کدھر ہے کورونا ؟ دکھاؤ ذرا۔۔محمد اسلم خان کھچی

کل تک سوشل میڈیا پہ اور گپ شپ کی محفلوں میں لوگ مذاقاً ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے کہ”دکھاؤ ذرا، کدھر ہے کورونا” ؟
یا، کیا کسی نے آج تک کورونا کا کوئی مریض دیکھا ہے ؟

آج کل وہی لوگ خوف  کے عالم میں ایک دوسرے کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ میرے فلاں عزیز کی کورونا سے وفات ہو گئی ہے ، فلاں فیملی  قرنطینہ ہوگئی  ہے اور خود دور ہوتے ہوئے اتنے خوفزدہ ہیں کہ جیسے کورونا ان تک بھی ضرور پہنچے گا۔

عید پہ جب ریاست نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا تو گھروں سے عورتوں اور بچوں کے غول کے غول نکلے اور بازاروں پہ ایسے دھاوا بولا کہ جیسے یہ انکی زندگی کی آخری عید ہو۔ بچے عورتیں ,جوان سب کندھے سے کندھا ملا کے پورے جوش و خروش کے ساتھ  ہر قسم کی  قید و بند سے آزاد بازاروں میں گھوم رہے تھے۔ کسی کے پاس کوئی ماسک نہیں, کوئی سینیٹائزیشن نہیں ۔ یہ دیکھ کہ کورونا بھی شرمندہ ہو گیا کہ یہ میں کس قوم میں آن پھنسا ہوں۔ ۔کہ جہاں  ماں  کو بچے کی زندگی عزیز نہیں, خاوند کو بیوی کی زندگی سے کوئی غرض نہیں ، بلکہ رش دیکھ کے یوں لگتا تھا کہ شاید ہم اپنی بیگمات کو کسی نہ کسی طرح اس دنیا سے “رخصت ” کرنا چاہتے ہیں اور کورونا ہی ہماری آخری امید ہے۔میں نے بھی ” مسز “سے کہا کہ ایک چکر مارکیٹ کا لگا آؤ، لیکن وہ سمجھ دار نکلی ,جانے سے انکار کردیا اور سچ پوچھیے تو ہزاروں پاکستانیوں کی طرح میرے ارمانوں پہ بھی اوس پڑ گئی۔

آپکو شاید یاد ہو کہ میں نے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ بازاروں میں رش دیکھ کے میرے دل میں ہو ل اٹھ رہے ہیں۔ دل دہل رہا ہے کہ جب اس رش کے نتائج سامنے آئیں گے تو لوگوں کے پاس کسی ہسپتال جانے کا آپشن بھی نہیں ہو گا۔

اب نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈرے سہمے لوگ دھیمی سی آواز میں کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب شاید مجھے کورونا ہو گیا ہے۔ تشخیص کے بعد انکا ڈر حقیقت میں بدلتا ہے اور وہ کسی گورنمنٹ ہسپتال جانے کی بجائے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔

اکیلی اور اذیت ناک لاوارث موت کو چنتے ہیں اور ساتھ بیوی بچوں دوستوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہسپتال سے ڈر لگتا ہے کہ مارا جاؤں گا۔ یہ سچ بھی ہے کہ مرنے کے چانسز ہیں لیکن ہسپتالوں میں ایک فائدہ تو ہے کہ ہم دوسروں کو تو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن یہاں بھی وہی قومی ” عقل کی کمی “آڑے آ رہی ہے کہ باہر بچ جائیں گے اور ہسپتال میں مارے جائیں گے۔۔۔ لیکن نہیں، ہم کہیں بھی ہوں کوئی ضروری نہیں کہ مارے جائیں۔ ہسپتال میں بچ بھی سکتے ہیں،مر بھی سکتے ہیں لیکن ہسپتال کا ایک فائدہ تو ضرور ہے کہ اپنے پیاروں کو اس آفت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

موسم گرم ہوتے ہی ” کورونا ” ایک نئی میوٹیشن کے ساتھ حرکت میں آیا ہے ۔ شاید اٹلی یا امریکہ کی طرح ہمارے مذاق سے اسے تکلیف پہنچی ہے۔ اس لیے وہ پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے کہ ” تم نہیں یا میں نہیں “۔اور شاید وہ اس بار ہم سے جیت رہا ہے۔

اب تک سینکڑوں ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہو کے اس خوفناک بیماری سے لڑتے ہوئے موت و زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔  میں نے لوگوں کو بھینچ بھینچ کے گلے ملتے دیکھا ہے کہ یار کوئی کورونا وورونا  نہیں ہے۔ سب گورنمنٹ کا فراڈ ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس غلط فہمی کا شکار نظر آتے ہیں۔اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ آج تک ہمیں تو کوئی کورونا کا مریض نظر نہیں آیا۔ وہ کوئی   کورونا عجوبہ   دیکھ کے یقین کرنا چاہتے ہیں۔ میری ان سے عرض ہے کہ بس چند دن صبر کیجیے،آپکو اگلے چند دن میں گلی محلوں میں مریض نظر آنا شروع ہو جائیں گے اور آپکی “کورونا عجوبہ “کو قریب سے دیکھنے کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ   کورونا عجوبہ   آپ یا میں ہوں جسے دیکھنے کیلئے لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو ۔لوگ ہمیں دیکھنے ضرور آئیں گے لیکن ہمارے جنازے میں شریک نہیں ہوں  گے،کیونکہ وہاں صرف چار آدمی گڑھا کھود کے دفن کر کے اوپر مٹی ڈال دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی بھی وقت ہے۔ سنبھل جائیے ۔ اگر آپ ابھی تک کورونا سے بچے ہوئے ہیں تو خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ کر لیجیے۔۔۔ ورنہ سوائے افسوس کہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اگر ایک ماہ آپ کورنٹائن ہو جاتے ہیں یا احتیاط کر لیتے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خود کو اور اپنے بچوں کو بچانے کیلئے اس ایک ماہ کی قربانی دے دیجیے۔ یہ کوئی بڑی قیمت نہیں۔
اللہ رب العزت آپ سب کو محفوظ رکھے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply