میرے بچپن کی بسنت

میرے بچپن کی بسنت
مقدس کاظمی
 جب بھی موسمِ بہار کی آمد آمد ہوتی ہے تو سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں  ہر سال    بسنت کا ذکر بھی لازمی چھڑتا ہے۔ جہاں اسکے حمائتی اس تہوار کو زور شور سے منانے کی بات کرتے ہیں وہیں بعض الیکٹرانک چینلز اس تہوار سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے بعض مذہبی عناصر کے ذریعے ،اس تہوار کو کافروں، یا فحش کاروں  کا اجتماع قرار دے کر سختی سے اسکی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ اور تو اور بعض مذہبی لوگ تو اس تہوار کو اس طرح یہود و ہنود کی سازش قرار دیتے ہیں جیسے کسی پتنگ کو ہاتھ لگانے سے ایساناپاک ہوتا ہے کہ غسل کئے بنا وہ پاک نہیں ہوتا اور اگر کوئی ساتھ ڈور کو بھی ہاتھ لگالے تو یہ ایسا گناہ کبیرہ ہوتا ہے گویا چالیس دن تک توبہ قبول نہ ہوگی اور اگر خدا نخواستہ کسی نے پتنگ اڑا لی تو اختیاط واجب ہے کہ تجدید ایمان کروالیا جائے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس تہوار کی بھر پورمخالفت اور پھر اس پر پابندی اس وقت لگی جب کچھ ناعاقبت اندیش افراد کی طرف سے غیر قانونی ڈور اور کیمیکل استعمال ہوئےجسکے باعث کئی معصوم بچوں اور بڑوں کے گلے بھی کٹے ۔ توپھر عدالتیں بھی حرکت میں آئیں اورجنہوں نے اسے خونی کھیل قرار دے کر اس رنگ برنگے تہوار پر پابندی لگا کر اسے ہمیشہ کے لیےپورے پنجاب ، باالخصوص اسے لاہوریوں سے دور کردیا۔
آہ! اک ہوک سے اٹھتی ہے جب بھی اس بسنت کا سوچتا ہوں ۔ اسی لئے مجھے آج، نہ تو اس تہوار کو مسلمان یا ھندو ثابت کرنے کے لیے  دلیلوں کے انبار لگانے ہیں  نہ اس تہوار کو ایک سازش قرار دے کر، اسکا تانا بانا ھندوستان سے لے کر اسرائیل سےثابت کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ نہ کسی معصوم کے ڈور سے گلے کٹنے جیسے خوفناک حادثات کی تاویلیں پیش کرنا ہیں بلکہ میں تو آج ، اس بسنت سے جڑی اپنی بچپن کی یادوں کو آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ جس سے شائد آپ کو اندرون ِ شہر کے بچوں سے لے کر بڑوں تک میں، پتنگ بازی کا جنون کی حد تک شوق اور بسنت کے موقع پر اس کا بھر پور اظہار، اس بے ضرر تفریح کے بارے میں سمجھنے میں کچھ مدد دےسکے۔ اور پھر یہ کہ آخراس پتنگ بازی کے کھیل کا لاہور، باالخصوص اندرون شہرسے کیا خاص تعلق ہے؟
اگر آپ اندرون شہر کے باسی نہیں  مگر پھر بھی کبھی لاھور کے اندرون شہر کو دیکھنے کا موقع ملا ہو تو آپ کوبخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ لاہور کا جہاں تاریخی عمارتیں، جیسے مساجد،  حویلیاں، مزار، مقبرے ہیں جو یقیناً ہمارا قومی ورثہ ہے وہیں اسکی تنگ و تاریک گلیاں اور آسمان کی جانب رواں دواں  کثیرالمنزلہ عمارتیں اندرون شہر کا خاصہ ہیں۔ ان بلندبالا عمارات کی وجہ سے ان تنگ و تاریک گلیوں میں دن کو بھی روشنی مشکل سے ہی پہنچتی ہے کہ ان گلیوں میں صبح کو بھی  شام کا سماء محسوس ہوتا ہے۔ اور بعض گلیاں تو اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ بقول مشتاق یوسفی اگر ن گلیوں میں ایک جانب سے مرد اور دوسری جانب سے عورت آجائے تو پھر نکاح کی گنجائش ہی باقی بچتی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ان تنگ گلیوں میں اگر کوئی مرگ ہوجائے تو مُردے کو چاپائی کی بجائے، اسے دو افراد ڈنڈا ڈولی کرکے کسی قریبی مسجد یا امام بارگاہ میں لیجاتے ہیں۔ اور پھر قریبی قبرستان ، جو کب کے مردوں سے بھر چکے ہیں مگر پھر بھی وہاں  اب تک مردے کامیابی سے دفنائے جارہے ہیں  اور ایک ایک قبر میں ستر ستر مردے دفنانے کا فن بھی مقامی گورکن ہی خوب جانتے ہیں ۔ اور وہ یہ کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اندرون شہر کی کچھ برادریوں نے اندرون شہر سے باہر زمینیں لے کر وہاں قبرستان بنا کر اپنے مردے دفنانے کا انتظام بھی کیا ہوا ہے۔اب جب میں نے بھی کئی دوسرے بچوں کی طرح اس دنیا میں  آنکھ کھولی تواپنے آپ کو اندرون شہر کے محلے موچی دروازہ میں پایا ۔بلکہ مجھے جو اپنے بچپن کی پہلی ہوش ہےوہ دور دور تک چھتوں کا نظارہ ہی تھا کیونکہ ہم بالائی منزل پر رہائش پزیر تھے۔
موچی دروازے کا قریب ترین باغ ،تاریخی موچی باغ ہے جہاں بڑے بڑے شعلہ بیاں مقریرین نے حاضرین کے دلوں کو نہ صرف گرمایا بلکہ بھڑ کایا بھی ہے۔ اگر کبھی ہم اسکول سے فارغ ہوتے تو اسی موچی باغ میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ موچی باغ کے باہر سرکلر روڈ پر ہمیشہ سے بھاری ٹریفک رواں دواں رہتی۔ تانگے ریڑھے، ہتھ گاڑیاں، اومنی بسیں، ڈبل ڈیکر سب اپنی اپنی رفتار سے چل رہی ہوتیں۔ اور اب تک ٹریفک کا حال یہی ہے ۔ ہاں تانگے اب تقریباً معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ اور انکی جگہ چنگ چی رکشوں  نے لے لی ہے۔ ان تانگوں سے یاد آیا کہ جب آپ نے موچی دروازہ اترنا ہوتاتو تانگے والا موچی دروازہ اسٹاپ پر آواز لگاتا’’ہے کوئی موچی‘‘ اب پتہ نہیں وہ ’’موچی‘‘ کو طنزیہ لے رہا ہوتا تھا یا اس سے مراداسکی موچی دروازہ کی کوئی سواری ہوتا تھا۔
جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھے آسمان پر اڑتی پتنگیں بڑی اچھی لگتیں۔
میں اکثر بچپن میں چھت پر چلاجاتا اور اڑتی پتنگوں کو دیکھ کر دل میں ایک عجیب سا لطف محسوس کرتا۔ شروع میں ہم موچی دروازے کے ایک محلے مغل حویلی میں بھی رہے۔ ہمارے ساتھ والی حویلی میں ایک بہت بڑی فیملی رہتی تھی جو آتش بازی کا سامان اپنی حویلی میں ہی بناتے تھے۔ ان کے گھر کے مرد ہر اتوار کو پتنگ بازی کیا کرتے تھے۔ یہ 70 کی دھائی کی بات ہے۔ میں بھی اس دن اپنی چھت پر موجود ہوتا اور دعا کرتا کہ یااللہ ہوا کا رخ میری چھت کی طرف ہوتاکہ میں انکی پتنگ کٹنے کی صورت میںلوٹ سکوں۔ اور جب بھی ایسا ہوجاتا میں کافی ڈور لوٹتا اور اس طرح ایک پِنّا جو مختلف قسم کے رنگوں کی ڈور وں کے ٹوٹوں پر مشتمل ہوتا تھا وہ معرض وجود میں آجاتا جس سے نہ صر ف ہم کٹی پھٹی پتنگیں روٹی کا نوالہ منہ میں چپا کر ’’لئی ‘‘ بنا کر اسے جوڑ کر اڑاتے بلکہ اس سے ہم گاٹیوں کے پیچ بھی لڑایا کرتے تھے۔ اس حویلی کے ایک بڑےفرد کا نام آفتاب ابھی تک یاد ہے جو ماہر پتنگ باز بھی تھے۔ مگر پھر ایک دن اس حویلی میں  آتش بازی کے ذخیرے میں بھیانک  آگ لگ گئی اور حویلی کے ساتھ ساتھ تقریباً پورا خاندان بھی جل گیا اور خال خال ہی لوگ بچے ۔ یہ موچی دروازے کی تاریخ کے چند بدترین حادثوں میں سے ایک حادثہ تھا مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کیسے اس حویلی تک فائر بریگیڈ بڑی مشکل سے پہنچی مگر کسی کی کوششیں بآور نہ ہوسکیں۔میں ابھی تک نہیں بھولا کہ  اس حویلی کے باہر، ارد گرد کی گلیوں میں لوگوں کا جمِ غفیر تھا جبکہ میں بار بار اس مجمع میں  گُھستا اور اسکے قریب جانے کی کوشش کرتا مگر سیانے لوگ مجھے وھاں سے بھگا دیتےکیونکہ  حویلی کے اندر سے بار بار دھماکوں کی آواز یں مسلسل آرہی تھیں۔ میں ایک ٹرینی ای میڈیا کے رپورٹر کی طرح جو کچھ ادھر ادھر سے سنتا وہ بھاگ کر امی کو رپورٹ کردیتا ۔ اور جواب میں امی کی توبہ استغفار بلند ہوجاتی اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتیں۔ اس حادثے میں تقریباً 20 سے زیادہ جانیں گئیں۔ جس میں آفتاب بھائی سمیت اسکے خاندان کے افراد بشمول خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔یاد رہے کہ ہم ان دنوں اس حویلی سے کچھ دور چوک نواب صاحب میں شفٹ ہوچکے تھے کہ اس حویلی کی آتشزدگی کا اثر ہمارے گھر تک نہ پہنچا۔
اب جیسے ہی ہم کچھ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ جس پتنگ بازی سے ہم والہانہ عشق کرتے ہیں میرے والد صاحب اس سے اتنا ہی اظہارِبرأت کرتے ہیں اور اس تفریح کو کسی بھی صورت اچھا نہیں سمجھتے ۔ والد صاحب کے پتنگ بازی سے متعلق خیالات جان کر بے حد مایوسی ہوئی۔ لہٰذا میں نے بھی اس معاملے میں تقیہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور اس کا پھر یہ حل نکالا کہ جب تک والد صاحب گھر میں ہوتے ہم شریف بچوں کی طرح چھت کا رخ بھی نہ کرتے مگر جیسے ہی والد صاحب گھر سے باہر چلے جاتے میرا ٹھکانا  چھت ہی ہوتا ۔ چونکہ گھر میں گڈی ، گڈا ، پتنگ رکھنا بہت بڑا جرم بن چکا تھا لہٰذا میں کوشش کرتا کہ لوٹی ہوئی پتنگ کو چھت پر ہی کہیں چھپا دوں۔70 کی دھائی میں میری عمر کوئی 10-12 سال تھی اور گھر میں ،پتنگ بازی میں پابندی لگنے سے میری اس سے محبت دوآتشہ ہوگئی۔ میں باہر سبزی بھی لینے جاتا تونظر آسمان پر ہوتی اور اگر کوئی گڈی کٹ کر تنگ گلی میں آجاتی تو اسکے لوٹنے والوں میں ، میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالتا ۔کیونکہ پتنگ لوٹنے کا بھی عجیب مزہ ہوتا ہے، کہ ہر بندہ اس یقین کامل سے اسے لوٹنے کے لیے اسکے پیچھے بھاگتا ہے وہی اسے پکڑے گا ۔ مگر یہ پتنگ کسی ایک کے ہاتھ ہی آتی ہے اور جو خوش قسمت اسے پکڑ لیتا ہے، جیسے، اسکی ڈور کا سرا یا پھر گڈی، وہ آواز لگا دیتا ، ’’پھڑ لئی اے ،پھڑ لئی اے ھن سب پِچھا ں ہٹ جاو(کہ اب گُڈی پکڑ لی ہے سب پیچھے ہٹ جاو)‘‘ یہ لفظ سنتے ہی ناکام لٹیرے پیچھے ہٹ جاتےاور گُڈی لوٹنے والا فاتحانہ انداز میں اس گُڈی کو لہراتا ہوا اپنی راہ لیتا۔ بعض اوقات ایک گُڈی دو تین لٹیروں کے ہاتھوں میں بیک وقت آجاتی تو پھر اسکی ملکیت کا فیصلہ اسکی چیڑ پھاڑ پر ہی منتج ہوتا تھا۔ اور جیسے ہی یہ لوٹنے کا کھیل ختم ہوتا یعنی پتنگ کسی کے ہاتھ آجاتی یا پھٹ جاتی تو پھرہر کوئی اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ۔ ایسا بھی دیکھنے اور سننے کو ملا کہ بچے اندرون شہر کے کسی اسکول کے کُھلے میدان میں سالانہ امتحان دے رہے ہیں اور اس دوران کوئی پتنگ آجاتی تو بچوں کی اکثریت اساتذہ کی تنبیہہ اور سزا کی دھمکی کے باوجود ، اس پتنگ کو لوٹنے کے لیے پرچہ امتحان نیچے رکھ کر دوڑ پڑتی۔ اور اساتذہ کے ڈنڈے کھانے کے باوجود اس پتنگ کا پیچھا کیا جاتا تاآنکہ کسی ایک فاتح کے ہاتھ نہ آجاتی۔ کئی دفعہ تو اندرون شہر کے اساتذہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوجاتے یا پھر کسی بچے کے ہاتھ میں پتنگ آجانے کے باوجود اسے بحق سرکار ضبط کرلیتے کہ اسکول میں پتنگ بازی کرنا یا پکڑنا منع ہوتا ہے۔
پتنگ بازی کا چسکا تو یہاں تک رہا کہ جب میں نے کچھ تعلیم حاصل کرکے ایک پرائیویٹ اسکول میں  خود پڑھانا شروع کردیا اور والد صاحب نے بھی چھوٹے بھائیوں کے گڈی بازی کرنے پر چپ سادھ لی تو میں بھی کبھی کبھار کبھی کبھار چھت پر گڈی بازی کا چسکا لے ہی لیتا اور ایک بسنت میں جب میری گُڈی میرے ہمسائے میں موجود شاگرد نے کاٹ دی تو میں نے اسے بظاہر غصے سے اشارہ کرکے کہا کہ ’’بچو! زرا سکول آ پھر تمہیں مزا چکھاؤں گا کہ استاد کی گڈی کاٹنے کی جرأت کیسے جاتی ہے۔یہ سن کر وہ بیچارہ دو دن تک اسکول ہی نہ آیا کہ پتہ نہیں استاد محترم اسکے ساتھ کیا سلوک کریں؟ اور پھر جب تیسرے دن وہ ڈرتا ڈرتا اسکول آیا تو میں نے فوراً اسے دیکھ کر بلایا اور پوچھا کہ آخر اس میں ہمت کیسے ہوئی استاد کی گُڈی کاٹنے کی۔کیا اسے علم نہ تھا کہ یہ گڈی اسکے استاد کی ہے اور استاد کی گڈی کاٹنا مطلقاً حرام ہے۔ اگرچہ میں اس بچے سے معصومانہ مذاق کررہا تھا مگر اس کا ڈر ڈر کے برا حال تھا۔اور وہ کہنے لگا کہ سر آئندہ یہ حرکت سرزد نہ ہوگی۔
جی ! تو اندرون شہرمیں جہاں کھیل کے میدان ناپید ہوتے ہیں وہیں گلیاں بھی اتنی تنگ کہ کوئی کھیل نہیں کھیلا جاسکتا ۔ اگر کبھی کسی گلی میں ہمارے زمانے میں  کرکٹ وغیرہ ہوتی بھی تھی او ریقیناً اب بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ۔ توست ربٹی گیند کھیلنے کے دوران بار بار موری(اندرون شہر کی کھلی نالیاں) کا اشنان بھی کرتی تھی تو بچے توبچے ہیں انکے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس گیند کو نالی سے نکال کر پہلے اس کو صاف پانی سے دھو کر پاک کریں پھر کسی ھیٹر کے آگے سکھائیں، وہ بس اس گیند کو موری میں ہاتھ ڈال کر اٹھالیتے دو تین دفعہ زور زور سے دیوار سے مارتے کہ اضافی الائشوں اور گندے پانی سے پاک ہوجائے اور پھر کھیل چند ہی لمحوں میں دوبارہ شروع۔۔۔۔۔ہاں اس دوران اگر قریب سےگزرتے نمازیوں میں سے کسی نمازی کے کپڑے اس بھیگی گیند کی چھینٹوں سے خراب ہوجاتے تووہ فوراً باوضو ہونے کے باوجود پہلے ان ابھرتے ہوئے مستقبل کے قومی کھلاڑیوں کو کچھ بے ضرر قسم کی گالیاں نکالتے تاکہ وضو نہ ٹوٹنے پائے اور پھر دیگر ہمدردوں کے اکٹھے ہونے پر گیم ہی رکوا دیتے۔ مگر وہ بزرگ جنکے کپڑے نجس پانی سے خراب ہوچکے ہوتے وہ اس پر ہی بس نہ کرتے بلکہ سب کو پھر بے نمازی قرار دے کر نماز کی تلقین کرتے اور انہی کھلاڑیوں میں اگر کوئی اپنا بچہ بھانجا بھتیجا دیکھ لیتے توا سےکان سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے کر واپس گھر جاتے تاکہ کپڑے بدل کر اپنے بھانجے ،بھتیجے ، یا بیٹے کو بھی ساتھ ہی مسجد میں لے جاسکیں اور اس دوران جو کپڑے نجس ہونے کا غصہ ہوتا وہ اس پر اتار دیتے۔ اسی طرح گلی میں کھیلتے ہوئے اگر کسی کے گھر کا کوئی شیشہ ٹوٹ جاتا توپھر اس گلی میں دوبارہ کھیل شروع کرنا اتنا آسان کام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نیچے گلیوں میں کھیل نہ ہونے کی وجہ سے پھر اگر کوئی تفریح کی جگہ  بچتی ہے تو وہ اور کوئی نہیں  فقط چھت ہی بچتی ہے اور پھر چھت پر تو پتنگ بازی ہی ہوسکتی ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ چونکہ اندرون شہر جیسے علاقوں میں آبادی، افقی (Horizantal)نہیں بلکہ عمودی (vertical) طور بڑھتی ہے اس لیے اندرون شہر کے مکانات آپکو دیہات یا کھلی آبادیوں کی طرح بڑے بڑے صحنوں اور  ایک یا دومنزلوں میں نظر نہیں آئیں گے بلکہ چھوٹے چھوٹے رقبوں میں  کئی کئی منزلہ نظر آئیں گے۔ ان کثیر منزلہ مکانات کے ساتھ ساتھ کئی  قدیم حویلیاں  اب بھی اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ ان میں سے وہ حویلیاں جو بڑے بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں وہ اب تک اچھی حالت میں موجود ہیں جبکہ کئی حویلیاں جو خستہ حال ہوچکی ہیں یا اسکے مکین ان حویلیوں کی مرمت کی سکت نہیں رکھتے، وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہیں۔اور ان کو مکمل مسمار کرکے ان پرنئے سرے سے مکانات تعمیرہو رہے ہیں یا ہوچکے ہیں؟کچھ حویلیاں جو اپنے مکینوں  اور مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے ابھی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جیسے ’’نثار حویلی المعروف نوابوں کی حویلی، میاں صلاح الدین کی حویلی، تجمل حسین کی حویلی ، فقیر خانہ وغیرہ۔ غرض کتنے نام لوں کہ اندرون شہر بھرا پڑا ہےتاریخی عمارتوں سے کہ اگر ایسی حویلیاں ، مساجد، اور دیگر تاریخی عمارات کسی یورپی ملک میں ہوتیں وہ اس اندرون شہر کو بہت بڑا سیاحتی مرکز بنا دیتیں۔
اور جب کہ اندرون شہر کے باسیوں کی چھت جہاں گرمیوں میں شام کو گڈی اڑانے یا   رات کو چھت پر سونے سے لے کر کئی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے وہیں  سردیوں میں دن بھر گُڈی بازی،دھوپ سینکنے، بار بی کیو یا ناشتے کے ساتھ ساتھ عورتوں کاایک دوسرے کی جوئیں نکالنے اور پھر تیل لگا کر گنگی کرنے کے دوران دوسروں کی غیبت کرنے جیسا اہم فریضہ بھی چھت پرہی سرانجام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض ویہلے تے بے روزگار نوجوان، کبوتر بھی پالتے ہیں جنہیں وہ اڑا اڑا کر اپنا رانجھا راضی کرتےہیں۔
ہمارے بچپن میں یعنی 70 کی دھائی میں، صرف موچی دروازہ میں ہی کئی گڈیوں کی دکانیں ہوتی تھیں جن میں سے پاپا گڈی فروش اور ناصر گڈی فروش وغیرہ ابھی تک یاد ہیں ۔جہاں سے ہم عام گڈی جیسے’’پری‘‘، ’’کُپ‘‘، ’’پتنگ‘‘،’’گڈا‘‘، ’’شرلا‘‘ سے لکر ہر قسم کی ڈور خرید سکتے تھے اور بسنت کے موقع پر تو یہ کاروبار عروج پر ہوتا تھا۔۔ ان گڈیوں کو بنانے کے ماہر کاریگر بھی گلی گلی پائے جاتے تھے جو چھری نما تیز دھار آلات کی مدد سے بانس کو باریک چھیل کر ، اور غالباً سرسوں کے تیل میں بھگو کر تیلا تیار کرتے تاکہ اس میں لچک رہے۔ اور پھر اس پر بڑی مہارت سے گڈی کاغذ لگا کر گڈیاں تیار کرتے تھے۔ اور اگر پھر بھی کوئی گڈا کَنّی مارتا تھا تو ہم خود گڈے کو سبق سکھانے کے لیے اسے اپنے سر پر پھیر کر اسکا ’’کُب‘‘ یا دوسرے لفظوں میں ’’کچپ ‘‘ نکال کر اسکی دُم پر کسی کپڑے کو پھاڑ کر ایک لمبی پٹی باند دیتے تھے کہ وہ سیدھا اڑے۔ ظاہر ہے کہ ہم کوئی پیشہ ور یا ماہر پتنگ بازتو تھے نہیں بس ایک عام بچے تھے جس کی واحد تفریح بھی یہی چھت ہی تھی ۔
اس کے علاوہ موچی دروازہ کے باہر بدروں (بڑاگندا نالا) کے ساتھ ساتھ ، ڈور کو مانجھا لگانے والے کاریگر بھی ہوتے تھے جو درختوں کے تنوں کو زمیں میں گاڑ کر ان کے گرد دھاگہ لپیٹ کر اسے کانچ، سریش، چاول کی پِچھ اور رنگ ڈال کر مانجھا لگایا کرتےتھے۔ اس زمانے میں سرخ، کالی، میرون رنگ کی ڈور کو میں اچھی خیال کیا کرتا تھا جبکہ پیلے رنگ کی ڈور مجھے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔کیونکہ یہ جلد کٹ جایا کرتی تھی۔ اسی طرح سیدھے وٹوں والی ڈور کے بارے میں خیال تھا کہ یہ لمبے پیچ لڑانے کے لیے ہوتی ہے جبکہ الٹے وٹوں یعنی بَل والی ڈور تیز ہاتھ مارنے کے لیے ہوتی ہے۔یہ ڈور گوٹھ میں ناپی جاتی ہےاب ایک گوٹھ میں کتنے میڑ لمبائی ہوتی ہے مجھے علم نہیں ۔ مگر کبھی کبھار ’’گِٹھ‘‘ جو بازار میں ملتی تھی وہ ایک گوٹھ ہوتی تھی اور وہ ہمارے لیے کافی ہوتی تھی۔ ایک عام پِنّے میں عموماً جو سننے میں آیا کہ وہ پانچ سے سات گوٹھ ڈور ہوتی تھی۔ مگر ہوسکتا ہے میں غلط ہوں۔
اب گرمی ہویا سردی ہر بندے نے مغرب سے پہلے چھت پر لازمی چڑھنا ہے اور اگر گڈی نہیں اڑانی تو کم از کم اڑتی گڈیوں کا مشاہدہ تو لازمی کرنا ہے۔ مجھے ہمیشہ ،غروب ہوتے ہوئے سورج کے بکھیرتے ہوئے نارنجی رنگ کے دامن میں اڑتی ہوئیں رنگ برنگی پتنگیں بے حد اچھی لگتی تھیں ۔ بے شک میرے دامن میں  بعض اوقات  اڑانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا مگر پھر بھی میں دوسروں کے ہاتھوں  اڑتی ہوئے پتنگوں میں سے کسی ایک پتنگ کا انتخاب کرلیتا اورپھر اسے تخیلاتی انداز میں اڑانے لگتا۔ وہ جس طرف رخ کرتی میں بھی اپنے ہاتھوں کو اسی طرح دائیں ، بائیں، اوپر ، نیچے حرکت دیتاگویا وہ پتنگ کوئی اور نہیں  میں خود ہی اڑا رہا ہوں ۔ ایک دفعہ والد صاحب نے جب مجھے تخیلاتی پتنگ اڑاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو بجائے دو تین چپت رسید کرنے کے زیر لب مسکراتے ہوئے مجھے نیچے لے آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح اگر کبھی کوئی پتنگ ہماری چھت پر والد صاحب کی موجودگی میں قضا ء کار ا ہی ٓجاتی تو خصوصاً سردیوں میں تو وہ اس پتنگ کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو طالبان یا داعش اپنے مخالفین سے کرتے ہیں۔ اور وہ بیچاری پتنگ اپنے بازو ، ٹانگیں تڑواکر کسی کونے میں نشانِ عبرت بنی ہوتی۔مگر پتنگ بازی کا جنون مزید بڑھتا ہی چلا جاتا ۔ اور تو اور میں  ٹوٹی پھوٹی گڈی کو بھی مرمت کرنے کی ضرو ر کوشش کرتا کہ شائد یہ دوبارہ اڑنے کے قابل ہوسکے(پتنگ جوڑنے کے لیے ہم منہ میں روٹی کو نوالہ چبا کر انسٹنٹ ’’لئی ‘‘ تیار کرلیتے تھے)۔ مگر زیادہ تر یہ کوشش لاحاصل ہی رہتی کیونکہ اسکا گڈی کاغذ بے حد نازک ہوتا ہے کہ ہلکی سی خراش اسے تارتار اور ہلکا سا پانی بھی اسے فنا کرکے رکھ دیتا ہے۔
گرمیوں میں پتنگ بازی عموماً شام کو سورج غروب ہونے سے پہلے ہوتی تھی جبکہ سردیوں میں سارا دن جاری رہتی تھی اور اتوار کو عروج پر ہوتی تھی ۔جہاں عام و خاص کے علاوہ بڑے بڑے جغادری پتنگ باز بھی میدان میں اترتے تھے اور بڑے بڑے پیچ لڑایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آپ کسی بھی بچےکی انگلیاں چیک کریں تو آپ کو انکی انگلیوں  کی پوروں میں پھری ہوئی ڈورکے نشانات واضع نظر آتے تھے۔اگرچہ کچھ سیانے پتنگ بازاپنی اپنی پوروں پر چمڑےکے کوّر بھی چڑھا لیتے تھے مگرماہر پتنگ بازوں کے بقول جو مزہ ننگی پوروں سے پتنگ اڑانے کا آتا ہے اس لمس کا سرور، پوروں پر چمڑے کے کوّر چڑھانے سے نہیں ملتا ۔پھر جیسے ہی مغرب کی اذان ہوتی یہ پتنگ بازی بھی ختم ہوجاتی
تو جیسا کہ صراحت سے اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ اندرون شہر میں  پتنگ بازی کی بڑی وجہ کھیل کے میدانوں کا فقدان ہے کہ پھر آجاکے بچوں کو چھت ہی تفریح کے لیے میسر ہوتی ہے۔ مگر افسوس اس بے ضرر تفریح کو اتنے برے بلکہ بھونڈے طریقے سے کچل دیا گیا جیسےیہ پتنگ بازی نہ ہوئے کوئی دھشت گردی کی کوئی قسم ہوئی یا شراب و زنا کی طرح کا کوئی حرام فعل جسے چھپ کر ہی سرانجام دیا جاسکے ۔ اور انتہائی افسردگی بلکہ شرمندگی ہوتی ہے جب الیکڑانک یا پرنٹ میڈیا میں اس قسم کی خبریں آتی ہیں کہ پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن کئی پتنگیں برآمد یا بارہ سالہ پتنگ باز بچہ ، دوپتنگوں اورایک ڈور کے پِنّے سمیت گرفتار۔ یا یہ کہ ایک گھر میں چھاپہ ، درجنوں پِنّے اور پتنگیں برآمد۔ جیسے پتنگ باز نہ ہوئے کوئی القائدہ کے دھشت گر دہوئے، پِنّے نہ ہوئے کوئی دستی بم ہوئے اور پتنگیں نہ ہوئیں کوئی جاسوس ڈرون برآمد ہوئے ہوں۔ کاش اتنی چابکدستی ہماری پولیس اصل دھشت گردوں کو پکڑنے میں دکھائے تو ملک میں امن وامان مثالی نہ ہوجائے!
اب آجائیے پتنگ بازی کے جنون کے بعد بسنت کے تہوار کی طرف، جو سوائے ایک بہار کی آمد اور سردی کے جانے کا اعلان ہےجیسے بیساکھی، نوروز، ایسٹر وغیرہ۔ اسے ھندو، کافر، غیراسلامی قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔حالانکہ پتنگ بازی کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ بھی ہزاروں سال پہلے چینیوں کی ایجاد ہے۔ نہ کہ کسی گستاخ مزھب کی ۔مگر اس کوجو مقبولیت ھندوستان اور پاکستان میں ملی وہ اور کہیں نہیں اور پاکستان میں بھی  بسنت کا تہوار جسطرح لاہور اور پھر قصور میں پورے زور و شور سے منایا جاتا تھا اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔
ہمارے بچپن میں بسنت کا تہواررات کو فلڈ لائٹس میں شروع نہیں ہوتا تھا  بلکہ صرف دن کو فجر کی نماز کے بعد شروع ہوتا اور مغرب کے وقت ختم ہوجاتا۔ اس دن شاید ہی کوئی ایسا گھرہوتا جس کے مکین چھت پر نہ ہوتے سوائےچند ایک میرے جیسے بدقسمت جو والد صاحب کے باہر جانے کا شدّت سے انتظار کرتے اور جیسے ہی والد صاحب باہر نکلتے ہم جھٹ پٹ چھت پر۔ والد صاحب بھی شائد مقامی مولوی صاحب کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اسکے خلاف تھے۔ یہ الگ بات ہے ان مولوی صاحب کے بچے جو میرے کلاس فیلو بھی تھے وہ خود بھی جم کر پتنگ بازی کیا کرتے تھے۔بہرحال میرے زمانے میں کوئی کوئی ٹیپ ریکارڈکےذریعے چھت پر گانے چلاتا اور  کہیں کہیں توے والے ریکارڈ بھی اونچی آواز میں چل رہے ہوتےتھے۔مگرمخالف کی پتنگ کٹنے پر ’’بوکاٹا ‘‘ کی آوازیں، ساتھ ساتھ فلمی اسٹائل میں فتح مندانہ   بڑھکیں بسنت کے جوش وخروش کو سارا دن دو آتشہ کرتی رہتیں۔ اسی طرح بسنت والے دن شائد ہی کوئی گھر ہوگا جہاں خود بخود کوئی کٹی پتنگ نہ گرتی ہو۔ اس زمانے میں اگر آپ کسی دوسرے کی ڈور لوٹتے تھے تو وہ آپ پر غصے میں صلواتوں کے ساتھ ساتھ سنگ باری بھی کرتا ۔ مگر پھر رفتہ رفتہ ڈور لوٹنے کی روایات بچوں میں تو جاری رہی کیونکہ، بہرحال یہ بسنت کا مال غنیمت ہوتی تھی مگر بڑی عمر کے افراد ڈور لوٹنے والے فعل سے دور ہوتےچلے گئے وہ بجائے اپنی ڈور کھینچنے کے اپنے ہاتھ سے توڑ دیتے کہ اب یہ ڈور کسی کام کی نہیں رہی، کیونکہ اگر وہ اسے کھینچے گا تو چھتوں کے کناروں کی رگڑ سے اس ڈور کی گڈی کاٹنے کی صلاحیت کم ہوکر رہ جائے گی لہزا بہتر ہے کہ اس ڈور کو ھاتھ سے ہی توڑ دیا جائے۔ ورنہ ہمارے بچپن میں جیسے ہی گڈی کٹتی ، گُڈی کٹوانے والا بڑے زور سے زور سے ڈور کھینچتا۔ اور اگر کوئی ڈور کا لٹیرا اس ڈور کو پکڑ لیتا تو پہلے تو اسے وہ دھمکیا ں دیتا کہ ’’اوئے چھڈ اوئے‘‘ اور اگر ڈور لوٹنے والا نہ چھوڑتا تو تو پہلے اسکی اندرون شہر کی مخصوص گالیوں  سےتعریف و توصیف کرتا ، اگر پھر بھی ڈور لوٹنے والا باز نہ آتا تو دوچار پتھر اسکے گھر مار کر اپنا غصہ نکالتا۔ بعض متشدد قسم کے گُڈی باز ، ڈور لوٹنے والے سے اور طرح کا بدلا بھی لیتے۔ جیسے ہی انکی گُڈی کٹتی اور کوئی انکی ڈور لوٹناشروع کردیتا تو وہ اپنی طرف سے بھی ڈور کو ڈھیل دینا شروع کردیتے ۔ پھر جیسے ہی ڈور لوٹنے والے بےدھڑک ہو کر ڈور کو اور تیزی سے کھینچنا شروع کردیتا،تو جس کی ڈور لوٹی جارہی ہوتی تھی وہ ایک دم یا اچانک سے ڈور کو جھٹکا دیتا ڈور لوٹنے والے کی انگلیوں کی پوریں کٹ کر کر رہ جاتی اور وہ تکلیف سے کراہ کر ڈور چھوڑ دیتا اور گُڈی کٹوانے والا باقی ماندہ ڈور آرام سے کھینچ لیتا۔
اسی زمانے میں یعنی 70 کی دھائی میں لٹیروں کے لیے بھی عام دوکانوں پر کٹی پتنگوں  کو لوٹنے کے لیے، بانس کے اوپر کانٹے دار بیری کی سوکھی شاخیں لگا کر بھی بیچی چاتیں تھیں۔ جو اکثر چھتوں اور قدرے کھلے علاقوں میں بچوں جوانوں کے ہاتھوں میں نظر آتی تھیں۔ سڑکوں پر پھرنے والے وہ لٹیرے ہوتے تھے جو گلی بازاروں میں خوب پتنگیں لوٹتے اور بسنت کے بعد آنے والی اتوار میں وہی پتنگیں اڑا کر اپنا شوق پورا کرتے یا کچھ آدھی قیمت پر گُڈیاں بیچ کر دیہاڑی لگا لیتے۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا گڈی لوٹنے والے لٹیروں نے نئے طریقے ایجاد کرلیےجیسےدھاتی تار سے پتنگیں اڑانے یالوٹنے کا خطرناک دورجو 90 کی دھائی میں شروع ہوا۔اس سے پہلےزیادہ سے زیادہ ’’ تَندی‘‘ ہوتی تھی جو پلاسٹک کے کسی میڑیل سے بنی ہوتی تھی اور ٹوٹتی نہ تھی۔ اسے بھی گڈیوں کو چموڑنے کا کام لیا جاتا تھا۔جبکہ دھاتی تار جس کا رواج بعد میں ہوا وہ عموماً، استعمال شدہ موٹر سائکل کی استعمال شدہ کلچ کی تار سے تیار کی جاتی تھی کہ اس تار کے کے بل کھول کرپہلے علیحدہ علیحدہ کیا جاتا پھر اس تارکو عام طریقے سے ٹوٹوں میں جوڑ کر گڈی میں لگی ڈور کے اگلے حصے ’’تلاواں‘‘ کے بعد لگایا جاتا اور پیچےعام ڈور یا ’’تَندّی‘‘ لگا دی جاتی   اور جیسے ہی کوئی گڈی کٹتی ، دھاتی تار والی گُڈی میں آسانی سے چمٹ جاتی۔
ہمارے بچپن میں آج کی طرح چینلز کی بھرمار نہیں ہوتی تھی بلکہ زیادہ تر گھروں میں  ریڈیو اور کہیں کہیں گھروں میں ٹی وی ہوتے تھے۔جہاں خبریں کم اور وقت کے حکمرانوں کی مدح سرائی زیادہ ہوتی تھی۔ ٹی وی والے گھر کا چھت پر لگے ایریل سے ہی پتہ چلتا تھا ۔ جہاں  شومئی قسمت اگرکبھی کسی کے ایرئیل سے گڈی ’’اَڑ‘‘ جاتی تو وہ مشکل سے ہی چھوٹتی تھی مگر پتنگ باز بھی اس وقت تک کوشش جاری رکھتا جب تک پتنگ کو آزاد نہ کروا لے یا پھر پتنگ مکمل طور پر نہ پھٹ جائے یا ایرئیل والا، اس چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر اول فول بکتا ہوا چھت پر نہ آجائے جس کی انڈیا کی’’ دُور دَرشن‘‘ نشریات میں خلل پڑ رہا ہوتا تھا اور وہ ایرئیل سے ’’اَڑی‘‘ گڈی پھاڑ کراپنے ایرئیل کا رُ خ پھر انڈیا کی سمت کردیتے۔
تو ریڈیو، ٹی وی اتنے آزاد نہ ہوتے تھے نہ اتنے کیمرے نہ ڈرون کہ بسنت اور اس سے جڑے حادثات کا فوری پتہ چلتا ۔ ہاں مگر بسنت کے دوسرے دن جب اخبار چھپتا تو اسں میں بسنت کی بابت خبریں بھی ہوتی کہ بسنت کے دن کتنے لوگ پتنگ لوٹتے ہوئے چھتوں سے گر کر ھلاک ہوئے ، ان ہلاکتوں میں  زیادہ تر بچے شامل ہوتے تھے۔ دراصل شہر کی چھتیں جو عموماً ایک دوسرے سے متصل تو ہوتی ہیں مگر چھت پھر چھت ہے کوئی کھیل کا میدان نہیں۔اور جب بچے کسی کٹی ہوئی گُڈی کے پیچھے بھاگتےتو انکا پورادھیان  گُڈی کی طرف ہوتا نہ کہ نیچے طرف اور اسی محبت پتنگ اور اسے پکڑنے کی جستجو میں   انہیں  پتہ ہی نہ چلتا کہ کب اسکی چھت یا کوٹھا مزید دوڑنے کے لیے بچا ہی نہیں اور وہ کشش ثقل کے قانون کے تحت مزید آگے دوڑنے کی بجائے زمین پر آرہتا اور نتیجتاً ، اکثر کی ٹانگیں تو ٹوٹتی ہیں مگر کچھ بدقسمت اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اسی طرح کئی بچے گُڈی بلندی تک فضا میں لیجانے کےلیے پیچھے کو ہٹتے اور چھت سے نیچے گر جاتے۔ اور پھر جاں بحق ہونے والوں کی میت کے اردگرد بیٹھی ہوئی غم سے نڈھال خاندانوں کی خواتین کی تصاویر بھی دوسرے دن کےاخبارات میں  صفحہ اول پر لگی ہوتیں۔جنہیں پڑھ کر یقیناً افسوس ہوتا ۔ اور والد صاحب تو خیر ان خبروں کو پڑھ کر بسنت کو کئی کئی دن تک کوستے رہتے۔
تو بسنت جہاں اندرون شہر کا ایک بڑا تہوار لے کر آتی وہاں کئی معصوم اپنی جانوں سے اس وقت بھی جاتے۔ مگر جنوں ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ   ایک دن جبکہ والد صاحب اچھے موڈ میں تھے تو میں  نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ ’’ ابو آپ مجھے گُڈی کیوں نہیں اڑانے دیتے؟ آخر اس میں کیا خرابی ہے؟ تو انکا جواب تھا ’’بیٹا گُڈی اڑانا تو دور کی بات تم ان الفاظ پر ہی غور کرو کہ جو گُڈی اڑانے والے گالیوں کے علاوہ ادا کرتے ہیں۔ مثلاً ’’پھڑی گئی‘‘، ’’لُٹی گئی‘‘ ’’لٹ لئی اے‘‘۔ ’’پاٹ گئی اے‘‘ ، گُڈی باز‘‘ وغیرہ ! تو بیٹا جس کھیل کی CONVERSATION ہی گندے الفاظ اور گالیوں پر مشتعمل ہوں  وہ کھیل خود بھلا کیسے پوِترہوسکتا ہے؟‘‘ میں نے بے یقینی میں ہاں میں سر تو ہلایا مگر پھر پوچھا’’ اگر ہم گالیاں نہ نکالیں اور اچھے الفاظ استعمال کریں تو۔۔۔ ؟ صرف تمہارے اچھے الفاظ سے کیا فرق پڑے گا اور پھر تم دیکھتے نہیں کہ  کتنے لوگوں کی ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئیوں کی جانیں۔ میں تمہیں خود کو ھلاکت میں ڈالنے کی اجازت ہر گز نہیں  دوں گا۔
مگر پتہ نہیں کیا بات تھی اس پتنگ بازی میں، کہ جب بھی والد صاحب گھر نہ ہوتے میں انکے بار بار پندو نصائع کے باوجود  چھت پر ہی پایا جاتا اور بے شک خود پتنگ اڑا رہا ہوتا مگر اپنے اردگرد کی چھتوں سے اڑتی پتنگیں دیکھ کر انکے سحر میں مبتلا ضرور ہوجاتا۔
مگر پھر جب 80 کی دھائی کے شروع میں بسنت کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے اور بسنت پر ہوائی فائرنگ اور بسنت کی رات فلڈ لائٹس کا اضافہ ہو ا تو اس ہوائی فائرنگ میں بھی کئی معصوم لو گ مارے گئے۔ جس پر خوب واویلامچا۔کہ یہ کیساخونی تہوار بن گیا ہے، اور پھروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے بچپن کی بسنت لاھور اور قصور سے نکل کر سارے شہروں تک پھیل گئی۔ اب جوں جوں وقت گزرتا گیا بسنت کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ اب بسنت پر گلوکار خصوصی گانے بنانے لگے، لڑکیاں لڑکے مقابلے میں چھتوں پر ، ڈھول ڈھمکے ، بسنتی لباس ، غیر ملکی سیاحوں کی آمد، ھوٹل فل، چھتیں بُک، شور شرابہ، اونچی آواز میں گانے، انواع و اقسام کے کھانے، بار بی کیو، غرض مشرف دور تک بسنت تہوار گلیمر ہی گلیمر میں رچ بس گی۔
اب بسنت کے جو رنگ ڈھنگ بدلے تو ایسی ایسی ڈوریں مارکیٹ میں آگئیں جو ٹوٹنے کا نام ہی نہ لیتی۔ دھاتی تار سے ٹرانسفارمر اڑنے لگے ، فیڈر ٹرپ کرنے لگے۔فائرنگ بھی نہ رُ ک سکی۔ اور پھر میرے بچپن کا بسنت تہوار ، اس شور شرابے اور طوفان بدتمیزی میں پتہ نہیں کہاں کھو کر رہ گیا۔
اب موٹر سائکلوں پر بیٹھے بچوں بڑوں کے گلے نئی قسم کی ڈور سے کٹنے لگے، اور پھر یہ سلسلہ خوفناک حد تک ہلاکت انگیز ہوتا چلا گیا۔
بس پھر کیا تھا مزھبی حلقے تو بیٹھے ہی جیسے اس انتظار میں تھے۔ وہ دیگر شرعی حدوں سے تو اس تہوار کو بند نہ کروا سکے نہ انکوے فتوے کام آئے نہ پندو نصائح مگر ڈور سے گلے کٹنے والے واقعات اور میڈیا کے زور و شور نے اس ایشو کو مزید نازک بنا دیا۔ بس پھر کیا تھا بسنت کے خلاف رٹ ہوئی اور عدالت تو جیسے اسی انتظار میں تھی لہذا اس طوفان بدتمیزی والی بسنت پر فوراً پابندی لگ گئی ۔ اب اس پابندی کا کسی اور شہر میں اثر ہوایا نہیں مگریہ پابندی اندرون شہر کے باسیوں کے لیے بم بن کر گری۔ انہوں نے اس پابندی کو ھٹانے کےلیے بہت ہاتھ پاوں مارے مگر انکی ایک نہ سنی گئی ۔ اور اب بھی جیسے ہی اس تہوار پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، میڈیا کا ایک خاص گروہ گلے کٹنے والے خاندانوں کو سامنے لے آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس گڈی کی وجہ سے گلے کٹے۔ جو کہ بہت افسوسنا ک امر ہے اور اگر میرے بیٹے کا گلا کٹے تو میں ظاہر ہے کبھی اس سانحے کو دوبارہ نہ ہونے دوں گا۔ مگر کیا اسی گیم میں انسانی نقصان ہوتا ہے؟ فٹ بال میں مختلف گروہ آپ میں لڑتے تھے تو درجنوں جانیں جاتیں تھیں، مگر فٹبال پر پابندی لگانے کی بجائےفٹ بال کھیلینے والے ممالک کی حکومتوں نے، لڑنے والے مختلف گروہوں کو آھنی ہاتھ سے نمٹا اور اس مسئلے میں پھر zero tolerance دکھائی کہ ان فسادیوں کو سخت سزائیں دے کر پابندِ سلاسل ان فسادات پر قابو پا لیا گیا۔
رہی ممنوعہ ڈور کی بات تو جیسے ہم نے لاہور میں میٹرو کے لیے قانون بنائے ہیں یا کینٹ میں داخل ہوتے ہی سب قانوں کے پاسدار بن جاتے ہیں کیونکہ پتا ہے یہاں کسی نے نہیں سننی ، اسی طرح ہم جب کسی یورپ یا عرب ملک میں جاتےہیں تو کیا انکے تمام قوانین بلا چون و چراتسلیم نہیں کرتے؟
تو اگر پاکستان میں کسی ممنوعہ ڈور سے مسئلہ پیدا ہوا تھا تو اس کو ہم قانون کی طاقت سے باآسانی روک  سکتے تھے چہ جائکہ کہ پوری تفریح پر ہی پابندی لگا دی جائے۔
یاد رہے کہ اس تہوار سے جہاں لاکھوں خاندان کے چولہے ٹھنڈے ہوئے وہاں  اس اندرون شہر کی واحد تفریح کوبھی سختی سے کچل دیا گیا۔ حالانکہ اتنی سختی اگر دھشت گردوں سے برتی جاتی تو ملک میں بڑے بڑے سانحے رونما نہ ہوتے۔ جیسا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ سے پتہ چلتا کہ ہم دھشت گردی کو کچلنے میں جتنے سنجیدہ ہیں مگر جب معاملہ بسنت کا آتا ہے تولٹھ لے کر اسکے پیچے پڑ جاتے ہیں
توکیا بسنت ہونی چاہیے؟
جی ہونی چاہیے وہی بسنت ، میرے بچپن کی بسنت، اندرون شہر کی اصلی بسنت، کہ جہاں تنگ گلی کوچوں میں کھیلنے کے لئےکچھ نہیں  ۔ مگر چھتوں پر ایک پرلطف تفریح موجود ہے۔ اوراگر کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے اسے خونی کھیل بنا کر رکھ دیا تو اس پر اعدادو شمار کے ساتھ اگر حقیقی تحقیق کی جاتی یا کی جائے تو اسکا سدِّباب یا تدارک بھی تلاش کرلیا جاتا۔ مثلاً یہ کہ گلے کاٹنے کا حادثہ کہاں(location) , کیسے اور کیونکر پیش آیا؟ کونسا علاقہ ،کھلی سڑک پر ، تنگ گلی میں، چھت پر، موٹر سائکل پر، بائی سائکل پر ، پیدل جاتے ہوئے یا کہیں اور؟(ظاہر ہے کہ کار میں یہ تو یہ حادثہ ہونہیں سکتا)۔متاثرہ افراد عمر کے لحاظ سے، ھلاکتیں ، ذخمی ، مقدمات ، سزائیں۔کس قسم کی ڈور نقصان دہ ہے ، دھاتی تار سے کتنے علاقے بار بار ٹرپ کا شکار ہوئے؟ اس طرح اگر خاص ڈیٹا بیس اکٹھی کرکے اسکا نہ صرف ڈیجیٹل میپ بنا لیا جائے بلکہ اسکا علاقہ وار تجزیہ بھی ہوجائے جس کے لیے پولیس کے پاس بھی اب جیوگرافک انفارمیشن سسٹم موجود ہے تو کوئی بعید نہیں کہ بسنت میں ہونے والے حادثات کا کچہ چٹھہ کھل کر سامنے آجائے گا اور جو علاقے زیادہ خطرے کی زد میں نظر آئیں گے وہاں زیادہ توجہ دے اور ھیلتھ اینڈسیفٹی ایشوز سامنے رکھ کر بسنت میں ہونے والے حادثات کو کم سے کم کر سکتےہیں ۔ مگر مجال ہے کہ ہم نے اپنے دماغ کے قریب سے بھی کسی ایسی تحقیق کو گزرنے دیا ہو۔
بسنت پر عائد پابندی کے بعد بے شمار ٹاک شوز بھی ہوئے اور یہ عقدہ کھلا کہ زیادہ ترگلے کاٹنے کے حادثات چونکہ موٹر سائکل سواروں کے ساتھ ہوئے تو اندرون شہر کے باسیوں نے ڈور کی کاٹ سے بچنے کے لیےخصوصاً موٹر سائکل سواروں کو کئی قابل حل تجاویز بھی دیں  مثلاًاس حادثے سے بچنے کے لیے ایک لمبے ایرئل کو، اگر موٹر سائکل کے شاکس آبزرور کے سرے جہاں وہ ٹائر سےملا ہوتا ہے وہاں سے پچھلے شاکس ابزرور تک آرچ کی شکل دے کر جوڑ دیا جائے جائے تو موٹر سائکل سوار کا گلا، قاتل ڈور سے نہیں کٹے گا۔ اسی طرح کی کئی اور قابل حل تجاویز بھی تھیں
اوراگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو اندرون شہر سے متصل پارکوں  میں پہلے محدود پیمانے پر ہی سہی، ہر اتوار کو پتنگ بازی کی اجازت دی جائے اور پھر جب حکومت کااعتماد بحال ہوجائے تو علاقے بڑھا دیئے جائیں۔ بڑے بڑے پارک جیسے منٹو پارک(موجودہ گریٹر اقبال پارک) جہاں پہلے بھی  ماہر پیچ باز پتنگیں اڑایا کرتے تھے جن کے پیچ دور دور سے لوگ دیکھنے کے لئے آتے تھےاور ہر پتنگ کے کاٹنے پر وہ ایسے ہی داد وصول کرتے تھے جیسے کوئی شاعر کسی مشاعرے میں اچھی غزل یا نظم پر داد وصول کرتا ہے۔ ایسے پتنگ بازوں کو پھر سے دعوت دی جاسکتی ہے کہ عام لوگوں کو بتایا جائے کہ تہزیب کے دائرے میں پتنگ کیسے اڑانی ہے۔
اور کیا ایسا ممکن ہے پتنگ بازوں کی ایسی ایسوسی ایشن بنائی جائے کہ جو بھی پتنگ بازی کا کاروبار کرتا ہے وہ ہر اپنی کمائی کا ایک خاص حصہ ان متاثرین کے لیے رکھے کہ اگر کوئی کسی ڈور سے زخمی ہو یا خدا نخواستہ وہ جان سے چلا جائے تو اس ڈور کا فورینزک تجزیہ ہو تو ہو مگر پتنگ ایسوسی ایشن والے اس جاں بحق ہونے والوں کی نہ صرف دلجوئی کریں بلکہ اسے ہرجانہ بھی ادا کریں خوا ہ قصاص کی صورت میں ہی۔ اسی طرح ممنوعہ ڈور بیچنے والی کوئی بھی دوکان پکڑی جائے وہ دکان نہ صرف سیل ہو بلکہ اسکے مالک کو کڑی سے کڑی سزا بھی دی جائے۔
بظاہر یہ کام مشکل لگتے ہیں مگر ناممکن نہیں مگر چونکہ پولیس کے بارے یہ عمومی نظریہ دوام پکڑ چکا ہے کہ ہر نیا آنے والاقانون ، پولیس کےلیے کرپشن ، رشوت خوری کا ایک نیا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اور یہ نظر بھی آتا ہے کہ اگر ہمیں انسانی جانوں کی فکر ہوتی یا حکومتوں کی ترجیحات میں انسانی زندگی  شامل ہوتی تو مضر صحت کھانے، جعلی دوائیاں، اورملاوٹی دودھ برسرِ عام نہ بک رہے ہوتے ۔ کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ان ملاوٹی ا شیاء سے ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ کتنی جانیں جارہی ہیں، کتنوں کے جگر خراب ہورہے ہیں، کتنوں کے گردے ختم ہورہے ہیں او ر تو اور ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کو صاف پانی تک پینے کے لیے نہیں مل رہا ؟ اور کس طرح غریب لوگ بغیر علاج کے سسک سسک کربلکہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں؟
تو بھائیو! پتنگ بازی تو اتنا بڑا قتل عام نہیں کررہی ؟
تو اگر اب ، بظااہر موجودہ حکومت، جعلی یا ملاوٹی اشیاء کے بارے میں بظاہرسنجیدہ ہونا شروع ہوگئی ہے تو پتنگ بازی پر پابندی لگانے کی بجائے ، اس تفریح کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں پر ھاتھ کیوں نہیں ڈالتی؟ بجائے اس کے کہ اندرون شہر کی خصوصاً اور باقی علاقوں کی عموماً ایک واحد سستی تفریح کا گلا ہی گھونٹ دیا جائے؟ اس سلسلہ میں مقامی کونسلر اور مقامی تھانے بھی تو اہم کردار اداکر سکتے ہیں اگر حکومت چاہے تو!
آخر میں میری پھر التجاء ہے کہ اتنے سال پابندی کے باوجود ، میرے دل سے پتنگ بازی کےبچپن کےدن یاد کرکے اک ہوک سی اٹھتی ہے، ناسٹلجیا بار بار کچوکے مارتا ہے کہ کاش میرے بچپن کی بسنت پھر واپس آجائے جو اب ہمارے جنیٹکس میں بس چکی ہے۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں خود کش بمباروں کے بم دھماکوں، مزھبی جنونیوں  کے قتل عام کے علاوہ اور تفریح رہ بھی کہاں گئی ہے۔ نہ کرکٹ ، نہ فٹ بال ، نہ ھاکی۔۔۔۔۔۔ جب تک ہم صحت مند تفریحات اور کھیلوں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے توملک میں خود کش بمبار ہی پیدا ہونگے ، کھلاڑی نہیں ۔ اور نہ ہی قوم میں زندہ دلی آئے گی ۔ لہزا بسنت ہونے دیں اور اس کے ساتھ وی سلوک نہ کریں  جو ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے ساتھ کررہا ہے ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply