ماسکو سے مکّہ (7)ڈاکٹر مجاہد مرزا

کھانا کھانے وہیں گئے تھے۔ میں نے تو پاکستانی کھانا کھا لیا تھا لیکن جمشید مزید “مرچین” کھانے سے انکاری تھا۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ “کے ایف سی” (کینٹکی فرائیڈ چکن) کا جوائینٹ کہاں ہے۔ مجھے ایک نوجوان پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ خاصا دور ہے۔ البتہ جب وہاں سے واپس جا رہے تھے تو مجھے کے ایف سی ٹائپ ایک دکان دکھائی دے گئی تھی اور وہاں جمشید کو بھی پیٹ بھرنے کا موقع مل گیا تھا۔ بھاگم بھاگ مغرب کی نماز پڑھنے پہنچے تھے۔ عبادت کی حرص میں مبتلا جمشید لمبے لمبے ڈگ بھرتے مسجد کے اندرونی حصے میں جا داخل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے اندر ایک ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملے گا۔ وہ احاطے کو مسجد تسلیم نہیں کرتے تھے کیونکہ وہاں ہم جوتے پہن کر چل سکتے تھے۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ بھائی وہ مسجد جو حضور صلعم کے زمانے میں تھی وہ تو بہت چھوٹی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب جو مسجد ہے وہیں ثواب زیادہ ہے۔ میں نے کم ثواب پہ تکیہ کرکے بھاپ کی مانند پانی کی پھوار پھینکتے ہوئے پنکھوں کی ہوا میں بیٹھ کر احاطے میں ہی نماز پڑھ لی تھی۔ مسجد نبوی کے احاطے میں دن کو کھلنے اور سورج ڈھلنے کے بعد بند ہونے والے آٹومیٹک چھتر اور یہ منفرد پنکھے “کفار جرمنی” کی دین تھے۔
جمشید ثواب کے لالچ میں پھر غائب ہو چکے تھے۔ کہیں بیٹھ کر قرآن یا نفلیں پڑھ رہے ہوں گے کیونکہ ان کا بھی عام ملاؤں کی طرح یہی خیال تھا کہ کراما” کاتبین نے کیلکولیٹر پکڑے ہوئے ہیں اور وہ مسجد نبوی میں کی گئی عبادات کو ضربیں دیتے ہوئے درج کرتے جا رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی باتیں عبادت کی جانب رغبت دلانے کی خاطر کی گئی ہونگی۔ چونکہ عرب ہمیشہ سے ہی منفعت پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے چنانچہ انہیں سمجھانے کی خاطر مخصوص مقامات پر عبادت کی عظمت، اہمیت اور اجر کو اجاگر کرنے کے لیے ہزار، لاکھ بولا گیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہزاروں یا لاکھوں کہنا بہت زیادہ کو ظاہر کرتا ہے۔ عبادت کے اجر کا انحصار آپ کی نیت اور خلوص پر ہوتا ہے۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ میں تو حضرت رابعہ بصری کی اس بات کو کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہوں جب وہ ایک ہاتھ میں پکڑی آگ سے بہشت کو جلانے جا رہی تھیں اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پانی سے جہنم کو بجھانے جا رہی تھیں۔
آج رات عشاء کی نماز کے بعد سکت نہ رہی تھی کہ مزید عبادت کے لیے مسجد نبوی میں ٹھہرا جا سکتا۔ میں واپس ہوٹل چلا گیا تھا اور جاتے ہی ڈوکسی سائیکلین کے دو کیپسول اور پیراسیٹامول کی دو گولیاں معدے میں انڈیل لی تھیں۔ یہ احتیاطی تدبیر تھی کہ کہیں طبیعت کی خرابی سے حج ہی خراب نہ ہو جائے لیکن اللہ تعالٰی نے بخوبی حج کروانا تھا اس لیے راستے بھی دکھا رہا تھا۔ میں سو گیا تھا۔ کہیں تین بجے انکل داؤد نے باتھ روم جانے کی خاطر اپنی چھوٹی سی ٹارچ جلائی تھی تو اس کی روشنی سیدھی میری آنکھوں کو لگی تھی۔ آنکھ کھل گئی تھی۔ جمشید کا بستر اسی طرح بنا ہوا تھا جیسا دن میں دیکھا تھا۔ کیا وہ مسجد سے واپس ہی نہیں آیا تھا؟ انکل تو واپس آ کر لیٹے اور سو گئے تھے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آدھے پونے گھنٹے بعد میں اٹھا تھا۔ وضو کیا تھا اور مسجد نبوی کی جانب چل پڑا تھا۔ گلیاں بالکل ویران تھیں لیکن سارا علاقہ روشن تھا۔ میں مسجد کے گیٹ نمر ایک سے داخل ہو کر امام کی دائیں جانب دوسری قطار میں جا کر نفلیں پڑھنے لگا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جمشید میرے آگے ہی پہلی صف میں ایک چادر لپیٹے ہوئے قرآن کریم پڑھنے میں مگن تھے۔ جب میں نفلیں پڑھ چکا تو ذکر کرنے بیٹھ گیا تھا۔ میرے ساتھ ہی میرے بائیں جانب ایک پنجابی نوجوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ میں پاکستان کا طبع شدہ کوئی دعا نامہ تھا۔ اس کے بائیں جانب ڈوری سے کچھ حصہ محدود کیا ہوا تھا، جہاں نائب آئمہ اور دینی طالب علم سروں پہ مخصوص سعودی رومال اوڑھے بیٹھے تھے۔ ڈور کے اس طرف بیٹھا ایک نوجوان طالبعلم کوشش کر رہا تھا کہ پنجابی نوجوان کے گھٹنوں پر دھرے دعا نامے کو پڑھ کر کچھ اخذ کر سکے لیکن وہ بھلا کیسے کر سکتا تھا یہ دعا نامہ دراصل پنجابی زبان میں تھا۔ میں نے جو دیکھا تو اس پر پتہ نہیں کن کن گمنام پیروں، خلیفوں اور بڑے مر یدوں کے نام لکھ لکھ کر ان کے ساتھ عربی دعائیں جوڑی ہوئی تھیں۔ مطلب یہ کہ خالصتا” بدعتی کتاب تھی۔ اگر ایسے لوگوں کو موقع دے دیا جائے تو وہ جنت البقیع میں صحابہ کرام کے مرقدوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں کریں گے۔ یہ تھا وہ نمونہ جس کا میں نے اس سے پیشتر ذکر کیا تھا۔ اس عجیب وغریب دعا نامے کو وہ نوجوان مسجد نبوی میں بیٹھا پوری عقیدت سے پڑھ رہا تھا۔
نماز پڑھانے کی خاطر جب مخصوص دروازے سے امام صاحب داخل ہوئے تھے تو ان کے ساتھ آٹھ وردی پوش پولیس والے بھی داخل ہوگئے تھے۔ نماز کے دوران چھ تو نمازیوں کی جانب منہ کرکے اور دو امام صاحب کی پشت کی جانب منہ کیے مختلف پوزیشنوں میں کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے تھے۔ ایسا کیا جانا بہت عجیب لگا تھا۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں نے جمشید کو سلام کیا تھا۔ وہ مجھ سے کچھ کھنچے کھنچے سے لگتے تھے۔ میں نے ناشتہ کھانے چلنے کو کہا تو انکار کر دیا۔ مسجد نبوی سے نکلتے ہی ایک نوجوان چائے بیچ رہا تھا۔ ہم دونوں نے چائے لی تھی, انہوں نے کچھ مفن وغیرہ کھا کر پیٹ بھر لیا تھا۔ میں نے پراٹھوں والی دکان کی راہ لی تھی۔ جب ہوٹل لوٹا تو جمشید نہیں تھے۔ میں نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ نیند آ گئی تھی۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو کمرے میں کھڑے ہوئے جمشید نے مجھ پر روسی زبان میں تابڑ توڑ حملہ کر دیا تھا کہ خود سو جاتے ہو۔ کھانستے ہو، خراٹے بھرتے ہو۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ میں رات ایک بجے ہی تنگ آ کر مسجد چلا گیا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ کہہ دوں “بھائی اس طرح تو تمہیں مزید ثواب کمانے کا موقع میسّر آ جاتا ہے” لیکن میں نے معذرت کی تھی اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میں بیمار ہوں۔نزلے کے ساتھ نیند میں میں خراٹوں پہ بھلا کیسے قابو پا سکتا ہوں لیکن وہ رنجیدہ ہوئے ہی چلے جا رہے تھے۔ میں نے اکتا کر کہہ دیا تھا کہ ایک ہی حل ہے آئندہ میرے ہمراہ کمرہ نہ لیجیے گا۔ اب جمشید صاحب دراز ہو کر انٹا غفیل ہو گئے تھے۔ ظہر کے وقت انہیں جگایا تھا اور اکٹھے مسجد گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply