اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر۔۔مہرساجدشاد

مذہب ہر انسان کی زندگی سے جڑا ہوا موضوع ہے حتی کہ اگر کوئی شخص کسی مذہب کو بھی نہیں مانتا پھر بھی اسکے کچھ مثبت یا منفی مذہبی نظریات ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بدل گئی سرحدوں کا نظام مضبوط ہو گیا ،ایک دوسرے کے خطہ ارض کا احترام ہونے لگا ،جنگ و جدل کے انداز بدل گئے۔ اب کسی ملک پر قبضہ کر کے اس کو اپنی کالونی نہیں بنایا جا سکتا۔ پہلے بھی یہ سب مال و دولت کیلئے ہوتا تھا ،اب بھی ملکوں کے درمیان تنازعات کی بنیادی وجہ معیشت اور معاشی مسائل ہیں۔

آج عالمی سطح پر انسانی حقوق کا جو چارٹر رائج و مسلمہ ہے اس کی رو سے مذہبی آزادی ہر فرد کا حق ہے وہ اپنے مذہبی فرائض عبادات کرنے میں آزاد ہے، ریاستیں اپنے شہریوں کو مذہبی آزادی دینے کی پابند ہیں۔ ریاستیں اپنے شہریوں کی سہولت اور ذہنی آسودگی کیلئے انہیں اپنے مذہبی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت دیتی ہیں عموماً یہ عبادت گاہیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بناتے ہیں لیکن جہاں انکی تعداد کم ہونے اور معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث یہ ممکن نہ ہو وہاں ریاستیں اپنے شہریوں کیلئے یہ سہولت مہیا کرتی ہیں اس میں معاونت کرتی ہیں۔
پاکستان میں بھی تمام مذاہب کے ماننے والے اس ریاست کے برابر رتبہ کے شہری ہیں انہیں بطور پاکستانی اس ملک کے آئین کے تحت دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئین کے تابع مذہبی آزادی بھی سب شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

دنیا بھر میں دارلحکومت عموماً ایک بڑا اور اہم شہر ہوتا ہے، دارلحکومتوں میں اس ملک کے بسنے والے سب مذاہب کی عبادت گاہیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسرے ممالک سے آئے سربراہان مملکت اور مختلف وفود اور کھلاڑی وغیرہ جب چاہیں اپنے مذہب کی عبادت گاہوں میں جا کر عبادت کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں غیر مسلم ممالک کے دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں موجود مساجد اسکی مثال ہیں۔
حال ہی میں ہندوؤں کی ایک مقامی فلاحی تنظیم نے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ایک مندر کی بنیاد رکھی ہے، انہوں نے گذشتہ کئی سال میں حکومتی قانونی تقاضوں کو پورا کر کے اسے ممکن بنایا ہے۔ پاکستان میں ایک بار پھر اس موقع پر ایک مخالفت کی مہم چل پڑی ہے جس میں دو وجوہات غالب ہیں۔۔

اوّل حکومت وقت کے مخالفین اسے ایک اچھا موقع سمجھتے ہوئے حکومت پر مذہبی رنگ میں چڑھائی کر رہے ہیں، اس حکومت میں بہت سی خرابیاں نالائقیاں یقینا ً ہونگی، لیکن ایک طبقہ کی خالص مذہبی عبادت کی ضرورت کو حکومت مخالف پراپیگنڈا بنانا کسی طور درست نہیں۔

دوم کچھ لوگ اسلام کے اصلی تشخص یعنی مذہبی رواداری کی ترویج کی بجائے اپنی متعصب سوچ کے تحت مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں، جبکہ وطن عزیز میں یہ ہندو طبقہ مکمل امن اور ملکی قانون کے تابع بطور ذمہ دار پاکستانی اپنی زندگیاں گزار رہا ہے۔

پاکستان غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے جہاں ہر گلی محلے میں الحمدللّٰہ مساجد موجود ہیں لیکن اسلام کی تعلیمات جو ہماری زندگیوں میں معاملات کیلئے اور ہمارے اخلاقیات کیلئے بہترین رہنما ہیں ان تعلیمات کے اثرات ہماری زندگیوں میں نظر نہیں آتے۔ اخلاقی پستیوں اور معاملات میں شرمناک زوال کا شکار ہمارا معاشرہ واضع پیغام دے رہا ہے کہ ہمیں اسلام سے کوئی واقفیت نہیں اگر واقفیت ہے تو اسلام سے کوئی پیار نہیں اور اگر اسلام سے پیار ہے تو اسے ہم نے صرف عقیدت کے اظہار کیلئے رکھا ہے بدقسمتی سے لگتا ہے اس پر عمل کرنا ہماری ترجیح نہیں ہے۔

ایسی ریاست جس میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے وہاں فرقہ واریت سے تقسیم در تقسیم ایک المیہ ہے اس کے حل کی طرف بنیادی قدم یہ ہے کہ ریاست مساجد کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھے، ریاست ہی تعلیم و تربیت کا نصاب مرتب کرے اور جمعہ و عیدین کے خطبات بھی ریاست ہی جاری کرے، تاکہ نفرت انگیز تعصب پر مبنی سوچ کا قلع قمع کیا جا سکے۔ اسی طرح دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا انتظام بھی ریاست کی ذمہ داری ہونا چاہیئے تاکہ ان جگہوں کو ریاست یا دیگر مذاہب کے خلاف کسی پروپیگنڈہ  یا سازش کیلئے استعمال نہ کیا جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ریاست میں امن و سکون کیلئے ضروری ہے کہ ہر شعبہ زندگی کی طرح ریاست کے باشندوں کی مذہبی آزادی بھی ریاست کے آئین کے وضع کردہ دائرہ میں سب کو میسر ہو تاکہ امن اور سکون کا ماحول قائم کیا جا سکے جو ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply