ایک نہیں ،دو پاکستان/طیبہ ضیا چیمہ

ایک نہیں دو پاکستان
ایک نہیں دو پاکستان، نواز شریف نکالے جائیں تو ادارے زندہ باد، عمران خان نکالے جائیں تو ادارے مردہ باد، جسٹس قاضی اور صدیقی نکالے جائیں تو ادارے زندہ باد، چھ جج آواز اٹھائیں تو ادارے مردہ باد، عمران کوگود اٹھائیں تو ادارے زندہ باد، زمین پرپٹخ دیں پھر توسب ہی مردہ باد سوائے فیض حمید کے، جس کے ساتھ مرشد نے دس سالہ حکمرانی کرنی تھی۔ خان کا جو مخالف وہ فضلو اور ڈیزل خان ساتھ تو حضرت فضل الرحمان مدظلہ اعلی، خان کا مخالف پنجاب کا ڈاکو، خان کا ساتھی چودھری پرویز الٰہی صاحب، ایم کیو ایم کوقاتل جماعت کہتے تھے پھر الطاف بھائی ہوگیا، خان لاڈلہ ہوا تو جرنیل ابو جی۔

خان کی سازش پکڑی گئی تو تمام میر جعفر میر صادق ہو گئے، اچکزئی غدار تھا، خان کی سپورٹ ہوئی تو وہ صدر محترم ہوگیا۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ تھا ایک ہی پاکستان اس نے دو بنادئییاور یہی نہیں ھم کوئی غلام ہیں کا ڈھونگ رچانے والے دوسری طرف امریکی کانگریس مینز کو چندہ جمع کرکے دیتے ہیں کہ مرشد کے حق میں آواز اٹھاؤ یہودی لابی کو مضبوط بناؤ۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تیس برس پہلے پیشگوئی فرما گئے تھے۔

دنیا نے دیکھا آج یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے۔ یہودیوں کا جوائی اسلامی ٹچ دے کر آج دنیا مقبول کلٹ بن چکا ہے۔ ریاست مدینہ میں نقب لگانے والے دو یہودی نور الدین زنگی نے کیفر کردار کو پہنچائے تھے۔ جعلی ریاست مدینہ کا ڈھونگ بھی قدرت ہی انجام تک پہنچا رہی ہے۔ نو مئی پکڑ دھکڑ کا سیزن 2 وڈی عید تک شروع ہونے والا ہے، تین پاکستان بنانے کا منصوبہ سر اٹھانے سے پہلے کچل دیا جائے گا۔ اب یہ تیسرا پاکستان کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی دو نظریات میں تقسیم ہو چکا ہے، شخصیت پرست پاکستانی اور شخصیت پرستی سے متنفر پاکستانی۔

اب بلوچوں کے بعد پختونوں کو ریاست سے لڑانے کی پوری کوشش جاری ہے اور ٹی ٹی پی والے جو زمان پارک تک پہنچے ہوئے تھے اب پورے ملک کو زمان پارک بنانا چاہتے ہیں۔ یعنی ریاست کے اندر ریاست کی بدمعاشی سے ریاست کو کمزور کرنا مقصود ہے، سکیورٹی ادارے کمزور ہوں تو ایٹمی اثاثوں پر قابض ہوا جا سکتا ہے۔ دشمنوں کی اس مکروہ منصوبہ بندی پر برسوں سے کام ہو رہا تھا جو ” کلٹ ” کی صورت میں کھل کر سامنے آچکا ہے۔ نو مئی کی بغاوت ناکام بنا دی گئی تو اب آٹھ فروری کا الیکشن بلیک میل کرایا جارہا ہے۔ کلٹ کو زعم ہے کہ ووٹ اس کی اندھی پرستش میں ڈالا گیا ہے جبکہ ووٹ نو مئی کی ناکامی کے غم و غصہ کا رد عمل تھا۔

لیڈر تحریک انتشار کو اگر مقبولیت کا ووٹ ملا ہوتا تو 2013ء میں کیوں ہارتا؟ مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی ہوتی تو 2018ء میں بیساکھیاں کیوں مہیا کرنا پڑتیں۔ 2024ء میں بھی مقبولیت کوووٹ نہیں ملا، نو مئی کے غصے کو ووٹ ملا ہے۔ منافقت اور لوٹا ازم تحریک انتشار کا بین الاقوامی برانڈ ہے۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ شامل ہو جائیں وہ مومن۔ جو حکومت میں شامل ہوں وہ نعوذباللہ منافق؟

جو الیکشن 2018ء میں غلط تھا 2024ء میں بھی غلط ہے۔ اگر 2018ء میں شفاف تھا تو 2024ء میں بھی شفاف ہے۔ جس نے 2018ء میں کرسی پر بٹھایا تھا پھر 2024ء کی کرسی کیوں کر دھاندلی والی ہوگئی؟ اگر 2018ء میں کرسی دھاندلی کی تھی تو پھر 2024ء کی کرسی بھی دھاندلی کی ہے۔ تحریک انتشار بے انصاف کلٹ کی اندھی تقلید میں ملک دشمن ہو چکی ہے، جنات بھی نہ جانے کہاں دفع ہو گئے ہیں جو کلٹ کو وزیر اعظم بھی بنوا دیتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شیطانی جنات رہائی دلانے میں ناکام ٹھہرے تو شرمندگی مٹانے کے لئے الزامات خفیہ جنات پر ڈال دئیے، عدت میں نکاح اور اپنی شرمناک کرپشن بھی ان پر ڈال دو۔ جب تک ان تمام شعبدہ بازوں کے جنات نہیں نکالے جائیں گے، پاکستان دو سے تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور یہی کلٹ کی آرزو تھی۔ اس نے ٹی وی پر کہا تھا اس ملک کے تین ٹکڑے ہوں گے (خاکم بدہن)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply