کیا میں ایک اچھا بھائی ہوں ؟

دو دن دِن قبل ایک خاتون کا برقی خط موصول ہوا ۔ خط نہیں مانو ٹھنڈا پانی تھا ، جسے پھینک کر مجھے جگایا جارہا تھا ۔ اور کہا جارہا تھا ہر ،بھائی، کو جگاؤ ۔ محترمہ کہنے لگیں آپ میری باتوں کو اپنے الفاظ میں بیان کیجئے ۔ تو سنیے ۔۔ میرے تین بھائی ہیں اور ماشاء اللہ سب سیٹ ہیں ، سب کا ذاتی مکان ، جائیداد سب کچھ ہے ، ابا کی دی ہوئی 35 کنال جگہ بھی ہے ۔۔ میری جب شادی ہوئی تو مجھے بہترین طریقے سے رخصت کیا گیا ، میری شادی پر لاکھوں روپے خرچ کیے گئے ، اور جہیز میں بھی بہترین بیڈ ، برتن ، کپڑوں کے علاوہ الماری اور صوفے بھی دیئے گئے ۔
اور یہ سب کرکے میرے بھائیوں نے اپنا فرض پورا کردیا اور اس فرض کی ادائیگی کے بعد اُنھوں نے کبھی مُڑ کر بھی نہ پوچھا کہ تم کیسی ہو ؟کس حال میں ہو، تمھاری معاشی حالت کیسی ہے ؟
گھر آتے جاتے رہے ، ہمارے مسائل سے آگاہ رہے ، یہ جانتے رہے کہ ہمارا ذاتی مکان نہیں اور ہمارے پاس زمین کے بھی پیسے نہیں ، ہاں بس پوچھتے رہے ، کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتانا ، جبکہ انھیں میرا حق مجھے بغیر مانگے ہی دینا چاہیے ۔
اگر میں مانگوں گی تو ملنا پھر بھی نہیں الٹا میرے سسرال والوں پر مجھے بھڑکانے کے الزامات لگا کر میرا گھر برباد کردیا جائے گا ۔ جائیداد میں جو حق مجھ سمیت ہر عورت کو اللہ نے دیا ہے وہ ہمیں بغیر مانگے ملنا چاہیے ۔ آپ روشنی ڈالیں اس مسئلے پر ۔اس خط نے میرے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے ، لیکن جب اپنے گھر کی طرف نظر دوڑائی تو ایک اطمینان ضرور حاصل ہوا ، میری والدہ اور والد بیٹی کو جائیداد میں حصہ دینے کے پوری طرح قائل ہیں ۔ اور انشاء اللہ دیں گے بھی ،،،،، ہم دلا کررہیں گے ۔
بچیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کے حوالے سے میرے ذہن میں چند باتیں ہیں ، بیان کیے دیتا ہوں ۔ بچپن میں جمعہ کے خطبہ میں ایک بات سنی تھی ، واعظ نے اسے حدیث کہا تھا ( اہلِ علم رہنمائی فرمائیں ) ، فرمایا بعض لوگ مرنے سے قبل تک جنتی ہوں گے لیکن مرنے سے فوراً پہلے وہ ایسا کام کریں گے جو انھیں جہنم میں دھکیل دے گا ۔ پوچھا وہ کیا ، تو کہا گیا وہ بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیں گے ۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ، ایک رویہ دیکھا ہے شادی سے پہلے بیٹیوں کے تمام ناز نخرے پورے کیے جاتے ہیں ، اگرچہ شادی کے بعد اس کی ذمہ داری شوہر پر چلی جاتی ہے مگر والدین اور بھائیوں کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی ۔ نہ ہی بیٹی کو ، بہن کو شادی کے بعد جائیداد کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے ۔
ہمارے ہاں بہن بیٹی کو شادی کے بعد کیسے پوچھا جاتا ہے ، اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں ، ایک واقعہ سناتا ہوں اُمید ہے آپ سمجھ جائیں گے ۔مارے ایک پڑوسی کا مکان جل کر خاکستر ہوگیا ، پوچھا کسی نے امداد کی تو کہنےلگا بیرون مقیم رشتہ دار کال پہ کال کرکے کہتے ہیں ہماری کوئی خدمت درکار ہوئی تو بتانا ، میں نے کہا خدمت کیا سب آپ کے سامنے ہے ، مالی مدد کریں ، مکان دوبارہ بناؤں ، یہ سن کر یا تو فون کاٹ دیتے ہیں ، یا کہتے ہیں آواز نہیں آرہی یا بعد میں کال کرنے کا بہانہ بنا کر کال کاٹ دیتے ہیں ۔والدین بیٹی کی شادی کی رات نوافل پڑھ کر شکر ادا کرتے ہیں کہ آج ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ، نہیں ۔ ابھی فرض ادا نہیں ہوا ، ابھی تو بیٹی کو جائیداد میں حصہ دینا باقی ہے ، جہیز کو متبادل نہیں کہا جاسکتا ۔
اگر والدین پڑھے لکھے نہیں یا شعور نہیں رکھتے ، تو ان کی رہنمائی کرنا اولاد کا کام ہے ۔ اگر ایک بھائی لیپ ٹاپ کے لیے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا ہے ، ماں پہ چیخ سکتا ہے تو بہن کو جائیداد میں حق دلانے کےلیے والدین کے پاؤں بھی پڑ سکتا ہے ، ضرورت پڑھے پر غصہ بھی کرسکتا ہے ۔ انسان کی زندگی کی کچھ خبر نہیں ، اور دفن ہونے کو صرف 2 گز زمیں بھی کافی ہے ۔ لیکن اگر بہنوں کو ان کا حق دیا جائے تو یہ معاشرہ مثالی بن سکتا ہے ۔
ایک مثال دوں ، ہمارے ہاں ایک صاحب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ، سولہ لاکھ کی گاڑی میں گھومتے ہیں، باقی سادگی کا عالم کیا ہوگا؟ ، لیکن ان کی بہن ایک سکول میں جھاڑو پوچا کرکے چار پانچ ہزار کماکر بچوں کا پیٹ پالتی ہے ۔ میں جب بھی یہ بات سوچتا ہوں وللہ میرا خون کھول اُٹھتا ہے ، اتنی بے حسی کیوں؟ کہیں یہ دولت یہ گاڑی ان صاحب کو اُس پل سے نیچے نہ گرا دے جسے “پلِ صراط ” کہتے ہیں ۔یاد رکھیں ۔ اگر ہم اپنی بہنوں کو جائیداد میں ان کا حق نہیں دیں گے ، انھیں پوچھیں گے نہیں ، ان کی عزت افزائی نہیں کریں گے تو کل ہماری بیٹیوں کو بھی کوئی نہیں پوچھے گا ، اللہ کی ناراضگی الگ سے ۔یار دوستوں کو بات بات پہ پیزے کھلائے جاسکتے ہیں ، بہن کے گھر پھلوں کی ٹوکری نہیں بھیجی جاسکتی ۔
کسی بھی مسلم معاشرے میں علماء کو عوام پر وہ فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر علماء اس چیز کا آغاز اپنے گھروں سے کریں تو دیکھیں تبدیلی کیسے آتی ہے ۔ تبدیلی منبر سے صرف تقریر کرنےسے نہیں عمل کرکے دکھانے سے آتی ہے ۔ قربان جائیے مولانا قاسم نانوتویؒ جنہوں نے بیواؤں کے دوسرے نکاح کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ایک طرف تحریک چلائی اور دوسری طرف اپنی ستر سالہ بیوہ بہن کا نکاحِ ثانی کرکے علماء اور عوام کو ایک قابلِ تقلید مثال فراہم کردی ۔یاد رکھیے عورتوں کو خوشحالی اور حقوق این جی اوز نہیں اسلام کے بتائے ہوئے راستے میں ہی ملیں گے ، تو کیا ہم اپنی بہنوں کو یہ حقوق دلانے کے لیے تیار ہیں ؟

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply