خاموشی۔۔۔۔ اقبال توروالی

خاموشی رُوح کی بالیدگی کا نام ہے خاموشی طائر مجنوں ہے خاموشی طاق جبیں ہے خاموشی باطلعت ہے خاموشی طاؤس طنار ہے خاموشی ایجاب ہے خاموشی ملتفت ہے خاموشی تہنیت ہے خاموشی دل کشائی ہے خاموشی عنبر ہے خاموشی زینت ہے خاموشی نکہت ہے خاموشی کستوری ہے خاموشی تکلم ہے خاموشی تصوف ہے خاموشی سعیر ہے خاموشی شعلہ افشانی ہے خاموشی تحریک ہے خاموشی جمود ہے خاموشی نفاق ہے خاموشی شیرازہ ہے خاموشی چشمہ شاپور ہے خاموشی اشک شفق گوں ہے خاموشی وحشت ہے خاموشی خندہ اختلاج ہے خاموشی خلِش ہے خاموشی مسرت و گُل خندہ ہے خاموشی سکوت ہے تو خاموشی تصریح ہے خاموشی کلوات ہے تو خاموشی ضرر ہے خاموشی نچان ہے تو خاموشی صلابت ہے حیف خاموشی گُل افشانی ہے تو خاموشی گُل پیرہنی ہے خاموشی گُل رنگیں ہے تو خاموشی گُل ریزی ہے خاموشی دیو انگنائی ہے تو خاموشی طرح داری ہے خاموشی طلعت زیبا ہے تو خاموشی شکیل ہے خاموشی پُر برگ و ثمر ہے تو خاموشی گہر ہے خاموشی جمجاہ ہے تو خاموشی صومعہ نشین ہے خاموشی ربط ہے تو خاموشی یاسیت ہے خاموشی ندرت جوئی ہے تو خاموشی سینہ فگار ہے خاموشی مست گام ہے تو خاموشی رقصِ شرر ہے خاموشی ابتدا ہے تو وہی خاموشی ختم بالخیر ہے۔۔۔

خاموشی رنگ و رامش کا وہ معتبر گیت ہے جس کے سُر ہر نوعِ بشر کی سماعتوں سے نہیں ٹکراتے۔ خاموشی وہ آواز ہے جس کی صوت مطلق محسوس کی جا سکتی ہے، یہ آوازوں کی آفریدگار نہیں جو اپنے شورش سے متوارد ہمرکاب ہوں۔ یہ حواس، دانش، فہم و ادراک کی حِس ہے جسے مطلق معروف کی جا سکتی ہے۔ یہ خلیج بھی نہیں جو اپنے آفاق کے حصار میں محصور ہو جائے، یہ ساگر ہے جو اپنے دامن کی وسعتوں میں ہمہ تن سوز و گداز رہتا ہے۔ آوازوں کی رحلت پیکرِ آدم کو درماندہ کر دیتا ہے کسی پراگندہ، سرگرداں وجود کی طرح، مگر خاموشی مدام ایک آڑ بن کر ان آوازوں کی شورش انگیزی سے جلا بخشتی ہے۔۔۔

خاموشی کوئی الم نہیں، جو لاشعور کے نہا خانوں کو اپنے تریاق سے کُل کر دے۔ خاموشی آنند ہے جو رُوح کو اندر تک پُر برگ و ثمر کر دیتا ہے۔ خاموشی کوئی اضطراب بھی نہیں جو وجود کو جزع و خلفشار کا مطیع کر دے، خاموشی سکون، صمت، آرام و آسائیش ہے جو غیر ضروری طرزِ خرام و حرکاتِ شنیعہ سے مسکنات رسد کرتی ہے۔

آوازیں جاودانی سے زبانوں کی متقاضی رہی ہے دنیا کی ہر آواز ایک مختلف زبان کی محتاج رہی ہے مگر خاموشی اس شناختی اضطراب سے بلکل ماورا ہے۔ اس کی کوئی زبان کوئی سرحد کوئی شناخت نہیں۔ یہ روح سے روح کی گفتگو ہے چشم ھا کی حسیات، درون کی گفتار۔ جس طرح خدا کا تصور ممکن نہیں، اسی طرح خاموشی کا ادراک ممکن نہیں۔ یہ متبائن محل پر متبائن راپ الاپتی ہے اسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے پنہارا جا سکتا ہے اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے مگر اسے مانجنا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

خاموشی پاگلوں کی زبان ہے جسے آشفتہ سروں نے متنفس رکھا ہوا ہے۔ خاموشی کے ادراک کہ لیئے لاشعور سے تصوف و دانائی کا غلاف جزر کر کہ اس کی تاثیر سے منفعت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خاموشی ایک مکمل، کُلی، بے کم و کاست سنسار ہے جس میں کرہٰ ارض کی تمام زیبائی مفقود ہے، جہاں طرح داری و دیو انگنائی اُبھار و دھارا کی شجر زاری میں بالیدگی پر کرشِ رہی ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ظاہر کی سیاحت نہیں جہاں سب کچھ پرگھٹ خودنمائی دے، یہ باطن کی مسافت ہے جہاں منزل کا نشاں مبہم چشم داشت پر مفقود ہے۔ خاموشی وہ گیان ہے جو خدا تک رسائی دیتا ہے۔ خاموشی آوازوں کی مرشد ہے اس کا احترام کیجیئے، اس لیئے نہیں کے یہ سکوت ہے بلکہ اس لیئے کہ آواز مدام سماعتوں کی مقتعنی رہے گی مگر خاموشی سماعتوں کی نہیں سماعت بنفس نفیس خاموشی کی محتاج ہے۔ آوازوں میں افضل ترین آواز خاموشی ہے جس کا شورش ہر انسان سُن نہیں سکتا، یہ بھید اُن لوگوں پر منکشف ہوتا ہے جو اس کی پیمائش و بالیدگی کر سکے۔ ختم باالخیر خاموشی ازل سے تھی خاموشی ابد تک رہے گی۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply