ہیں کواکب کچھ/ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایک عمومی رائے ہے کہ وہ مرد حضرات جو تن سازی یا کشتی گیری کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور مسلسل اس کی مشق کرتے ہیں، ان کے اعضائے تناسل اپنے حجم میں عام افراد سے کم ہوتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے  کہ اوسطاً حجم سے زیادہ نہیں ہوتے، استثنات ہو سکتی ہیں۔
یہ رائے بے وزن نہیں اور حقیقت کے بہت قریب ہے، لیکن اس کی وجہ وہ نہیں جو اکثر سمجھی جاتی ہے کہ چونکہ جسم کی توانائی اور خون کی گردش جسم کے دوسرے پٹھوں کو منتقل ہوجاتی ہے، اس لئے اہم عضو فاقوں پہ گزارا کرتا ہے، ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہے کہ خون کی گردش جسم کے کسی خاص حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے باقی حصوں کو بہتر خوراک پہنچائے۔
اس کے پیچھے وجہ دوسری ہے، جو لاشعور سے جڑی ہے، یہ وہ مرد ہیں جو بچپن یا لڑکپن میں ہی اپنے مخصوص عضو کے حجم کی کمی کو محسوس کرتے ہیں، اور اس “مردانہ کمی” کی تلافی کیلئے جسم کی باقی ماندہ مردانگی کو بڑھانے کیلئے جسمانی کھیلوں میں کود پڑتے ہیں ۔ یعنی معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ تن سازی کا انتخاب کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو خاص عمر میں کہیں کوئی ،ان کی نظر میں، کمی پاتے ہیں ۔
یہ لاشعور ہے جو اپنے اندر کے وصف یا کمی کو چھپانے کیلئے ظاہری شعور کو خاص لباس دے رہا ہے۔

اکثر سننے میں آتا ہے کہ سرجن چونکہ انسانوں کی مستقل چیر پھاڑ کرتے رہتے ہیں، اس لئے ان کے مزاج میں سختی اور بے حسی وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے، یہ بات بھی درست نہیں، درحقیقت سرجری کی طرف جاتے ہی وہ لوگ ہیں جن کے لاشعور میں تشدد کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، یعنی لاشعوری طور پر فرد تشدد کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، لیکن تعلیمی ماحول اور اچھی سماجی اقدار میں پرورش کی وجہ سے وہ جرائم کی بجائے خدمتِ خلق کا راستہ اپناتے ہوئے سرجری یا دندان سازی کی طرف جائے گا، کیونکہ اس فیلڈ میں اسے اب ” قانونی تشدد” کا لائسنس مل جاتا ہے۔ استثناء یہاں بھی ممکن ہے۔

تیسری مثال جو پہلے بھی کئی دفعہ دی جا چکی کہ وہ افراد جن کے لاشعور میں بزدلی کا عنصر موجود ہے، وہ اسے چھپانے کیلئے گھنی مونچھیں رکھیں گے، سر پہ بھاری شملہ چڑھائیں گے اور مولا جٹ سٹائل میں بات کریں گے، تاکہ لاشعور میں موجود عنصر کی ظاہری وجاہت سے تلافی کی جا سکے ۔ یہاں بھی استثنات پائی جاتی ہیں ۔

شعور اور لاشعور کی آنکھ مچولی بڑی دلچسپ ہے، جو چیز یہاں ہے وہ وہاں نہیں ہے، اور جو وہاں ہے یہاں نہیں ہے ۔

اس معاملے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ فرد خود یہ چیزیں سمجھ نہیں پا رہا ہوتا، اپنے رویوں کو وہ صحیح کسوٹی پر تولنے سے قاصر رہتا ہے، بس گویا کہ ناسمجھی میں وہ کوئی ایسا انتخاب، کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جو اس کے اندر کے چور کو بے نقاب کرتی ہے۔

یہ ساری تمہید ایک خاص مقصد کیلئے لکھی گئی، کئی وقتوں سے مسلسل ایک تلخ مشاہدہ کرتا آرہا ہوں، اس مشاہدے پر ہمیشہ خاموش رہا اور خاموش رہنا چاہتا تھا ، لیکن بلڈ پریشر کے ہاتھوں مجبور ہوکر بالآخر اپنا پیغام قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
پیغام کا پہلا حصہ مستورات کے نام ہے، ان مستورات کے نام جو آئے دن جارحانہ انداز میں پوسٹ کرتی رہتی ہیں کہ
“انباکس میں آکر اپنی اصلیت نہ دکھائیں ”
” مجھ سے انباکس میں بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں”
” میری شادی بارے مجھ سے بار بار مت پوچھیں کہ ہوئی یا نہیں ”
“کیسا دور آگیا ہے،  نجانے کیوں لڑکے سمجھتے ہیں کہ بات کر لی تو گرل فرینڈ بن گئی ہوں ؟ ”
” خدا کیلئے مجھے میسج مت کریں، جسے دیکھو انباکس چلا آتا ہے ”
اب یہاں بھی استثناء ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے،
ایسے واقعات میں چلیں اچھا ہے کہ ایک آدھ دفعہ ایسی پوسٹ کرکے آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔
لیکن اس کا متعدد بار دہراتے جانا، شعوری سطح پر بار بار اپنے کردار کا ڈھنڈورا پیٹنا دراصل آپ کے لاشعور میں چھپی اس attention seeking psychology کا شاخسانہ ہے، جسے آپ ایسی پوسٹس سے عیاں کر رہی ہیں ۔ یعنی آپ دعوت دے رہی ہیں کہ ایسی چھیڑخانی مجھے اگرچہ غصہ دلا سکتی ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم یہ چھیڑ خانی کرتے رہو، تم نہ بھی کرو تو میری پوسٹ پر بہت سارے سکہ بند”بھائی” تسلی دینے آجائیں گے، فی الحال انہی پہ گزارہ کر لیا جائے گا ۔

لاشعور میں اگر کہیں کوئی الجھن نہیں ہے تو ایسے میں سادہ سا رویہ یہ ہوگا کہ کسی بدتمیز کے کچھ نامناسب لکھنے پر آپ اسے بلاک کریں، اگنور کریں اور آگے کو چلیں۔

پیغام کا دوسرا حصّہ ان حضرات کے نام ہے جو کسی خاتون کی ایسی شکوہ بھری پوسٹ پہ وارد ہوتے ہیں ، انہوں نے گویا مستورات کی دادرسی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہوتی ہے، یہ حضرات قلم میں غصے اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات سجائے خونِ دل سے لکھتے ہیں،
” بہن آپ پریشان نہ ہوں، ہمارا سارا معاشرہ ہی ایسا ہو چکا ہے ”
” بہن ، بس کس سے شکایت کریں، یہ ان کے والدین کی غلط تربیت کا نتیجہ ہے”
” ان کے گھر میں شاید ماں بہنیں نہیں ہیں جو ایسی چھچھوری حرکتیں کرتے ہیں ”
“ہمارا سماج درندہ بن چکا ہے، یہ معاشرہ اب آپ جیسی سلجھی ہوئی لڑکیوں کے قابل نہیں رہا میری بہن ”

ایسے حضرات کی تین اقسام ہیں، ایک وہ جو نیوٹرل ہیں، کوئی بُری نیت نہیں رکھتے، ایسی کسی پوسٹ پہ کوئی معتدل سا کمنٹ دیں گے کہ متاثرہ خاتون کی حوصلہ افزائی ہو سکے، خاتون کی طرف سے پوسٹ مسلسل دہرائی جائے گی تو زیادہ سے زیادہ ایک آنسو والا ایموجی دے کر پیچھے ہٹ جائیں گے۔

دوسرے وہ جو جانتے ہیں کہ وہ بھیڑیئے ہیں، لیکن جان بوجھ کر بھیڑ کی کھال اوڑھ لیتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہیں، بین الحروف سیڑھیوں پر دھیمی آواز سے شکار کی طرف بڑھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تیسری قسم وہ ہے، جو اپنے شعور میں خود کو واقعتاً معصوم بھیڑ سمجھتے اور مانتے ہیں، ان کی ہمدردی بھی دل سے ہوتی ہے، لیکن لاشعور میں وہ بھیڑیئے ہوتے ہیں ، وہ منتظر رہتے ہیں کہ ایسی کوئی پوسٹ نظر سے گزرے اور وہ پوری شدت سے اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں ۔
دلاسے پہ دلاسہ دیتے ہوئے رال میں بھیگے کمنٹس ایسے حضرات کی نفسیات میں چھپی تاریک خواہشات کی چغلی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply