لاش۔۔۔ارسلان قادر مفتی

لال کڑتی بازار کی لدھیانہ مارکیٹ , ساتھ ہی الماس بوبی کے گھر کی طرف جاتے ہوۓ چند خواجہ سرا اونچی آواز میں باتیں کرتے جا رہے ہیں۔ اس بازار کا عجیب منظر ہے۔ چند عمر رسیدہ بزرگ گلی کے اس کونے میں لڈو کھیل رہے ہیں, ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں اور کچھ تماشائی  اس کھیل  تماشے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کھیل تماشے کے ساتھ ہی ایک پان کی ریڑھی والا کھڑا ہے اور ریڑھی کے پاس موجود دیوار پر پان کے اگال کے بدنما چھینٹے پڑے ہیں۔ ریڑھی والے کے سامنے “چاچا نیما” توا کلیجی بنانے میں مصروف ہے۔ مٹی کے تیل والے  چولہا کے پریشر کو بڑھانے کے لیے ” چاچا نیما ” ہینڈ پمپ سے ہوا بھر رہا ہے۔ پورے چوک میں کلیجی کی اشتہا انگیز خوشبو نے ماحول کو” من بھاؤنا ” بنا دیا ہے۔ ادھر دھوبی کی دکان کے سامنے بندر والا چھوٹے بچوں کو بندر کا تماشا  دکھا رہا ہے۔ کچھ بچے جو ابھی مولوی صاحب سے درس لے کر آۓ ہیں یہ تماشادیکھ رہے ہیں۔

گزرنے والے گزر رہے ہیں۔ کوئی  اپنے دفتر سے واپس گھر کی طرف جا رہا ہے۔ کچھ وردی والے فوجی رات کی ڈیوٹی کے لیے بوریا بستر اٹھاۓ جا رہے ہیں۔ زندگی رواں دواں ہے مگر اس پورے چوک میں دو عناصر اور بھی موجود ہیں۔ ان کی طرف کوئی  توجہ نہیں دے رہا۔ صرف یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک گلی کے موڑ پر موجود دکان پر لگے بورڈ جس پر لکھا ہے “بھیرہ شریف کی مشہور مہندی ” کے بالکل ساتھ ایک سڑاندزدہ , مریل اور وحشت ناک چیز پڑی ہے۔ اس کی طرف کوئی  توجہ نہیں دے رہا۔ اس کو ایک لاش بھی کہا جا سکتا ہے یا اسے نیم مردہ لاش یا پھر سسکتی سانسوں والی لاش کہا جا سکتا ہے جیسے ہمارے اردگرد لاشیں چل پھر رہی ہوتی ہیں۔ دوسری چیز جس کو آج کل کوئی  اہمیت نہیں دیتا اور اس کے درمیان پیٹ حائل ہے۔ اس چیز کا نام “احساس” ہے۔ احساس “چاچا نیما ” کی توا کلیجی کی خوشبو سے صرف ِ نظر کیے الگ بیٹھا ہوا ہے ورنہ جو بھی چوک سے گزرے کلیجی کی بھینی بھینی خوشبو سے محظوظ ضرور ہونا چاہتا ہے۔ “احساس ” اور “لاش ” ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے ہیں۔

آخر “احساس ” اس لاش کے پاس جاتا ہے۔
“احساس ” اس لاش سے پوچھتا ہے کون ہے تُو اور تیری یہ حالت کس نے بنائی؟۔۔۔
“لاش ” سسکتے ہوۓ بولی کہ یہ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ؟۔میں کچھ ہوتی تو یہ لوگ مجھے اس طرح چھوڑ دیتے؟۔جاؤ پوچھو اس پان والے, کلیجی والے , دفتر والے , چھوٹے, بڑے سے – سب سے پوچھو سب مجھے جانتے ہیں مگر ان سب نے مجھے اس حالت میں پہنچایا۔
“احساس” بولا کہ میرے سوال کا جواب نہیں ملا مجھے کہ تم کون ہو ؟
“لاش ” بولی ۔۔۔
” میں “معاشرہ ” ہوں۔ یہ سڑاندزدہ معاشرہ۔ پہلے پہل میں ہرا بھرا ہوا کرتا تھا پھر ایک وبا نے آ ن لیا۔ اس وبا کو خود غرضی کہتے ہیں۔ اس وبا سے پہلے چوک میں موجود ہر ایک مجھ سے محبت کرتا مگر کیا غضب ہوا، ظلم ہوا، نا انصافی ہوئی۔۔۔۔ ان انسانوں کو میری محبت راس نہ  آئی۔ان کو خود غرضی راس آ گئی۔ پھر انسان مجھ سے الگ تھلگ رہنے لگا اور مجھے یہاں پھینک دیا”۔

“احساس” جیسے ابھی رو پڑے لگا مگر ضبط کرتے ہوۓ بولا کہ ٹھیک ہے انسان الگ ہو گیا۔ اس چوک کا ہر فرد تجھ سے  انجان ہو گیا مگر یہ بیماری تجھے لاحق ہے تیرا جسم جل گیا ہے۔ تو نیم برہنہ ہو گیا ہے۔ یہ سب کیوں اور کیسے ؟۔
“لاش ” بولی ۔۔۔
یہ کس نے کہا کہ صرف میری حالت خراب ہے ؟سب ایسے ہو چکے ہیں۔ سب انسانوں کی یہی حالت ہےمگر کچھ ابھی باقی ہیں سلیم الفطرت جن کے طفیل سانس اور آس باقی ہے۔ورنہ سب ایسے ہیں یہی حال ہے سب کا۔ بس یہی سمجھ لو انسان کی اندرونی حالت میری ظاہر ی حالت ایک جیسی ہے۔ باقی جہاں تک اس حالت کے کیوں اور کیسے کا سوال ہے تو بات یہ ہے کہ میری خوراک بند ہو گئی  تھی۔ اقدار میری خوراک ہے۔ وہ بند ہوگئی  تو میری یہ حالت ہے۔

“احساس ” بولا کہ چل تیرا علاج کرتے ہیں کسی ہسپتال چلتے ہیں۔
“لاش ” بولی ۔۔۔
احساس میاں! تجھے پہلے بتایا ہے کہ معاشرے کی  خوراک اقدار ہوا کرتے ہیں۔ معاشرہ اقدار سے پھلتا پھولتا ہے۔ معاشرہ کی پرورش محبت کے آب ِ حیات سے ہو تو معاشرہ زندہ رہتا ہے۔ مگر یہاں خوراک کی قلت کے ساتھ ساتھ اخلاقی, تعمیری, تعلیمی اور سماجی قحط آیا ہوا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احساس پھر بولا کہ چلو میرے ساتھ علاج کراتے ہیں۔
“لاش ” نے احساس کا سہارا لیا اور نم آنکھوں سے بولی۔۔۔
” پہلے انسانیت کا تو علاج کر لو جو اسٹریچر پر پڑی تعفن پھیلا رہی ہے پھر میرا علاج بھی ہو جاۓ گا”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply