یوسفی صاحب اور انشا جی۔۔۔۔۔شکور پٹھان

اپنے شہر کے مشا ہیر اور واقعات جو میں اپنے احباب کے ساتھ یاد کر رہا ہوں اس سے شاید یہ تاثر ابھر رہا ہو کہ میں اپنے شہر کے بارے میں کسی تفاخر میں مبتلا ہوں. میں جب انکا ذکر کرتا ہوں تو یقینًا یہ کراچی کے حوالےسے بات ہوتی ہے لیکن یہ ہمارے ملک کے لئے بھی فخر کا نشان ہیں. یہی وجہ ہے کہ میرے وہ دوست جنکا تعلق کراچی سے نہیں بھی ہے وہ بھی اس سلسلے کو پسند کر رہے ہیں اور اپنے محبت بھرے تبصروں سے نوازتے ہیں.

دراصل ہر شہر کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں جن پر وہاں کے باسی بجا طور پر فخر کرتےہیں. ہمارے لاہور، ملتان،پشاور،کوئٹہ ،فیصل آباد اور حیدرآباد وغیرہ اپنی اپنی جگہ عظیم ہیں. اب لاہور کو ہی لے لیں. کیسی کیسی نادر روزگار ہستیاں اس شہر زندہ دلاں سے وابستہ رہی ہیں. یہ شہر حکیم الامت کی جائے رہائش رہا. میر و غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر فیض، عالم بے بدل سید مودودی، باکمال کھلاڑی عمران خان، سرور جہا ں نور جہاں،داستان گو اشفاق احمد اور ان گنت شاعر،ادیب، مصور،فنکار، کھلاڑی، سیاستدان اور نہ جانے کیسے کیسے نابغہ یہاں سکونت پذیر رہے.
میں جب اپنے شہر کی بات کرتاہوں تو یہ احساس تفاخر اس لئے ہے کہ ان لوگوں نے میرے شہر کو شرف سکونت بخشا.
پھر ان ناموں کے قدوقامت کو تو دیکھیے . بھلا کیوں نہ ہم بھی سر اونچا کر کے کہیں کہ

“ہم سا ہو تو سامنے آئے”

آج جن ہستیوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں مجھ حقیرسے قاری کا نہ تو مقام ومرتبہ ہے نہ میرا کوئی علم ہے کہ میں ان کے بارے میں کچھ کہہ سکوں.لہٰذا میں اسے اپنے احباب کے حوالے کرتاہوں کہ وہ حسب معمول اسے اپنے خوبصورت اور علم آفریں تبصروں سے سجائیں.

میرے نزدیک طنزومزاح ادب کی مشکل ترین صنف ہے. ایک ادیب، افسانہ یا ناول نگار اور شاعر براہ راست وہ کچھ کہہ دیتا ہے جو وہ کہنا چاہتا ہے. لیکن طنز نگار بات سیدھی طرح نہیں کر سکتا. اسے ایک تکلیف دہ بات اس طرح کہنی ہوتی ہے کہ بات بھی کہہ جائے اور قاری بے مزہ بھی نہ ہو.
جہاں طنز زندگی اور ماحول سے بر ہمی کا اظہار ہے وہیں مزاح زندگی اور ماحول سے مطابقت کا اظہار ہے.اور دونوں ہی جان جوکھوں کا کام ہیں. طنز نگار زخم کے آس پاس دوا لگا کر اسے سن کر دیتا ہے پھر نشترآزمائی کرتا ہے. جبکہ مزاح نگار صرف زخم کو سہلاتا رہتا ہے کہ درد کی شدت کم ہو جائے.

دور یوسفی

مشتاق احمد یوسفی طنز،مزاح اور ظرافت کو اس طرح یکجا کردیتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کب اسکے مرض کی تشخیص ہوئی، کب علاج ہوا،اسے تو صرف صحتیاب ہونے کا سکون یاد رہتا ہے.

کہا جاتا ہے کہ ہم اردو مزاح کے دور یوسفی میں جی رہے ہیں. آپ مجھے بتائیں کہ کیا غلط کہا جاتا ہے.
عظیم بیگ چغتائی، فرحت الله بیگ،رتن ناتھ سرشار،رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، شفیق الرحمن، شوکت تھانوی، کنہیالال کپور، کرنل محمد خاں وغیرہم پر نظر دوڑالیں اور یوسفی صاحب کو دیکھ لیں.
ساٹھ کے ابتدائی سالوں سے لیکر تا دم تحریر انکی مقبوليت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی.
یقین نہ آئے تو آج کل ہی میں انکی نئی کتاب کی تقریب رونمائی دیکھ لیجئے گا.

چاند نگر کا شاعر

انشا جی کے بارے میں فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ  وہ شاعر بڑے ہیں یا ادیب.

مجھے یاد نہیں آرہا کہ کس نے کہا تھا (شاید یوسفی صاحب نے)کہ”سانپ کا کاٹا روتا،بچھو کا کاٹا سوتاہے اور انشا کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے.

انشاء جی کے جملے یوں محسوس ہوتاہے کہ بغیر کسی سعی کے،بس بنے بنائے،ڈھلے ڈھلائے ان پر وارد ہوتے تھے. اتنی آسانی سے اپنی بات کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والا مدتوں اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو پاتا.

چکور کی طرح چاند کا دیوانہ یہ شاعر اپنی نظموں، غزلوں اور گیتوں کو ہندی تراکیب سے اس پیار سے سجاتا ہے کہ دکھ، شانتی، مدھرتا،سنگیت، خوشبو سب اپ کے اندر اترتے چلے جاتےہیں.
مجھ جیسے جو شعر کو سمجھ بھی نہیں پاتے بس ایک سکون اور ٹھنڈک میں کھو ئے رہتے ہیں.
اللہ یوسفی صاحب کو صحت اور تندرستی کے ساتھ ہمارے درمیان تا دیر قائم رکھے اور انشاء جی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.

اگر آج انشاء جی حیات ہوتے تو یوسفی صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں دونوں چاند اکھٹے ہوتے.

Advertisements
julia rana solicitors

یہ  مضمون کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا تھا!

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply