شکریہ دریائے اپسالا(اختصاریہ)۔۔سمیعہ بلوچ

میرا بچپن مکران کی خاموش، صاف شفاف پانی کی لہروں کے آس پاس گزرا ہے، جہاں میرے ساتھ آزاد فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی خوبصورت آوازیں، کھجور کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹیں اور نہر کے اُس پار بچوں کے قہقہے تھے، جو میرے دل کو ابھی تک سکون دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی، جب بھی میں ندیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بھی وہی سکون ملتا ہے۔

ایک چیز جس نے مجھے مطمئن کیا تھا وہ یہ ہے کہ جلاوطنی اختیار کرنے والے، مہذب ممالک میں بخیر و عافیت سے زندہ ہوں گے۔
تاہم آج نہر کی خاموش لہروں کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ کیونکہ شاید بلوچ ہونا ایک ناممکن انتخاب ہے، یہاں تک کہ دریا کے خاموش کنارے بھی آپ کے پیاروں کی لاش نکال سکتے ہیں۔

آج میں ایک مہذب ملک کے دریا کی وجہ سے اپنا خیال بدلنے پر مجبور ہوا ہوں، جس نے مجھ “بلوچ” پر قسمت کے بارے میں ایک تلخ حقیقت آشکار کی ہے کہ زندگی کسی بھی وقت موت سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔ اگر مرنا ہے، تو کیوں نہ قریب ہی مرنے کے لئے اپنی ہی جیل کا انتخاب کریں۔۔۔
آپ تو جانتے ہی ہیں ساجد کہ اب بس مکران کی نہروں میں ہی سکون مل سکتا ہے، ویسے بھی آپ کی زندگی بس اتنی ہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساجد مکران کی یہ ندیاں ابھی تک آپ کی منتظر ہیں۔ یہ آپ کی موت پر غم میں ڈوبی ہوئی فریاد کر رہی ہیں کہ جب ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکے، تو پھر یہ بیرونِ ممالک کی ندیاں کیسے ایک اجنبی کو زندگی کی سانسیں فراہم کر سکتی تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply