاج میں ناکامی کے بعد بہ طور حل، اس کی شادی کر دی جاتی ہے لیکن متکلم کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آتی۔
شادی کے کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیوی پر شک کرنا شروع کر دیتا ہے اور اسے جنسی عمل ہی سے کراہت آنے لگتی ہے۔ وہ مسلسل خودکشی کرنے کا سوچتا ہے لیکن بات کو قتل کرنے کی خواہش کی طرح اس معاملے میں بھی قوتِ عمل سے محروم رہتا ہے۔ بہ ہر حال وہ خودکشی کو اپنا ہم زاد سمجھتا ہے۔ متکلم کی حالت زیادہ خراب ہونے پر بالاخر اسے پاگل خانے میں داخل کروا دیا جاتا، جہاں اس کا بجلی کے جھٹکوں سے علاج کیا جاتا ہے۔ علاج کے دوران ہی اس پر پیدائش سے پہلے کا وہ منظر منکشف ہوتا ہے جب اسے ماں کی کوکھ میں آٹھواں مہینہ تھا اور اس کے باپ نے جبرًا اس کی ماں کے ساتھ جنسی عمل کیا تھا۔ کہانی کے اختتام پر بہ قول متکلم وہ پاگل خانے میں اکڑوں بیٹھا ہے اور اپنے جوتے میں رکھی، پانی میں تر بہ تر خودکشی کو تھپتھپاتا ہے۔
قارئین، خاطر نشان رہے کہ یہ کہانی ناول میں جا بہ جا بکھرے ہوئے خیالاتِ پریشاں سے بہ مشکل کشید کی گئی ہے۔ حقیقت پسندانہ اور عمدہ ادب پڑھنے والے شائد اس مشقت کو وقت کے زیاں سے محمول کریں اور بعد از قرآت، ابتدائی چند صفحات، اس تحریر کے حسبِ اوقات؛ کتاب ہذا کے رکھنے کو ایسی جگہ منتخب کریں کہ دوبارہ اس دشمنِ جاں پر نگاہ نہ پڑے۔
تاہم بور کتابیں پڑھنے کے شوقین حضرات کو دلی مبارک باد کہ اس ناول کا اسلوب اور تکنیک، بوریت اور بیزاری کا مکمل سامان لئے ہوئے ہے۔ بے محل تکرار، ژولیدہ بیانی، بے جا طول، اسدھ بلکہ اکتاہٹ پیدا کرنے والی خودکلامی، پریشان گوئی، پیچیدہ دست بیانیہ اور الجھی ہوئی زبان جیسے معائب کے بھرپور تعاون سے مصنف نے قارئین کو بیزار کرنے کا کامیاب اہتمام کیا ہے۔
کسی بھی تحریر کی اولین خوبی اس کا قابلِ مطالعہ ہونے کا گُن ہے۔ ” موت کی کتاب” اول و آخر اس خوبی سے محروم ہے۔ مشتاق احمد یوسفی مرحوم کا قول ہے کہ انسان کو نسل در نسل کسی کتاب سے متنفر کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے کہ اسے نصاب میں شامل کر دیا جائے۔ میرا ایمان ہے کہ یہ ناول یوسفی صاحب، کی نگاہ سے نہیں گزرا ورنہ وہ ضرور اپنی رائے میں ترمیم کرتے کہ
‘ یہ لکھت بھی یا الٰہی اپنے خاکستر میں تھی’
مصنف نے اس ناول میں جو “مفید” زبان استعمال کی ہے اس کا مطلب چاہے کچھ نہ ہو، لیکن ظاہراً علمیت ضرور ٹپکتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ناول کے آغاز سے قبل ژاں ژاک روسو اور والٹر بنجمن کے دو ایسے اقوال داغ دئیے گئے ہیں جن کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کتاب کے بعید از فہم ہونے میں ناول نگار کے عجزِ بیان کا نہیں سراسر قاری کی کج فہمی، لاعلمی اور جہالت کا قصور ہوگا۔ پہلے روسو کا فرمانِ عالی شان دیکھئیے؛
“کوئی پھول، پتہ، یا پودا کتنا ہی نازک، کتنا ہی خوبصورت، حیرت انگیز اور مختلف کیوں نہ ہو، کسی اناڑی کی آنکھ کو وہ زیادہ دیر مسرت نہیں بخش سکتا۔ نباتات کی رنگارنگی سے حظ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تھوڑی بہت سمجھ تو ہو، مختلف پودوں کے آپسی رشتوں، ان کی خصوصیات اور ان کی انفرادیت کا کچھ علم ضرور ہو اور سب سے زیادہ علم تو مٹی کا ہونا چاہئیے۔” ( صفحہ نمبر 9)
اب قبلہ! والٹر بنجمن کی بھی سنئے:
” کوئی نظم پڑھنے والے کے لئے نہیں ہوتی، کوئی تصویر دیکھنے والے کے لئے نہیں ہوتی اور کوئی موسیقی سننے والے کے لئے نہیں ہوتی۔” ( صفحہ نمبر 11)
محولہ بالا فرمودات کا کتاب کے آغاز میں عمداً زکر یقیناً مصنف کا نازیبا اور ناشائستہ عمل ہے لیکن اس نے ان کے زریعے جس “دور اندیشی” سے اپنے ناقابلِ فہم اور ہذیانی ناول پر قارئین کے یقینی و حقیقی اعتراضات کا دوامی بندوبست کیا ہے اس پر لارڈ کارنوالس کی روح بھی شرما رہی ہو گی۔ ناول کو خراب کہنے کا براہِ راست نتیجہ قارئین کی جہالت کی صورت میں نکلنے کے خدشے کے پیشِ نظر” ادبی” حلقوں میں ناول ہذا کو زبردست پزیرائی مل رہی ہے۔ آپ مصنف کی تصنیفی صلاحیتوں پر شک کر سکتے ہیں لیکن اردو قارئین کی نفسیات کی بابت اس کے علم اور اس کی حالیہ افادیت کا انکار کرنا مشکل ہے۔ مسلکی اعتبار سے مصنف نے خود کو فنونِ لطیفہ کی بجائے فنونِ مفیدہ کا پیروکار ثابت کیا ہے۔
محترم ناول نگار نے اس کتاب میں اپنے پریشان خیالات و افکار کچھ ایسی شان سے بیان کئے ہیں کہ پڑھنے والا ہلکان ہو کر بھی ان کی تفہیم کا اعلان نہیں کر سکتا۔ قاری کوشش کے باوجود ان سے کوئی مطلب اخذ نہیں کر سکتا، نتیجتاً اس کا ذہن معطل ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف بھی نہیں جانتا کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ وہ محض تکنیک کے ساتھ کُشتی میں مصروف ہے۔ اپنی ساری انرجی یہیں کھپانے کے بعد وہ پیچیدہ بیانی میں خیال الجھاتا ہے اور نتیجتاً منھ کی کھاتا ہے۔ مصنف پورے ناول میں محض زبان کے چھلاوے کے پیچھے بھاگا ہے۔ بہ قول شخصے: فکشن کا آدھا کام تو زندگی اپنے سر لیتی ہے، لیکن ہئیت پسندوں کا سب سے بڑا مسئلہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ وہ زندگی سے نظر چرا کرنگاہ فقط اسلوب پر جمائے رکھتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تخلیقیت سے پہلو تہی کی سزا بے چارہ قاری کو بھگتتا ہے جسے ایسے ادب کی خواندنی میں قیامت سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو وہ عجیب و غریب زبان پڑھ کر ٹھٹکتا ہے پھر اسلوب اور بیانیے کے الجھاؤ میں بھٹکتا ہے اور آخر کار ناول پڑھ کر اپنا سر پٹختا ہے۔ صفحہ نمبر 24 کا دوسرا اور تیسرا پیراگراف ملاحظہ کیجئے:
یہ آگہی تو دراصل مجھے ایک ٹھنڈے پسینے نے دی ہے( ناول پڑھ کر قاری کو بھی ٹھنڈے پسینے آتے ہیں)۔ یہ ٹھنڈا پسینہ میرے جسم کی لامحدود اور ناقابلِ یقین گہرائیوں سے آتا ہے۔ جسم کے مساموں میں پھیلی ہوئی اندھیری، باریک اور ریشے دار سرنگوں سے”۔
” وہ اس طرح آتا ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا وجود اپنے تمام پوشیدہ ممکنات کے ساتھ کھال اور ہڈیوں کو توڑتا ہوا باہر آ رہا ہے یہ ایک قسم کی ہلاکت خیزی ہے، اس پسینے میں ایک خاص بو شامل ہوتی ہے، کچھ کچھ خون کی بو سے ملتی جلتی۔ اس ٹھنڈے پسینے کا کوئی وقت، کوئی موسم اور کوئی دن مقرر نہیں۔ یہ کڑکڑاتے جاڑے، برسات، حبس زدہ گرمی، کسی بھی موسم میں اچانک آ جاتا ہے۔ سخت سردی میں یونہی کھڑے کھڑے یہ محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی تیز گرم لو کا جھونکا آیا تھا جو سینے، بازو یا کندھے کو چھو کر گزر گیا۔ تب سوئیٹر کے نیچے، بہت نیچے ( بھائی صاحب، سوئیٹر کے آخر کتنا نیچے تک جایا جا سکتا ہے) کہیں اس ٹھنڈے پسینے کی موہوم آہٹ سنائی دیتی ہے ( پسینے کی آہٹ، میاں! خیریت تو ہے)۔ پسینہ کہیں سے آ رہا تھا مگر اچانک سردی کی بھول بھلیوں میں وہ اپنا راستہ بھول گیا۔ میں سیدھا ہاتھ سوئیٹر کے نیچے بنیان کے اندر ڈالتا ہوں۔ خاص دل کے پاس، بائیں طرف، اپنا افسردہ پسینہ پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں وہ نہیں ملتا بس اس کا پھیکا رنگ ہی میری انگلی سے چپک جاتا ہے۔ تتلی کے کسی نادیدہ رنگ جیسا۔”
صفحہ نمبر 33 پر کنندہ یہ شاہ کار لائنیں بھی دیکھئے:
” میں اس گھر سے ہمیشہ کسی کتے کی طرح باہر نکلتا۔دم دبائے اور اپنے منھ میں اس کے میلے نیلے دوپٹے کی ایک دھجی کو محسوس کرتے ہوئے جسے میں کبھی زمین پر نہ گرنے دیتا۔ اگر کبھی غلطی سے وہ میرے منھ سے پھسل کر، زمین پر خاک یا کیچڑ میں پل بھر کو گر بھی جاتی تو دوبارہ میرے تنفس کے باعث فوراً میری تھوتھنی کے ساتھ چپک جاتی۔ ہر سانس اندر, پھر باہر, پھر اندر پھر باہر۔ محبت زمین پر گرتی ہے، پھر اٹھتی ہے۔ صرف کتے کی طرح چار ہاتھ پیر پر چلنے سے ہی میں ان مردہ نقابوں کو تا عمر سنبھال سکتا تھا۔”
اسی صفحے کی آخری سطر سے صفحہ نمبر 34 کی چوتھی لائن تک پھیلے یہ افکارِ عالیہ بھی پڑھنے کے لائق ہیں:
” مگر اس شام میں اس کے گھر سے دو پیروں پر چلتے ہوئے ایک ذلیل سوّر کی مانند باہر نکلا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دو سفید نکیلی ہڈیاں صاف دیکھ لی تھیں، اور یہ بھی کہ پسینے سے بھیگے اپنے سینے سے بائیں طرف، ٹھیک میرا دل ہی ان ہڈیوں کی زد پر تھا۔ ان ہڈیوں سے اپنے دل کو بچانا مشکل تھا۔ خوف کے مارے، ان سے بچنے کے لیے میں نے اپنی طوطا چشم آنکھوں پر سوّر کے دو تین بال لگا لیے جو ان مواقع کے لیے اکثر میری جیب میں پڑے رہتے ہیں۔”
صفحہ نمبر 35 کے چوتھے پیراگراف کی ان سطور کا مطالعہ متکلم( مصنف) کی ذہنی حالت مزید واضح کر دے گا:
” خودکشی کو میرا یہ رویہ عجیب لگا مگر وہ کچھ بولی نہیں بس خاموشی کے ساتھ ایک معصوم اور پالتو گلہری بن کر میری پتلون کی جیب میں بیٹھ گئی۔”
یہ سب کیا ہے۔ ان لغویات کے کیا معانی ہیں۔ کیا ناول نگار اور ان کے گرو فاروقی صاحب ان ہفوات کی کوئی شرح بیان کر سکتے ہیں۔ اس تعلی کے سوا کہ یہ ایک مشکل کتاب ہے۔ بہ ہرحال، قارئین کے اذہان کے لئے تو اس “گیان” سے سراسر نقصان ہی برآمد ہوا ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیات آن لائن

Facebook Comments