ادائیگیوں کا وقت ہے۔ ۔ اظہر سید

افغانستان کو پانچواں صوبہ اور تزویراتی گہرائی بنانے والوں کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ سب کچھ سود سمیت واپس کرنے کا وقت چھک چھک کرتی ٹرین کی طرح تیزی سے قریب آرہا ہے ۔مفکر جنرلوں نے مقاصد کے حصول کیلئے دینی مدارس کی جو پینری اگائی تھی اس نے افغان اور پاکستانی طالب آن کو مزہب کی ایسی لڑی میں پرویا ہے مستقبل قریب میں انکے سامنے سر جھکایا جائے گا یا پھر دونوں گرو دشمن جاں بن کر گلی گلی چیلنج کریں گے ۔

جو آگ افغانستان میں لگی اس کے شعلے امریکی افواج نے پاکستان پہنچنے سے روکے ہوئے تھے ۔ بگرام ائر بیس سے امریکیوں نے جاتے ہوئے ہر وہ چیز تباہ کر دی ہے جو واپس نہیں لیجائی جا سکتی تھی ۔امریکی زیادہ سیانے ہیں ۔ انہوں نے افغان حکومت کو بچ جانے والا “مال” اس لئے نہیں دیا کہ کہ اچھے اور برے گروہوں کے ہاتھ لگ جائے گا ۔ جو لگنا ہی ہے ۔

افغانستان کا پانچواں صوبہ اب گلے پڑنے والا ہے ۔ سعودی تو “مدارس” پالیسی سے رجوع کر گئے ہیں ۔امریکی واپس چلے گئے ہیں ۔چینیوں کو ناراض کر لیا ہے ۔اب گلے کا ڈھول بجانے کا وقت ہے ۔معیشت برباد ہو چکی ہے اور عوام میں ادارے کی ساکھ کا حب الوطنی کے پہاڑوں نے کباڑہ کر دیا ہے ۔جو سوغات خارجہ اور داخلہ پالیسوں پر ملکیت برقرار رکھنے کیلئے مسلط کی تھی اس کا بوجھ ہر روز عوام کو بیباک کر رہا ہے ۔

افغان طالب آن کی مدد نہیں کریں گے تو پاکستانی طالب آن کے ساتھ مل کر جان کو آجائیں گے ۔ مدد کریں گے تو امریکی گن گن کر بدلے لیں گے ۔ عقلمندوں نے جس طرح منظم ادارے کو مشکلات میں ڈال دیا ہے سب کچھ سچ مچ کے عوامی نمائندوں کو سونپ کر ہمیشہ کیلئے بیرکس میں جانے سے ہی مسائل اور مشکلات سے جان چھٹنے کے امکانات ہیں ۔ ابھی چند جھلکیاں ہیں ۔

گزشتہ روز امریکیوں نے بچوں کو عسکریت پسندی سے نہ روکنے والے ممالک کی فہرست میں ڈالا ہے ۔ اس سے پہلے یورپین یونین نے انتہا پسندی کے تدارک میں ناکامی کے تناظر میں متعدد برآمدی سہولتیں واپس لی تھیں ۔ بعد میں برطانیہ والوں نے منی لانڈرنگ کے حوالہ سے بعض پابندیاں لگائی تھیں ۔ گزشتہ ہفتہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کی خوشخبری سنائی تھی ۔

معیشت ہی سب کچھ ہے اور معیشت کے طوطے کی جان عالمی مالیاتی اداروں میں ہیں اور ان طوطوں کو چوری مغربی ممالک اور امریکی کھلاتے ہیں ۔راستے دو ہی بچے ہیں یا تو امریکیوں کی تمام تر شرائط تسلیم کرتے جائیں اور ایٹمی ریاست کو حتمی نتیجے کے طور پر ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے پر رضامند ہو جائیں یا پھر سیاسی مقاصد کیلئے جو مدارس کی پینری اگائی تھی اس کو بتدریج عوام پر حق حکمرانی دے دیں ۔ جس خانہ جنگی کا سامنا افغان عوام کو ہے وہی خانہ جنگی ہمارے دروازوں پر بہت جلد دستک دے گی ۔

پارلیمنٹیرین کو درپیش خطرات اور پیش آئندہ چیلنجز کے متعلق بریفننگ دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا ۔فیصلوں کے اختیارات جن کے پاس تھے بھگتنا بھی انہیں پڑے گا ۔بات پھر وہیں پر آجاتی ہے بھگتیں گے عوام بالکل اس طرح جس طرح افغان عوام بھگت رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا کو احمق نہیں بنایا جا سکتا ۔دنیا کو سب خبر ہے جس طرح “اچھے ” ۔۔۔۔ کو کوئی فنڈز ، پیسے اور اہداف دیتا تھا بُر طالب آن بھی ان چیزوں کے بغیر آپریٹ نہیں کر سکتے تھے ۔اب خطہ میں کھیل کھیلا جائے گا وہی کھیل جس کے ہم کہنہ کھلاڑی تھے ۔اب افغانستان میں کسی کو ہماری ضرورت نہیں بلکہ اب ہمیں دنیا سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے کہ ہماری جان انتہا پسندی سے چھڑا دیں ۔جس ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ سند یافتہ مولوی ہوں اور ہر سال لاکھوں نئے نکل رہے ہوں ان ممالک کی جان آسانی سے نہیں چھٹتی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply