خیال کی تکرار۔۔۔اشفاق احمد

انسانی ذہن، احساسات اور رؤیوں کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی اثرات کا تجزیہ اور ان کو ممکن حد تک مثبت نتائج کی طرف موڑنا میرا کام ہی نہیں بلکہ ایک دلپسند مشغلہ ہے۔
آج کے تناظر میں خیال کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔ خیال ایک بہت بڑی قوت ہے۔ کسی بھی کام کا اولین محرک یا یوں سمجھ لیں کہ پری پلانر یہی خیال ہے۔ یہ کہاں سے آتا ہے؟ اور اس کا منبع کہاں ہے؟ یہ سراسر وہ علم ہے جس کو ہم مادی ذرائع سےسمجھنے میں ناکام ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ دماغ کی کارستانی ہے۔ ان کی بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے کہ دماغ ہی رو بہ عمل ہوتا ہے۔ جسم کے حیوانی تقاضوں کی تکمیل میں یقینا اسی کا عمل دخل ہے۔ ہمیں جب خوراک کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ دماغ اور اینڈوکرائنز کا ایک مشترک پیچیدہ نظام ہی ہوتا ہے جو بھوک کے خیال کو جنم دے کر تلافی کرتا ہے لیکن حیوانی تقاضوں سے تھوڑا اوپر اٹھ کر جب ہم نفسیاتی اور معاشرتی سطح پر انسان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سطح پر دماغ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ماضی کے تجربات یا پے درپے ہونے والے تجربات کو سٹور کرکے پھر آنے والے خیال کو انہی تجربات کی روشنی میں محض پراسس کرتا ہے گویا تجربات ہمارے تحت الشعور اور لاشعور میں جمع ہو کر ان آنے والے خیالات کے لیے ایک کسوٹی بن جاتے ہیں۔ پراسس کرنے کا یہ عمل صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ کیونکہ اس عمل کے ساتھ موجود علم یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سمجھنے کی سطح کیا ہے؟ ہم یہ بات بھی چھوڑ دیتے ہیں اور انتہائی سادہ طریقے سے آج کے مسئلے یعنی وبا کے دنوں میں موجود خوف کی بات کرتے ہیں۔ تو اس خوف کا پیدا ہونا فطری ہے کہ انسان کے اندر fight & flight response کا ایک قدرتی neuro-endocrinal نظام کار فرما ہے جس کا بنیادی کام ہی “بقاء کے لیے مزاحمت” ہے۔ یہ مزاحمت خوف، غصہ، حرکت میں آنے اور فیصلہ کرنے جیسے محرکات کا سبب بنتا ہے۔ اگر یہ اپنی حد میں رہے تو لازم ہے لیکن یہاں عموما ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے اندر ہی اندر اس مزاحمت کا قائم رہنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ مطلب کسی بھی مسئلے کے لیے مزاحمت کے طور پر یہ نظام تحریک میں آجاۓ لیکن مسئلہ بدستور قائم رہے یا مسئلہ گو کہ ختم ہو جائے لیکن اس کے مابعد اثرات خوف یا تلخی کی صورت قائم رہ کر ہمارے تحت الشعور یا لاشعور میں جمع ہو جاتے ہیں اور آئندہ آنے والی کسی بھی کیفیت میں ساری کہانی ٹھیک وہیں سے شروع کرنے کا سبب بنتے ہیں جہاں پر یہ ختم ہو گئی تھی۔ لہذا آج دیکھیے اس وبا سے خوف زدہ لوگوں میں موجود خوف کی کمی بیشی کا خود اندازہ لگا لیجیے۔ فطری خوف تو یقینا ًہے لیکن بعض افراد میں خوف کی شرح تکلیف دہ حد تک ذیادہ ہے۔ جن میں زیادہ ہے ان کے ہاں ماضی میں موجود خوف کی کیفیت جن کے اثرات کو بر وقت نہیں نکالا گیا لہذا نتیجے کے طور پر وہ لاشعور میں کہیں دبی ہوئی تھی، وہ ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں۔ کیونکہ اگر ایک طرف یقینی خطرہ موجود ہو تو آپ محض طفل تسلیوں سے مسئلے کا تدارک نہیں کر سکتے نا ہی سارا الزام ماضی پر دھر کر بری الزمہ ہو سکتے ہیں بلکہ کوئی  ایسا حل سوچنا لازمی ہوتا ہے جو تدارک یا ممکنہ حد تک کمی کا سبب بنے۔ میرے ناقص علم کے مطابق یہاں جو وجہ خوف کی بن رہی ہے وہ ہے”خیال کی تکرار” یعنی persistent repitition of thoughts. کسی بھی خیال کو آپ بار بار یاداشت کے خانے سے نکال کر دہراتے جائیں وہ یقیناً  اثرات پیدا کرتی ہے اور جذبات کے ابھار کا سبب بنتی ہے۔ منفی یا مثبت وہ اس خیال پر منحصر ہے۔ psycho neuro endocrino immunology طب کی باقاعدہ ایک شاخ ہے جو ان اثرات کا گہرائی  میں مشاہدہ اور مطالعہ کرتی ہے اور اس بات پر متفق ہے کہ خیال کی صورت دماغ میں پنپنے والا محرک جسم کی کمیسٹری یعنی ہارمونل نظام کو متاثر کرکے قوت مدافعت پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ آج ہم اس کی کئی  مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے مریضوں نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا اور شکایت کی کہ جب سے وبا کے بارے میں سنا ہے گلے میں درد سا محسوس ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا بخار کی سی کیفیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اسی تکرار کی کار ستانی ہے۔
ان دنوں کرنا بس یہ ہے کورونا کے زیر اثر بننے والے خیالات کی تکرار بند کر دیجیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ خوف کا محرک خاموش پڑ جائیگا۔
بار بار خبریں سننا اور تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رہنا چھوڑ دیجیے۔ آپ جان کر بھی کیا کر لیں گے؟؟
بلکہ خبریں سننا ہی چھوڑ دیں۔ آپس کی گفتگو میں کورونا کو موضوع بنانا چھوڑ دیں۔ آپ کی ذمہ داری احتیاطی تدابیر تک تھی جو آپ کر چکے اور اگر نہیں کی تو کر لیجیے۔ خیال تو آئیگا ضرور آئیگا لیکن اس خیال کو ہم نے treat کیسے کرنا ہے؟ وہ ہم پر منحصر ہے۔ کسی منفی خیال کو کسی مثبت خیال کی تکرار میں بدل دیجیے۔ جونہی وبا کا خیال آئے خدا سے بار بار دعا کیجیے لیکن دعا کے دوران بھی تصور وبا کا نہیں بلکہ خدا کی رحمت کا کیجیے پھر دیکھتے جائیے اور یہ جو مسنون دعائیں اذکار کی صورت ہم بار بار دھراتے ہیں یقین رکھیے کہ یہ مثبت خیال کی تکرار کا سبب بن کر آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھیں گی۔ آنے والے اچھے دنوں کا خیال کرکے بار بار اسے دھیان سے گزاریں تو یہ بھی ایک مثبت تکرار بن جائے گی۔
اور ایک خاص بات سن لیجیے خیال ہی عمل اور نتیجے کا بیج ہے۔ آپ جو سوچیں گے جو تصور کریں گے اور پھر بار بار سے دھرائیں گے تو وہ آپکے آنے والے کل پر ہر صورت اثر انداز ہونگے۔ شعوری احساس کے ساتھ مثبت خیالات کی تکرار کرنا شروع کردیں تاکہ لاشعور کے خانوں میں موجود خوف کے سارے بت مسمار ہو جائیں۔
تسلیم کہ شروع میں ذرا مشکل ہے لیکن بار بار کی مشق صرف تین دن میں اپنے اثرات دکھا دیتی ہے۔ آپ کے اندر خوف سے آزاد مثبت تبدیلی میں ابھی سے دیکھ رہا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply