کہانی۔۔ مختار پارس

جب سب کچھ ہو جاتا ہے، تب کہانی شروع ہوتی ہے۔ داستان کسی کی سمجھ میں آ جاۓ تو وہ خود کہانی کا کردار بن جاتا ہے۔ جن لوگوں میں یہ دم خم نہیں ہوتا کہ وہ کہانی کو آگے بڑھا سکیں وہ صرف سن کر سر کو دھنتے رہتے ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کہانی کرداروں کے ہاتھ سے نکل جاۓ اور وہ صرف کچھ ایسا کرنے کےلیے باقی رہ جائیں جو کہانی کو انجام تک پہنچانے کےلیے ضروری ہو۔ کردار جب کہانی لکھنے والے سے الجھتے ہیں تو المیہ جنم لیتا ہے۔ ہر المیے کے پیچھے ایک محبت ہے۔ ہر محبت ایک کہانی ہے۔ اور جب سب کچھ ہو جاتا ہے تو پھر کہانی شروع ہوتی ہے۔

نہ میں مرشد نہ مرید، میں کہانی کیسے لکھوں۔ مجھے تو حکم ملا ہے کہ مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا ہے۔ حسنِ بے تقصیر بھی نقابوں کو اُلٹنے پر پابند ہے۔ رات کے آخری پہر داستان شروع ہوئی ہے، نہ جانے ختم کب ہو گی۔ داستان ختم ہونے کا انتظار نہیں۔ ڈر ہے کہ ابھی شمس افلاک کے پردے پھاڑ کر دیکھے گا اور کہانی سننے کا وقت ختم ہو جاۓ گا۔ حکمِ سفر مل گیا تو پھر کون لوٹ کر آتا ہے اور کسے کوئی ادھوری داستان سناتا ہے۔ اگر مجھے کہانی کو خود آگے بڑھانے کو کہہ دیا گیا تو پھر میری کہانی کوئی اور سناۓ گا۔ کہانی کے کرداروں پر بھی میرا اختیار نہیں اور کہانی سننے کا اختیار بھی میرا نہیں۔ لیکن ہر کہانی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جو جنگل میں رستہ بنا دیتا ہے اور پھر قافلے ان کرداروں کی تلاش میں صدیوں وہاں سے گزرتے رہتے ہیں۔ میں کیا کروں؟ نظر ہٹاؤں تو بے ادبی کا اندیشہ ہے، آنکھ جھپکوں تو خدشہ لاحق کہ حسن و جمال کہیں چھپ نہ جاۓ۔ میرا تو سمرقند و بخارا کو گال پر سجے تِل پر قربان کرنے والوں کے قبیل سے تعلق ہے۔ مجھ سے تو بلخ سے قونیہ تک کا سفر طے نہیں ہو گا۔ اب کی بار خراسان کو ملتان آنا ہو گا۔

یہ ورق ورق داستاں نغمہء سوز و سازِ دل ہی تو ہے۔ جب سفر شرط تھا تو مسافر چلتے چلتے شہر بنارس پہنچا۔ چاہِ علم و دانش کھود کر پیاس بجھائی۔ آبِ فکر و نظر کی تاثیر کچھ ایسی تھی کہ پیاس اور بڑھ گئی۔ پیاس اور مسافر دونوں بڑھتے بڑھتے دجلہ کنارے پہنچ گۓ جہاں کبھی سائرس کے گھوڑے پانی پینے آۓ تھے اور جہاں منصور حلاج کے ملازم نے دریا کی غضبناک لہروں میں منصور کا چغہ پھینکا تھا۔ وہاں سے مسافر نے پرندوں کے غول کے ساتھ سیمرغ کی تلاش میں کوہ قاف کی طرف اڑان بھری۔ وہاں پہنچا تو اسےشفاف پانیوں میں اپنے علاوہ کسی کا عکس نظر نہ آیا۔ وہ جو قبرص میں بل کھاتی ندیوں کا پانی پی کر فارس میں آۓ تھے انہیں مانی کے خداوندگار میں اپنے ہی خدا تو نظر آۓ تھے۔ محبت اور حسن کی دیومالائی داستانیں صرف یونان اور روم تک تو محدود نہیں۔ سفر شرط ہے۔ یہ عشق کہیں نہیں رہنے دے گا۔

قصہ ایک ہے مگر کہانی ایک نہیں ہو سکتی۔ قصہ سنانے والا ایک ہے مگر کہانی سننے والے بہتیرے۔ جو کہانی سنتا ہے اس میں اپنے دکھ درد کو ڈھونڈتا ہے۔ کبھی اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں اور کبھی وہ ہنس پڑتا ہے۔ اس کو رستے میں جو ملتا ہے، وہ اس پر دل کو ہار دیتا ہے۔ ندیمِ دوست، بوۓ دوست کو عام کرتے ہیں اور بچے بالے گلی محلوں میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے شور شرابہ کرتے رہتے ہیں۔ شام ہوتی ہے تو سب گھروں میں ماں کی گود میں سر رکھنے کےلیے لوٹ جاتے ہیں۔ ماں تو سب کی ایک ہی ہے مگر سارے بچے ایک نہیں ہو سکتے۔ ان سب نے اپنی اپنی کہانی لکھنا ہے اور ماں نے سب کی کہانی کو سننا ہے اور اس میں اپنے دکھ اور درد کو ڈھونڈنا ہے۔

کہانی صرف وہ سنا سکتا ہے جسے یقین ہو۔ انسان کا اصل وہی ہوتا ہے جو وہ سوچتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے رہتے ہیں، صرف کہانی کے کرداروں کی محبت کے زیرِ اثر کرتے ہیں۔ اس کا ہمارے یقین سے تعلق ضروری نہیں۔ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں، اسکا ہمارے یقین سے تعلق ضروری ہے۔ یقین عہد ساز کیمیا گری سکھا دیتا ہے اور جہاں کچھ نہ ہو وہاں ہویدا کر دیتا ہے۔ کہانی کی ابتدا ہمیشہ وہاں سے ہوتی ہے جہاں کچھ نہیں ہوتا۔ لا الہ الاللہ سے لا تقنطو من رحمۃ اللہ میں سب سے اہم بات ‘نہیں’ ہے۔ یہ نہیں تو وہ نہیں؛ وہ نہیں تو یہ نہیں۔ وہ ہے تو میں ہوں۔ میں ہوں تو وہ ہے۔ اس محبت کی کہانی کو جس نے لکھ ڈالا، مرشد ہو گیا اور جس نے سمجھ لیا، مرید بن گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عشق نفی اثبات کے فارمولوں میں الجھ گیا ہے۔ کہانی آگے بڑھ گئی ہے اور ہم پیچھے رہ گۓ ہیں۔ کردار اب ایک اجنبی زبان میں ایسی دلچسپ باتیں کر رہے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں مگر ہمیں ان پر یقین ہے۔ ہم انہیں ایسے سن رہے ہیں جیسے کسی نے سانس بھی لی تو داستان بکھر جاۓ گی اور پھر ساری عمر اس بکھری داستان کے ٹکڑے اکٹھے کرتے کرتے گزر جاۓ گی۔ داستان کسی موڑ پر آ کر ختم ہو گئی تو میں بکھر جاؤں گا۔ نہ جانے مجھے کون سمیٹے گا؟

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply