بقائن۔۔۔قسط4/محمد خان چوہدری

پیش لفظ:ماضی کے ایسے کھنڈرات دیکھ کے، بچپن میں سُنی کہانیاں تصور میں لا کے، واپس اسی زمانے میں جا کے، اس وقت کے واقعات کی منظر کشی لکھنے کی سعادت کسی بھی لکھاری کے لئے ، بیک وقت ایک انعام اور امتحان ہے، راقم اس میں کبھی ڈوب جاتا ہے کبھی تیرنے لگتا ہے، اس کیفیت میں یہ بقائن کی چوتھی قسط مرتب ہوئی، شکیلہ کی ماں کی کایا پلٹ ، اس کے باپ کا ردعمل کیوں اور کیسے تھے ! اور خود وہ کس عذاب سے دوچار ہے ؟ کہانی آگے بڑھتے رُک رُک جاتی ہے!

شکیلہ کے ابا نے اپنی شادی سے اب تک گھر کے اندر زندگی ایک مزارعے کی طرح گزاری ۔ آج شکیلہ کا رشتہ ماموں کے ہاں طے ہونے کے بعد پہلی بار اسے گھر کے سربراہ کے اختیارات گھر کے معاملات میں استعمال کرنے کا موقع  ملا۔۔۔ورنہ اس کی چوہدراہٹ اپنی بیٹھک سے اندر آتے ختم ہو جاتی، سو بیگھے زمین اور ڈھوک شرفو والوں کی بیٹی ہونے کے احساس برتری سے شکیلہ کی ماں خاندان میں چوہدرائین تھی۔ لیکن پچھلی رات کی گفتگو نے اسے اپنے شوہر کے مقام سے اتنی آگاہی دی کہ وہ اپنے مجازی خدا کے آگے دل و جان سے سرنگوں ہو گئی۔

اگلے تین دن گاؤں میں میلے کی رونق رہی، شکیلہ کے ابا کی علاقے میں تو بہت عزت اور مقام تھا، تعلقات تھے اور میلے پر آنے والے دوستوں کا بیٹھک پہ  رش رہا، دوسرے دن شاہد اور شوکی بائیک پہ  آن پہنچے۔
ادھر چوہدری فیروز نے بھی اس رات گھر پہنچ کے بہن کی محبت میں اس کی وقتی کیفیت کا سوچ کے انہیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، ان کے آنے سے شکیلہ کی ماں تو خوشی سے نہال ہو گئی،یوں میلہ ختم ہونے تک دونوں گھروں میں سکون ہو گیا، شاہد اور شکیلہ کا آمنا سامنا تو ہوتا رہا ، جذبات کی لہریں بھی مدوجزر لیتی رہیں، شوکی اور شاہد نے کھانا بھی حویلی کے اندر کھایا، شوکی دونوں کے درمیان چٹکلے سناتا رہا پر اب شکیلہ کی ماں ان کی تخلیے  کی ملاقات سے گریزاں تھی، شاہد نے اپنے والدین کی طرف سے انہیں اگلی اتوار کو ڈھوک شرفو آنے کی باقاعدہ دعوت دی، اور ساتھ سب قریبی رشتہ داروں کو لانے کو کہا، تعداد کا اندازہ سو کے لگ بھگ نکلا ۔

مصنف:محمد خان چوہدری

شوکی کی خواہش تھی کہ رات وہاں رُک کے مجرا دیکھا جائے، جو وہ سالوں سے دیکھتے آئے تھے ، اور دوست بھی آنے والے تھے، لیکن شکیلہ کی ماں نے بہت پیار سے شام کی پُرتکلف چائے پلا کے، دونوں کے ہاتھ میں پانچ پانچ سو روپے پکڑا کے رخصت کر دیا، ساتھ بائیک کے کیرئیر پہ  گفٹس کی گٹھڑی بندھوا دی،شوکی نے اس وقت اپنا جملہ گھڑ کے ٹھوک ہی دیا۔ ،، پھوپھی منگایا بھتیجا، تے یار بھگتن نتیجہ ۔۔
ڈھوک شرفو جب آباد کی گئی تو اس زمانے میں بنیادی مسئلہ حفاظتی حصار کا تھا، علاقے کے بڑے بارشی نالے جسے”سرولی” کہتے تھے ، اس میں جس مقام پر اس کا بہاؤ نصف قوس کی شکل میں تھا وہاں ایک ٹیلے پر ڈیرہ بنا،جنوب میں آدھ کوس پہ  نالے کا پاٹ موڑ لیتے، چٹانوں کے بیچ بہت کم تھا ،وہاں سے اسے عبور کرنے کا راستہ تھا۔۔
بعد میں بتدریج زمین ہموار ہوتی رہی گاؤں پھیلتا رہا، اب اس کے  تین حصے تھے۔
پورے ایکڑ کی حویلی میں پرانی رہائش اب مہمان خانہ تھی ، تھوڑے نیچے لیول پہ  زنان خانہ اور بیٹھک تھی، جن کے ساتھ گلی کے دوسری طرف اصطبل ، مویشیوں کے لئے کھلے صحن میں برآمدے تھے ،ان میں نوکروں کے رہائشی کمرے بھی تھے۔
اس سے نیچے چوہدری کے ساتھ آنے والے مستری ، مزدور پیشہ، اور دوستوں کے گھر آباد ہوئے ، سروُلی نالہ کٹاؤ کرتے شرق کی جانب بہنے سے بہت وسیع جگہ بن گئی، وہاں سکول بنے، بازار قائم ہوا، دوسری طرف ڈاک بنگلہ بنا تھا۔
سڑک اس بنگلے تک آتی تھی، مہمان خانے تک پختہ گلی تھی جس سے کار جیپ آسانی سے گزر سکتی، اور مہمان خانے کے صحن تک جاتی ،
یہاں سب تعمیرات گاؤں کے مٹیریل سے ہوئیں، ریت نالے سے، پتھر کھیت بناتے چن کے اور چٹانیں توڑ کے ،چھیل کے، دندی کی مٹی کا گارہ، عقبی پہاڑی سے چونے کے پتھر کا پیس کے سیمنٹ، شیشم، بیری، پھلائی اور کیکر کے درختوں کی لکڑی، پھر آٹا پیسنے کی چکی، آرا مشین، اور چونے کی بھٹی بھی لگا لی گئی، شروع میں قدرتی چشموں کا   پانی بہتات میں تھا، بعد میں کنویں بھی کھودے گئے، جن پہ  سبزی اور چارہ بھی کاشت ہوتا۔
گاؤں میں اب چھٹی ساتویں نسل آباد تھی لیکن ماحول ایک توسیعی خاندان کا تھا، جس کے چوہدری فیروز فگر ہیڈ تھے۔اس ماحول میں یہاں شکیلہ کی پرورش ہوئی  تو وہ اپنے ماں باپ کے گاؤں جہاں روایتی دیہات کا ماحول تھا،اس میں کچھ زیادہ خوش نہیں  تھی

شاہد اور شوکی کی ا س شام واپسی اسے اچھی نہیں  لگی تھی،وہ تو شاہد کی نوکرانی کے ساتھ شب باشی میں گزری راتوں کے حسد میں جل رہی تھی،اس کی ماں کا یہ طعنہ کہ اس نوکرانی  کے پاس کیا ہنر ہے، اس کے ذہن میں گونجتا رہتا ۔۔
رشتہ طے ہونے کے اعلان تک تو شکیلہ اور اس کی ماں یہ ہونے پہ  یکسو تھیں کہ ہو جائے !جب ہو گیا تو ماں تھوڑی سی اپنے شوہر کی معاونت اور ہدایت سے شکر گزار ہو گئی اور اتنی بڑی نعمت کہ بیٹی اس کے میکے گھر بیاہ کے جائے گی اس کا ادراک ہونے سے اس کا ذہن ہی بدل گیا۔
لیکن شکیلہ کے لئے جیسے ہی شاہد سے منسوب ہوئی  وہ اس کی ذاتی ملکیت بن گیا، تو اس کی پہلے کی ہر غلطی پر اب سزا دینی لازم ہو گئی، ملازمہ ہر وقت اس کے ذہن میں یاد کا پھن اٹھائے نظر آتی،اس کے لاشعور میں پکتا لاوہ  اسے بے چین کیےرکھتا، شاہد اس روز رک جاتا، ان کی تنہائی میں ملاقات ہوتی تو وہ یقینی طور پر  اس کے بخیے ادھیڑ دیتی، ماں نے یہ موقع  نہ دیا تو اب ماں اس کا ٹارگٹ تھی،اس شاہد کا غصہ اس سے لڑنے میں نکالنا شروع کر دیا، سارا دن بحث کرتی، کبھی برتن توڑ دیتی، ہر وقت یہ چخ چخ کرتے دو دن گزرے ، ابا تو اگلے اتوار ڈھوک شرفو جانے کی تیاری میں باہر مصروف تھا، حویلی میں ماں بیٹی کی تکرار اس حد تک پہنچی کہ نوکرانیوں کی موجودگی میں شکیلہ نے چیختے چلاتے ماں، ماموں ممانی اور شاہد کو بہت بُرا بھلا کہتے، اعلان کر دیا کہ وہ یہ شادی نہیں  کرے گی ۔۔
ماں نے اس کے منہ پہ  تھپڑ جڑ  دیا، ایک بزرگ ملازمہ شکیلہ کو چھڑا کے اس کے کمرے میں لے گئی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply