• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا انسانوں سے زیادہ انسانیت کا دشمن ثابت ہو گا۔۔ملک محمد عمران یوسف

کرونا انسانوں سے زیادہ انسانیت کا دشمن ثابت ہو گا۔۔ملک محمد عمران یوسف

جیسے شخص فانی ہے اور شخصیت کو دوام ہے۔ انسان چلا جاتا ہے لیکن اس کے اعمال و افکار باقی رہتے ہیں۔ شخص کے جملہ افکار و اعمال شخصیت بناتے ہیں۔ یقیناً کرونا چلا جائے  گا لیکن اس کے ثمرات باقی رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ساری دنیا اللہ رب العزت کی زجر و تہدید کے سامنے بے بس ہے۔ایک چھوٹے سے سپاہی سے دنیا کی رنگینیاں ختم کروا ڈالیں ۔ اگر کوئی بڑی مخلوق نکل آئے تو ہم انسانوں کا کیا ہو گا؟ دنیا کی ساری نام نہاد سپرپاورز کو اب یقین کر لینا چاہیے کہ مخلوق خالق کے سامنے ہمیشہ بے بس ہے۔۔ ابھی بھی گاودی یہ سمجھتے ہیں کہ موت اور زندگی کا مالک وائرس ہے۔ حلانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ وائرس موت کا بہانہ ہو سکتا ہے موت نہیں ہے۔ موت برحق ہے وقت اور جگہ بھی مقرر ہے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ساری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے ارے:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔
اگر ہم اس وبا سے بچ گے تو کیا ہم پھر نہیں مریں گے؟جواب نفی میں ہے۔ وائرس کی یورش نے دنیا کو سنسان کردیا بے شک یہ اللہ کی کاریگری ہے اور وہی قادر مطلق ہے۔ جب ہم اتنی چھوٹی سی مخلوق کے آگے عاجز ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے ہم انسان خدائی دعوے کریں۔ ہمیں اللہ کے سامنے بے بس رہنا چائیے تب ہی جاکر اللہ ہم پر رحم فرمائے گا۔ اگر ہم انسانوں کی ذات و صفات میں کوئی برابر آ جائے تو ہم برداشت نہیں کرتے وہ(اللہ) تو خالق ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ انسانی تاریخ میں وبا کا ذکر موجود ہے تاریخ اسلام سے بھی اس کے حوالہ جات ملتے ہیں۔اللہ ماں سے ستر گنا زیادہ ایک بندے سے پیار کرتا ہے تو پھر یہ وبائیں یہ عذاب کیوں آتے ہیں؟ غور طلب بات ہے کہ اگر ہماری ماں دن میں ہمیں پانچ مرتبہ کوئی حکم دے اور ہم ایک بار بھی عمل پہرا نہ ہوں تو شاید وہ مہربان ہستی بھی ہمیں گھر سے نکال دے اسی طرح جب ہماری نافرمانیاں اور بغاوت عروج پر پہنچتی ہے تو اللہ کی طرف سے زجروتہدید ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر توبہ استغفار کر لیا جائے۔ سچے دل سے رب کی طرف رجوع کیا جائے ابھی بھی در کھلا ہے۔ جہاں جہاں انسان انسانوں پر غالب ہیں وہ مغلوب اقوام کو آزادی دے دیں پھر وہ وقت دور نہیں کہ دنیا پھر سے امن کا گہوارہ بن جائے۔
کرونا انسانیت کا قاتل کیسے ثابت ہو گا۔
یہ فطری عمل ہے جو پیدا ہوا اسے مرنا ہے دائمی اور ابدی ذات صرف اللہ کی ہے۔ کرونا کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی زندگی بھی مشینی طرز کی ہو جائے گی۔ جیسے انگریز دنیا میں صرف اور صرف ایک مشین ہے جب تھک گئی تو کسی پرانے سٹور میں پھینک دی جائے گی۔ ایسے ہی ہمارے اندر سے مصافحہ اور معانقہ جیسی قدریں ختم ہو جائیں گی یہ بات اتنی ضروری نہیں سمجھی جائے گی صرف Hello, Hay کے انداز میں سلام پھینکا جائے گا۔قربت کا تصور بھی محال ہو گا۔ کون ضرورت محسوس کرے گا کہ بوڑھے باپ کے ساتھ بیٹھا جائے “اولڈ ہوم” کا تصور مسلمانوں میں آجائے گا۔ ہم مشین کی طرح کام کرتے رہیں گے کسی کو وقت نہیں ہو گا کہ وہ چند گھڑیاں ماں باپ کے ساتھ گزار سکے۔ بالآخر ہجر میں ماں باپ کی آنکھیں سفید ہو جائیں گی۔پھر ایک دن ہر انسان کے ساتھ یہی ہو گا کیونکہ بچپن، لڑکپن اور جوانی مستقل نہیں ہے۔ ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ وڈیوز بنا کر منظر عام پر لائی جا رہی ہیں کہ بل گیٹ ایسی ویکسین بنا رہا ہے جو مسلمانوں کے اندر سے خدائی “جین” ختم کر دے گی اور مسلمانوں کا لگاو اللہ سے نہیں رہے گا۔ ارے بھائیو خدائی جین کو allocate کرنا اور پہچننا ہی بہت مشکل کام ہے۔انسانی سیل/ خلیہ ان گنت جینز پر مشتمل ہے سوچنے کی بات یہ ہے خدائی جین ایک ہی ہے تو باقی جینز کس کی ہیں۔ سائنس یہ مانتی ہے کہ ساری جینز اللہ کی تابع ہیں وگرنہ چتنا انسان کا قد بڑتا ہے اس حساب سے ناک اور کان بھی بڑتے تو کدھر جاتے۔ ساری جینز اس کی کن کی محتاج ہیں۔ سائنس مشاہدات اور تجربات کا علم ہے اللہ پاک کا ارشاد ہے کائنات پر فکر کرو۔ کائنات میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ویکسین بھی بن جائے اور اس کے پیچھے بھی سائنسی عمل کارفرما ہوتا ہے۔ جو بننے کے بعد Model Organism پر ٹیسٹ کی جائے گی۔ پہلے ان کو بیماری میں مبتلا کیا جائے گا پھر کنٹرول اور تجرباتی گروپ بنانے کے بعد پھر ان ماڈل آرگنزمز مثلا( خرگوش، مینڈک،چوہا، بلی، کتا) پر اس کا اطلاق ہو گا پھر اس کا اطلاق انسانوں پر ہو گا ہم موٹے ذہن کے مالک لوگ ہیں تدقیق و تحقیق سے عاری ہیں۔ سطحی سوچ کے لوگ حقائق تک نہیں پہنچ سکتے۔ دنیا کی نام نہاد پاورز ابھی بھی ترقی کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں اور سبقت لینا چاہتی ہیں کہیں 5G کا دور دورا ہے تو کہیں کرنسی نوٹوں کا خاتمہ وغیرہ۔ اسلام آفاقی مذہب اور مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا چودہ سو سال قبل یہ درس تھا کہ کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھو لو۔ کھانستے چھینکتے وقت جو احکام بتائے گے تھے وہی کام کرنے پر دنیا کی نام نہاد پاورز اور ان کے مقلد بھی عمل پہرا ہو رہے ہیں یہی اس مذہب کی سچائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثیت مسلمان احتیاطی تدابیر پر عمل پہرا بھی ہوں اور فاصلہ ضرور رکھیں مگر نفرت نہ کریں جو دلوں کی قدورت کا باعث بنے۔ بیماری کب کسی کی مرضی سے لگتی ہے۔ اسلام پر مکمل کاربند شخص اس طرح کی تمام بیماریوں اور وباوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں نبی مکرم صلی علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی تقلید کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور سارے انسانوں پر اپنے پیارے حبیب کے صدقے رحم فرمائے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply