موٹے موٹے شیشوں کے پیچھے آنکھیں اتنی اندر کو دھنسی ہوئی تھیں جہاں سے مزید پیچھے جانا شاید ممکن نہ تھا۔ گال یوں جیسے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے سامنے خالی کشکول ہوتے ہیں۔ رنگت زندگی کے زرد موسم کا پتا دیتی تھی۔ سپیدی و سرخی ، لہو نامی جس مائع سے آتی ہے وہ یہ لوگ اس نظام کو فدیے کے طور پر دیتے ہیں۔ پھیپھڑوں کو ہوا سے آکسیجن مفت میں نہیں ملتی۔ بھوکے بندے کو لحیم شحیم ہو کر رزق کی تقسیم کا توازن خراب نہیں کرنا چاہیے اس لیے اسکا جسم منحنی سا تھا۔ قد بت کے لحاظ سے یوں جیسے اسے کسی نے اپنی اوقات میں رکھا ہو۔
یہ افلاس کا ایک سفیر تھا۔ اسکے جسم میں شاید اتنی بھی مٹی استعمال نہ ہوئی ہو جتنی ایک سیمنٹ کی بوری بنانے کے لیے ہوتی ہے بحرحال وہ جھاڑو پکڑے سارا دن صفائی کرتا رہتا ،وہ وہاں ایک سویپر تھا۔ نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ ویسے یہ لفظ بھی چن کر رکھا گیا۔ غریب لوگ زمین کی بھرتی ہی ہوا کرتے ہیں۔
باقی اپنا کام جلدی جلدی ختم کر کے کہیں بیٹھ کر گپیں ہانکتے چائے کا تھرماس خالی کرتے وہ لگا رہتا ، ایک جگہ کو بار بار صاف کرتا۔ ہمارے دفاتر وہاں بیسمنٹ میں ہوا کرتے۔ ایک دن میں اسکے پاس گیا۔ پوچھا نام کیا ہے ؟ (جو اس نے بتایا میں بھول گیا ، اور خاکزاد سے بہتر کوئی نام کیا ہو)۔ کہنے لگا خاکزاد۔ میں نے پوچھا۔ یار ایک بات بتاؤ۔ باقیوں کی نسبت زیادہ کام کیوں کرتے ہو ؟ شرمندہ سا ہو کر کہنے لگے۔۔وہ ۔۔۔وہ مجھے دراصل ۔۔۔نظر کم آتا ہے۔۔آنکھوں کے آگے جالے سے رہتے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی ٹائلیں گندی ہوں۔ نیا نیا ہوں کہیں نکال نہ دیں۔
مجھے یوں لگا کسی نے مجھے انہی چمکتی ہوئی ٹائلوں پر پٹخ دیا ہو۔ جیسے یہ ٹائلیں نہیں انسانی احساسات کی قبروں کے کتبے ہوں۔ چمکتی ہوئی ٹائلوں پر دو بوندیں آنکھوں سے ٹپک کر گریں جن میں مجھے اپنا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے خود سے منہ چھپا لیا۔
اسکے بعد مجھے اس سے محبت سی ہو گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی جب اپنی تین دن کی ڈیوٹی کے دوران میں اسکے ساتھ وقت گزارتا ، اسکی صفائی کے دوران غیر محسوس سے انداز میں قریب جاتا اور اسے بتاتا کہ یہ جگہ صاف ہو چکی آگے چلو اب۔ وہ دفتر میں پہلے پہل آتے جھجھکتا پھر پر اعتماد ہو گیا۔ وہ میرا دوست بن گیا تھا۔
تب سوشل میڈیا کا سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا۔ میں نے بھی فیس بک نئی نئی استعمال کرنی سیکھی تھی۔ پوسٹس میں رومن میں لکھا کرتا تھا۔ خاکزاد کی وہ خوشی میری روح میں سرایت کر گئی تھی جب اس نے میرا فیس بک فرینڈ بننے پر اظہارِ مسرت کیا تھا۔ وہ میری نظمیں دیکھ سن کر مجھے بڑے معصوم انداز میں داد دیتا۔ موبائل کو غور سے دیکھتے دیکھتے جب وہ موبائل کو بالکل آنکھوں کے پاس لے جاتا تو ادھر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگتا۔ ایک نگاہ میں آسمان کی طرف کر کے کہتا ، بخت کے اندھیرے ہی کافی تھے آنکھوں کی روشنی بھی پوری نہ دی اسے اے ناظر و بصیر خدا۔
اپنی دادی اماں کے لیے خطوط لکھنے سے تب خاکزاد کی وال کے لیے پوسٹ لکھنے تک کا سفر کئی مماثلتیں رکھتا تھا۔ میں نے اسے رومن لکھنا سکھائی ، سپیلنگ جوڑنے سے بننے والی آوازوں کا بتایا۔ وہ بہت ذہین تھا اسکی پیکنگ پاور بھی شاندار تھی۔ چند دن میں پوسٹیں لکھنے لگا۔
اور پھر وہ لمحہ جب ایک رات گھر میں ایک حادثے میں میری آنکھ میں اپنی عینک کا شیشہ ٹوٹ کر پیوست ہوا (وہ کہانی الگ سے کبھی)۔ دس پندرہ دن ایک آنکھ پر پٹی رہی تو اسکی دونوں آنکھیں یاد آتیں۔ اس عرصے کے دوران وہ بہت یاد آیا۔ وہ بے بسی خود پر طاری ہوتے میں نے دیکھی تو احساس میں کئی نقش سے پیوست ہوئے۔
ہجر زدہ یاداشت کے کلاک میں بچھڑنے کے پل گھڑی کی سوئیوں کیطرح ہوتے ہیں۔ ایک کی حرکت دوسری کی جنبش بن جاتی ہے۔ ایسی کئی گھڑیاں مل کر گھڑی دو گھڑی میں میری حیات کی ایک گھڑی سی بن رہیں۔ یوں لگتا ہے وقت ٹھہرا ہے میں گزر رہا ہوں۔
جب اس کمپنی کو چھوڑتے میں نے اسے الوداع کہا تو تمام واجبات ایک طرف وہ اسکی آنکھوں سے گرتی دو بوندیں ایک طرف۔ کہ میرا سرمایہ ہوئیں۔ تصویروں والے وہ کاغذ جنکے پیچھے انسانیت کا تصور ردی ہوا ، اسے دینا چاہے تو اس نے انکار کر دیا۔ بڑا فخر ہوا مجھے اسکے اس انکار پر۔ اب آنکھوں سے نذرانے کے موتی بہانے کی باری میری تھی۔ دو بوندیں میری پلکوں کو الوداع کہہ کر نیچے چمکتی ہوئی ٹائلوں کی طرف بڑھنے لگیں تو میں نے پونچھ دیں کہ اسے اکیلے صاف کرنی پڑتیں۔ کہیں کوئی اسے نوکری سے نہ نکال دے۔ کیونکہ وہ جس خدا کا کہتے ہیں ناں رزق اسکے ہاتھ میں ہے اس بات کی حقیقت سب سے زیادہ یہ خاکزاد ہی جانتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں