زندگی تغیر کے سوا کچھ نہیں/فضیلہ جبیں

زندگی ایک انتہائی متغیراتی عمل ہے۔ جہاں ہر دور اپنے اندر ایک تغیر لے کر آتا ہے۔ ہر دور کا تغیر ایک نئے زاویے کے ساتھ جڑتا چلا جاتا ہے۔ اگر زندگی تغیرات کا مجموعہ نہ ہوتی تو ہم اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے۔ تغیر کا نظریہ ہماری زندگیوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انسان پیدائش سے لے کر موت تک مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو ایک معصوم بچہ ہوتا ہے جو اپنے ہر کام کے لئے محتاج ہوتا ہے۔ دوسروں سے ابلاغ کے لئے اس کے پاس چہرے کے تاثرات اور مخصوص حرکات ہوتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی بچہ بڑا ہو کر زندگی کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جو اس کی زندگی میں تغیرات لے کر آتے ہیں یہی زندگی کی اصل یے۔
قدرت میں ہونے والے تمام تغیرات اس کائنات کا طبعی ارتقاء ہیں۔ اللہ پاک نے انسان میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والی تمام تبدیلیوں اور تجربات سے سیکھتا ہے اور سبق حاصل کرتا ہے۔ انسان کا ہر عمل اسے زندگی میں کامیاب نہیں کر سکتا ۔زندگی کے بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں جہاں انسان کو ناکامی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ انہی تجربات سے انسان غور وفکر کرتا ہے ۔ یہی عوامل انسان کے نا صرف اندرونی احساسات کو متاثر کرتے ہیں بلکہ مستقبل میں ہونے والے عوامل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ہرعمل انسان کے سوچنے سے شروعات لیتا ہے۔ انسان کا زاویہ فکر اس کے زندگی کے واقعات کو بدل سکتا ہے
اس امر میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں کہ وقت بدل سکتا ہے۔ زندگی میں آنے والے اچھے اور برے دن بھی گزر جاتے ہیں۔ جس طرح ایک چھوٹے سے بیج سے ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔ لیکن اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور  موسموں کے رنگ بدلنے کے ساتھ ساتھ بڑا ہونا ہوتا ہے۔ اس ہرے بھرے درخت پر خزاں کا رنگ آتا ہے اس کے کھلے ہوئے رنگ اپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔ لیکن وقت بدلتا ہے اور درخت کے رنگ واپس آجاتے ہیں۔اگر یہی عمل جمود کا شکار ہو جاتا تو درخت کا نام و نشاں بھی نہیں رہتا۔
کچھ لوگ ہر زمانے میں اس شکایت کا شکار رہتے ہیں کی زمانہ بدل چکا ہے۔زمانے میں آنے والی جدت کو لوگ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ زمانہ تو ہے ہی بدلنے کے لیے ۔ آج سے پانچ سو سال پہلے کے انسان کو اگر اس ترقی یافتہ زمانے میں لا کر کھڑا کر دیا جائے تو وہ حیرت زدہ ہو جائے گا۔ہر زمانے کا جدت پسند انسان بھی آج کے زمانے سے بہت پیچھے رہ چکا ہے۔ وقت ہر سمت بدل رہا ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آیا ہے تب سے اب تک انسان کے بنیادی اصول اور کائنات کے فطری قوانین ایک سے ہی ہیں۔ انسان کی زندگی میں آنے والے تغیر ایک مخصوص دائرے میں ہیں۔ ہر تبدیلی خیر نہیں ہوتی ۔زمانے کے تغیر میں ہمارے لئے غور وفکر کے بہت سے نمونے ہیں۔ تغیرات اور ثبات میں توازن ہمارے لئے صحت مند زندگی کا اصول ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply