امید کے کنول کھلیں گے۔۔ڈاکٹر محمد اسد اللہ خان

ہر طرف اندھیرا تھا ۔کسی کا کوئی پرسان حال نہ تھا ۔جہالت کا دور دوراں تھا۔ ہر طرف جنگل کا قانون تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ رشتوں کے احترام نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ محرمات سے شادی کو معیوب نہ گردانا جاتا تھا۔ ہر طرف مایوسی اور ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ عورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ گلی بازاروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کردیا جاتا تھا۔ فرسودہ قسم کے رواج معاشرے کو تباہ کر چکے تھے۔ پانی کے ایک گھونٹ پینے پر لوگوں کی جانیں لے لی جاتی تھیں۔ معمولی جھگڑوں پر ایسی لڑائیاں جنم لیتی تھی جو نسل در نسل چلتی تھی بت پرستی عام تھی۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا ہوا تھا ہر روز ایک نئے بت کی پرستش کی جاتی تھی ۔ لوٹ مار ذریعہ معاش بن چکا تھا اور اس کو بہادری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ المختصر اللہ کی زمین پر ظالموں کی حکومت قائم ہوچکی تھی معاشرہ تباہی کو گلے لگا چکا تھا اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی اور پھر اللہ کی رحمت نے جوش مارا۔
اللہ تعالی نے اپنے اس معاشرے کی بھلائی کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبوث فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی پورے معاشرے کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرے کی جگہ روشنی لے لیتی ہے۔
مایوسی اور ناامیدی کے بادل چھٹ جاتے ہیں لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں آتی ہے نفرت کی جگہ محبت اور ایثار کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ عورت کو معاشرے میں ماں بہن بیٹی اور بیوی کی شکل میں عزت کا مقام اور وراثت میں حصہ ملتا ہے۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے رونما ہوئی ۔ اس کی وجہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی برداشت اور استقامت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی برداشت اور استقامت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طرح کی تکالیف دیں۔
کبھی وادی طائف میں آپ کے اوپر پتھروں کا برساؤ کیا گیا تو کبھی نماز کی حالت میں آپ کے اوپر اوجڑی پھینکی گئی۔ کبھی راستے میں کانٹے بچھائے گئے تو کبھی محاصرہ کرکے قطع تعلقی کی گئی لے لیکن آپ نے برداشت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ان لوگوں کے حق میں دعا فرمائی۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا۔

ماضی میں ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں پر کامیابی نے برداشت اور استقامت کو اپنا شیوہ بنانے والوں کے قدم چومے ہیں۔
گاما پہلوان رستم زماں سے آپ سب واقف ہوں گے گاما پہلوان کا اصل نام غلام محمد بخش تھا ۔آپ کا جنم 22 مئی 1878 کو امرتسر میں ہوا ۔اپنے 52 سالہ طویل کیریئر کے اندر کوئی بھی پہلوان گاما پہلوان کو شکست نہ دے سکا ۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار گاما پہلوان گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک دکاندار نے غصے میں آکر گاما کے سر میں ایک وزن کرنے والا پتھر دے مارا ۔جس کی وجہ سے گامے کے سر سے خون نکلنے لگا بہت سارے لوگ گلی میں یہ منظر دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب اس دکاندار کی تو خیر نہیں ۔
مگر ان تمام لوگوں کی توقع کے برعکس گامے نے سر پر ایک کپڑا باندھا اور خاموشی سے اپنے گھر کی طرف چل دیا لوگ حیران تھے کے گاما پہلوان نے کوئی رسپانس کیوں نہیں دیا کچھ لوگوں نے گامے سے پوچھا کہ آپ نے کوئی رسپانس کیوں نہیں دیا اس پر گامے نے جواب دیا کہ مجھے پہلوان میری قوت برداشت نے بنایا ہے جب تک یہ قوت برداشت میرے پاس ہے صرف اس وقت تک ہی میں ایک اچھا پہلوان ہو ۔

اسی طرح ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں اڑھائی کامیابیاں سمیٹی ہیں ایک کامیابی وہ تھی۔ جب جنگل میں میرا سامنا ایک اژدھے سے ہوا اور اس سے اپنی جان بچانے کے لئے بارہ گھنٹے تک اکیلے اس سے لڑنا پڑا۔

دوسری کامیابی وہ تھی جب ایک بار مجھے خارش کا مرض لاحق ہوا تو اس کی خبر پھیل گئی اور حالت یہ تھی کہ کسی قسم کا بھی کپڑا میرے جسم پر باعث تکلیف تھا اس وقت میں شبانی خان جان بوجھ کر بادشاہ سے ملنے کے لیے آن پہنچا۔ بابر نے فوری طور پر شاہی لباس زیب تن کیا اور دن کا ایک لمبا حصہ شبانی خان کے ساتھ بیٹھا رہا اور اس پورے وقت میں ایک بار بھی جسم پر خارش نہ کی۔ باقی آدھی کامیابی جو میں نے اپنی زندگی میں حاصل کی وہ آدھی دنیا کی فتح ہے۔

میرے پیارے دوستو بات یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک تشویش کی لہر کرونا کو لے کر چھائی ہوئی ہے ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حوصلے اور برداشت کے ساتھ یہ وقت گزارا جائے ۔اپنے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے اور جو ینگ ڈاکٹرز اس وقت کرونا کے خلاف فرنٹ لائن میں جہاد کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اگر ہم نے عزم حوصلے اور برداشت کے ساتھ یہ سفر طے کرلیا تو یقینا کامیابی ہمارا مقدر ہو گی۔

اب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے ملک پر میں لاگو جزوی لاک ڈاون کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں کیونکہ اب کرونا کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خاص طور پر رمضان المبارک کے اندر پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بنی نوع انسان کی خدمت اور مالی مدد کے جذبات سے سرشار ہوتی ہے۔اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاک ڈاون کو کم ازکم عید تک بڑھانے میں کوئی قباحت نہیں۔
اور یقین رکھیں ماضی میں آنے والی باقی وباؤں کی طرح یہ وبا بھی ٹل جائے گی کیونکہ خدا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور وہ زیادہ دیر اپنے بندوں کو تڑپتا نہیں دیکھے گا
خدا جو خود محبت ہے
وہ کتنی دیر دیکھے گا
تڑپتا اپنے مظہر کو
نہیں ویران رکھے گا
وہ بازار و مساجد کو
خدا کو رحم آنا ہے
خدا کو رحم آئے گا
فقط تم حوصلہ رکھنا
زرا سا فاصلہ رکھنا
جھکا کے سر کو سجدے میں
خدا سے رابطہ رکھنا
محبت جوش مارے گی
زمین پھر مسکرائے گی
بلائیں بھاگ جائیں گی
بہاریں لوٹ آئیں گی
انشاءاللہ

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد اسد اللہ خان
(گولڈ میڈلسٹ) فیصل آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply