• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یتیم و یسیر نبیِ رحمت ص کا ایک یتیم و یسیر اُمتی/محمد وقاص رشید

یتیم و یسیر نبیِ رحمت ص کا ایک یتیم و یسیر اُمتی/محمد وقاص رشید

اس جہان میں ایک بچہ پیدا ہوا تو والد پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ محض چھ  برس کی عمر میں ایک سفر کے دوران کچھ دیر قبل ہاتھ تھامے ساتھ چلتی والدہ محترمہ ہاتھ اور ساتھ دونوں چھوڑ کر مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئیں۔ بچہ اکیلا رہ گیا۔ باپ کو دیکھا ہی نہیں ماں کی آغوش اتنی نو عمری ہی میں یادوں کا مزار ہوئی۔ بچے کا دل روتا تو ہو گا۔ کسمساتا تو ہو گا۔
اس محرومی میں دھڑکتا یہ دل عطا کا اک ابدی شاہکار ہوا۔ ایک دن آیا جب اس دل کو خدا نے ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا دیا۔ وما ارسلنک الا رحمت للعالمین کی سند عطا ہوئی۔ کیا شان ہے خدا کے آخری رسول ﷺ  کی۔ دو جہانوں کے لیے رحمت۔۔

پھر چودہ صدیاں بیت گئیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے سوچا کہ ان نبیِ رحمت ﷺ  کی پیروی کے لیے ہمیں ایک الگ ریاست قائم کرنی چاہیے جہاں کے باسی دو جہاں کے لیے رحمت بنائے گئے پیغمبر ﷺ  کی سیرت پر عمل پیرا ہو سکیں اور وہ دیس ایک رحمتستان ہو وہ پاکستان ہو۔ پھر پاکستان بہرحال بن گیا۔

اسے بنے  75  سال بیت گئے۔ ایک بچہ اس سر زمین پہ پیدا ہوا۔ چھوٹی سی عمر میں ماں باپ فوت ہو گئے۔ بچے کو اسکے چچا نے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا۔ مدرسے کا نام جانتے ہیں ؟ جامعۃ الحبیب ﷺ  اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں نبیِ رحمت ﷺ  کے نام کی درسگاہ۔ اس یتیم و یسیر کے لیے اس یتیم و یسیر کی رحمت ہی واحد پناہ گاہ تھی۔ ماں کی آغوش ، باپ کا مشفق سایہ۔

مگر۔۔ ۔آئیں اپنے اپنے پراگندہ گریبانوں میں منہ چھپا کر روئیں۔ اتنے آنسو بہائیں کہ ہمارے سیاہ کرداروں کی کالک کچھ تو دُھل جائے۔

تصویر دیکھی تو آنکھیں پتھرا گئیں۔ جس ہاتھ میں موبائل تھاما تھا ،کانپنے لگا۔ یوں لگا موبائل کی سکرین کرچی کرچی ہو کر آنکھوں میں پیوست ہو گئی ہے۔ ایک دم روح کانپ اٹھی۔ خدا کی قسم شرم ، اذیت ، قہر ، افسوس نہ جانے کیا کیا کیفیات یکجا ہو کر سوچوں پر کوڑے برسانے لگیں۔ او خدایا یہ میں نے کیا دیکھ لیا۔

یہ یتیم و یسیر اس جامعۃ الحبیب مدرسے میں 29  اپریل کی ساری رات یوں حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کا سیدھا لیٹنا محال تھا۔ دینِ رحمت کے نام نہاد لبادے میں انسانیت کے چہرے پہ کلنک کے ٹیکے اس بے شرم جنسی بھیڑیے ، اس مدرسے کے قاری حزیفہ نے ایک دوسرے طالبعلم اور مکروہ ترین کردار کے حامل عمران کے ساتھ مل کر اس بچے سے اتنی بربریت کا مظاہرہ کیا کہ اس کی حالت غیر ہو گئی۔

اگلے دن صبح گیارہ بجے یہ دونوں درندے اسے اسکے گھر چھوڑ گئے۔ وہاں سے اسکے چچا نے محلے والوں کو بتایا جن کی  مدد سے بچے کو 1122 کے ذریعے ہسپتال پہنچایا گیا۔
سوشل میڈیا پر چلتے ہوئے زمین و انسانیت دونوں پر غلاظت کے اس بوجھ قاری کا بیان سنا تو خون کھول اٹھا۔ گھٹیا اور رذیل کردار یہ کہہ رہا تھا کہ مدرسہ تو عید کے بعد کھلنے میں ابھی دو دن تھے۔ یہ ساتھی پہلے ہی آ گئے۔ میں نے تو انہیں عید پر تین جوڑے اور دو جوتے لے کر دیے تھے۔

اچھا اندازہ لگائیں بد صفت جنسی بھیڑیا کہتا ہے مجھے اسکی چچی نے بتایا کہ انہیں پہلے بھی اس قسم کی کوئی بیماری تھی جس میں انکے پیچھے سے کوئی چیز باہر نکل آتی تھی۔ اور جب یہ گھر سے آئے تو انکی طبیعت خراب تھی “واللہ عالم ” راستے میں انکا کسی نے جنسی شکار کیا ہو۔

میں ادھر ہوتا تو اس بد خصلت جنسی درندے سے پوچھتا کہ اگر پہلے سے اسے اس طرح کا مرض لاحق تھا تو یہ چل کر مدرسے کیسے گیا اور اس حالت میں واپس کیسے آیا کہ شلوار خون سے تر ہے اور وہ چلنے بیٹھنے اور لیٹنے سے قاصر ہے ؟ دوسرا اگر اسے اس طرح کا مرض لاحق پہلے سے ہے تو   یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ اسکا جنسی شکار راستے میں کسی نے کیا۔؟

بندہ اس غلاظت و خباثت کے ڈھیر کو اس انٹرویو کے دوران ہمارے ساتھی ، ان کا صیغہ ، واللہ عالم ، کپڑے جوتے ، بیماری پہلے سے تھی ۔ میں نے تو دو ہزار علاج کے لیے دیے۔ جیسی مکاری اور ریاکاری سے لتھڑے بیانات دیتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ یہ اس جنسی پراگندگی کا مجرم ہے۔ کوئی مدرسے کا استاد بچوں کو ہمارے ساتھی اور ان وغیرہ کے صیغے سے مخاطب نہیں کرتا۔

معصوم و مظلوم نے یہ کہا کہ میرے ساتھ قاری صاحب نے بد تمیزی کی ہے۔ جب سوال ہوا کہ کیا پہلی بار ایسا ہوا تو معصوم کا جواب تھا پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ بتایا کیوں نہیں کیونکہ کہتے تھے کسی کو بتایا تو ماروں گا۔

آئیے یہیں اسی جملے کے ساتھ سب زندہ درگور ہو جائیں۔ خدا کی پناہ جسمانی تشدد کے خوف میں یہ معصوم بچے جنسی تشدد سہتے ہیں۔ آپ یقین کیجیے یہ سلسلہ چلتا ہی رہنا تھا اگر بچے کے ساتھ طبی مسئلہ نہ بنتا اور یہی سب سے تلخ اور کرخت حقیقت ہے۔

ایک وہ یتیم و یسیر کہ جب اللہ کے آخری رسول ص بنے تو ایک روتے ہوئے یتیم بچے سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا میرا باپ نہیں ہے۔ نبیِ رحمت نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کے کہا میں تیرا باپ۔ ایسے رحمت للعالمین کے نامِ مبارک پر بننے والے مدرسے “رحمتِ حبیبِ” میں ایک یتیم و یسیر پر جسمانی تشدد کے خوف کی دھونس میں جنسی بربریت کے مظاہرے سے بڑھ کر ننگِ انسانیت اور کیا ہو گی۔

کہاں گئے توہینِ مذہب والے ؟ مسجد و مدرسہ کی کیا یہ توہین نہیں ہے ؟ کیا یہ درحقیقت توہینِ رسالت و رحمت نہیں ہے۔ ؟ تین دن انتظار کیا مگر عبث۔ غضب  خدا کا کہ الُٹا اس متعلق بھی ایسی تحریریں دیکھیں کہ جن میں بچے کو بواسیر وغیرہ کا مریض ثابت کر کے معصوم یتیم و یسیر کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو اسلام کے خلاف سازشی ذہن قرار دیا گیا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ ان جیسوں کے ہوتے ہوئے اسلام کو کسی اور سازش کی ضرورت نہیں جو آئے روز مدارس میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعات کو مذہبی تقدیس میں ڈھانپتے ہیں۔ ایک یتیم و یسیر کو خدا نے نبیِ رحمت بنا دیا تم اس نبیِ رحمت ص کے نام کے مدارس میں انکی امت کے یتیم و یسیر پر بربریت کی انتہا کے قبیح جرم کی پردہ پوشی کرتے ہو ۔ تم سے بڑا مزہب بیزار اور دینِ عدل و انصاف کے خلاف سازش کرنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔ بے شرمو بجائے اسطرح کے سکولوں وغیرہ کو اپنی ڈھال بنانے کے انکے لیے مثال کیوں نہیں بنتے ؟

چشمِ تصور سے وہ منظر دیکھتا ہوں جہاں اس وقت وہ یتیم و یسیر نبیِ رحمت اپنی والدہ کے ساتھ موجود ہیں۔ جہاں شاید اس یتیم و یسیر بچے کی ماں کی روح فریاد کرتی ہو کہ اے رحمت للعالمین وہ میرا بچہ ہے جس پر وہاں ظلم ہوا۔ میرا دل پھٹتا ہے اے نبیِ رحمت ص۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے عادل و منصف خدا !وہاں کی عدالتیں تو ایسے سفاک درندوں کو چھوڑ دیتی ہیں پر تو اپنی عدالت لگا جہاں اپنے دین کی آڑ میں ان معصوموں کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا.
————————————————————

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply