داعش خطے کیلئے خطرے کا نشان

دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک گذشتہ چند برسوں میں جس انداز سے فعال ہوا ہے وہ صرف پاکستان ہی کے لیئے نہیں تمام دنیا اور مہذب سماج کیلئے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ۔ مغربی یورپ سے امریکہ تک جہاں ان دہشت گرد جتھوں کی تنظیم موجود نہیں ہے وہاں بھی دہشت گرد کاروائیوں کی ساخت کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا قطعی طور پر دشوار نہیں کہ اب ان تنظیموں کی بنیاد پرست اور انتہا پسند سوچ کے برعکس ان کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے وہ پراپگینڈے کے جدید ترین ذرایع پر بھی عبور رکھتے ہیں اور سوشل مڈیا ہی کے ذریعے انکا نظم قائم ہے ۔ اس کے علاوہ وہ جدید ترین ہتھیاروں اور کسی حد تک ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ ہیں ۔
ماضی کے برعکس ان جنگجو جتھوں کو ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کا تعاون بھی حاصل ہے جو کہیں نظریاتی وابستگی کی وجہ سے ہے اور کہیں اس تعاون کیلئے خطیر رقم معاوضے کے طور پر ادا کی جارہی ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے نیم خواندہ قبائل میں جنم لینے والے طالبان کی نسبت اسامہ بن لادن اور الزواہری کی القاعدہ نے جدید ترین ٹیکنالوجی کو تخریبی سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی ابتدا کی جسے داعش نے انتہا تک پہنچا دیا ۔
ہر خطے میں ابھرنے والی اس نوعیت کی جنگجو تنظیموں کی ابتدائی کہانی بیشک ایک دوسرے سے مختلف ہو مگر نائجیریا میں بوکوحرام سے مشرق وسطی میں داعش اور القاعدہ تک اور وہاں سے افغانستان و پاکستان میں طالبان تک جو چیز ان تمام جنگجو جتھوں میں مشترک ہے وہ ان کی انتہا پسند سوچ ہے جسے یہ طاقت کے زور پر تمام دنیا میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان جنگجو جتھوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو کسی محدود جغرافیائی حدود یا کسی خاص خطے تک سمجھنا ایک سنگین ترین غلطی ہوگی ۔ مغربی یورپ اور امریکہ کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس سوچ کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی بھی موثر پیش بندی کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔
چند روز پہلے تک بھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب اپنی اس ضد پر قائم تھے کہ پاکستان میں داعش کا قطعی طورپر کوئی نیٹ ورک نہیں اور ہم نے پاکستان میں داعش کے داخلے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں ۔ گو کے کوئیٹہ میں پولیس ٹریننگ اسکول اور سہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی مگر اسکے باوجود وزیر داخلہ صاحب اپنے موقف پر قائم رہے ۔
گذشتہ روز وزیر داخلہ صاحب کو اس وقت اپنے زمینی حقائق کے بر خلاف موقف کا بھرپور جواب مل گیا جب ملتان شہر میں کچھ نامعلوم افراد ایک شخص کی زنجیر سے بندھی لاش پھینک کر فرار ہوگئے ۔ مقتول کو کیوبا میں قائم بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے کے قیدیوں کا سا لباس پہنایا گیا تھا اور مقتول کی قمیض پر لکھا ہوا تھا
” داعش پاکستان نے آئی ایس آئی کے جاسوس کو قتل کیا ہے ” پیغام کے آخر میں مقتول کو اغوا کرنے کی تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی ۔ مقتول کی شناخت عمر مقبول گیلانی کے نام سے کی گئی ہے جو آئی ایس آئی کے انسداد دہشت گردی یونٹ میں کام کرتا تھا اور دوران ڈیوٹی اسے تین سال پہلے گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا گیا تھا ۔
ملتان سمیت جنوبی پنجاب کا یہ وہ حصہ ہے جہاں انتہا پسند مذہبی تنظیمیں بہت زیادہ فعال ہیں اور دہشتگردی کے خلاف لانچ کیئے جانے والے حالیہ آپریشن ” رد الفساد ” کا مرکز بھی جنوبی پنجاب ہی ہے ۔
وائس آف امریکہ کے مطابق پاکستانی حکام کو شک ہے کہ کالعدم لشکرجھنگوی نے داعش کی مقامی شاخ خراسان گروپ کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہے جو افغان سرحدی علاقوں سے آپریٹ ہو رہی ہے ۔ یہاں اگر بات اب تک شک و شبہہ تک ہی محدود ہے تو یہ باعث حیرت ہے ۔ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد لشکر جھنگوی نے لشکرجھنگوی العالمی بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضع کیا تھا کہ اسے داعش کی مکمل معاونت حاصل ہے ۔ اس سے قبل پاکستان اور افغانستان کی تحریک طالبان کے فعال ترین دھڑے داعش کی اطاعت کا اعلان کر چکے ہیں ۔ ایسے میں وزیر داخلہ ، حکومت یا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ایسا کوئی موقف جس میں داعش کی موجودگی سے یکسر انکار ہو سمجھ سے بالا تر ہے ۔
اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ داعش پاکستان میں آ کر آفس کھول کر چندہ کرئے گی اور بھرتیوں کا آغاز کرئے گی تو ایسی عقلوں پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ داعش اس وقت پراپگینڈے کے تمام دستیاب ہتھیار استعمال کر رہی ہے اپنے نظریات کے فروغ کیلئے ، ہر مسلح جنگجو کو باقاعدہ تنخواہ ادا کی جارہی ہے یورو، ڈالر ، ریال اور دینار میں سوشل مڈیا کا کوئی ایسا کنارہ نہیں جو اس تنظیم کے پراپگینڈے سے خالی ہو ویب سائٹس سے ویب ٹی وی تک کا استعمال ہو رہا ہے اسکا اثر قبول کرنے والوں میں ایک نہایت قلیل تعداد دو سے پانچ فیصد تک عام افراد کی ہے جب کہ ہر خطے میں پہلے سے موجود مذہبی انتہاپسند نوے سے پچانوے فیصد تک اس جانب راغب ہو رہے ہیں ۔ گذشتہ برس نصف درجن کے قریب روشن خیال لبرل بلاگرز کو بنگلہ دیش میں سر عام قتل کر دیا گیا اور ہر قتل کی ذمہ داری داعش نے یہ کہہ کر قبول کی کہ جماعت اسلامی بنگہ دیش داعش کے اہداف کامیابی سے حاصل کر رہی ہے ۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا انتہا پسند دھڑا غیر اعلانیہ طور پر داعش کی اطاعت کر رہا ہے تو یہاں پاکستان میں لشکر جھنگوی اور طالبان تو وہ کالعدم تنظیمیں ہیں جو اس اطاعت کا با قاعدہ کئی بار اعلان کر چکی ہیں اور دیگر جو شدت پسند مذہبی عناصر اس جانب راغب ہو رہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں ۔
شدت پسندوں کے خلاف ریاستی آپریشن جاری ہے جسے اور موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ
(1) نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے تمام اداروں کو فی الفور بند کیا جائے ۔
(2) کسی کالعدم جماعت کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے اور انکے تمام ہمدردوں کو خواہ وہ سیاستدان ہوں یا کسی بھی ادارے سے وابستہ انکے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔
(3) نیشنل مڈیا کیلئے ایک قومی پالیسی بنا کر اسے فالو کرنا لازم قرار دیا جائے جو انتہا پسند سوچ کو کاونٹر کرنے کیلئے فی الواقع ایک موثر کردار ادا کرئے اور تمام ایسے نیم دانشور تکفیری سوچ کے حامل عناصر کو نیشنل مڈیا پر بین کیا جائے جو ایک گھنٹے کے پروگرام میں 59 منٹ انتہا پسندی کی سوچ کو فروغ دیتے ہیں اور ایک منٹ میں داعش طالبان کی مذمت کر کے ضابطے کی کاروائی پوری کر دیتے ہیں ۔
(4) معاشرے کے عام فرد اس زہریلی سوچ کی جانب راغب نہ ہوں اسکے لیئے ضروری ہے کہ کراچی سے خیبر تک بلوچستان سندھ ، جنوبی پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور کراچی کے عوام میں پائے جانے والے فرسٹریشن کو ختم کرنے کیلئے سیاسی تدابیر اختیار کی جائیں سیاسی معاملات کو سیاسی انداز مٰیں ہر صورت حل کیا جائے ۔ سیاست اور کرائم کے درمیان امتیاز کیا جائے ایک نظر آنے والی حد فاصل قائم کی جائے ۔ کسی سیاسی گروہ ، سیاسی جماعت یا مخصوص مسلک کو انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔ یہ بہت زیادہ توجہ کا حامل نقطہ ہے کہ ایک پہلے سے فرسٹریشن کے شکار ذہن کیلئے داعش جیسی تنظیموں میں بہت زیادہ کشش موجود ہے ۔
داعش اس خطے کی تمام شدت پسند تنظیموں کو ایک پرچم تلے جمع کرنے کیلئے عملی طور پر سرگرم عمل ہے جسکا مقصد دنیا کی تباھی نہیں خود اس خطے کیلئے ایسا جہنم تیار کرنا ہے جس میں جو کچھ بچا ہے وہ بھی جل کر راکھ ہو جائے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply