لکھاریوں کا تخیل ۔۔۔۔۔نذر محمد چوہان

آ ج کل میں زیادہ تر وقت مختلف لکھاریوں کے حالات زندگی اور خیالات کے مطالعہ پر صرف کرتا ہوں، خاص طور پر ماضی جدید کے امریکی لکھاری ۔ ہر لکھاری کی اپنی دلچسپ کہانی ہے اور بہت خوبصورت زندگی۔ جب تک وہ پیسہ یا مادہ پرستی کے چکر میں   ذلیل و خوار نہیں ہوتا، ایسے لوگوں کو میں بے سمجھ لکھاری سمجھتا ہوں ، جو ایک خاص God gifted چیز کو بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں نہ صرف رسوا ہوتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ نہیں بن پاتے ۔

لاہور ، پاکستان سے ایک خاتون نے اگلے دن کہا کہ دراصل مجھے آپکی تحریروں سے زیادہ آپکی درویشی بہت پسند ہے ۔ بورس کیسپاروف چھ دفعہ دنیا کا عالمی chess champion رہا ۔ اس کی peak ریٹنگ کا ریکارڈ جو اس نے ۱۹۹۱ میں قائم کیا وہ وہ ۲۰۱۳ میں آ کر ٹوٹا ۔ بورس نے ہی ۱۹۹۶/۹۷ میں IBM کے سُپر کمپیوٹر ڈیپ بلُیو کے ساتھ مقابلہ کر کے پہلی دفعہ AI کو متعارف کروایا ۔ بورس بہت اچھا لکھاری بھی ہے اور ہیومن رائٹس کا چیمپین بھی۔ پیوٹن سے لڑائی  بورس جیسا دلیر شخص ہی لڑ سکتا ہے وگرنہ اسے پیوٹن کیا کچھ نہیں دے سکتا تھا ۔ بورس اصل میں ، پیوٹن اور ٹرمپ دونوں کے شدید خلاف ہے اور فری ورلڈ کی بات کرتا ہے ، جمہوریت اور کیمومنزم کی بجائے ہیومینزم کی بات کرتا ہے ۔ آپ کو یہ سن کر بہت حیرانگی ہو گی کہ  بورس کئی  دفعہ مین ہیٹن کی عام سی کافی شاپ میں کام بھی کرتا ہے ۔ اس کا St. Louis کے معروف chess کے ادارے کے ساتھ بہت اچھا کنٹریکٹ ہے لیکن میری طرح لوگوں سے رابطہ کی خاطر اکثر odd jobs پِک کرتا ہے ۔

مین ہیٹن میں ہی بورس سے بہت سال پہلے ایک امریکی لکھاری ، پلے رائٹر اور اداکار Edward Gorey رہتا تھا ۔ کیا خوبصورت آدمی تھا ۔ وہ بھی ساترے کی طرح کہتا تھا کہ

I don’t wish to live for ever
اور وہ واقع  ہی اصل موت جو ۲۰۰۰ میں ہوئی  اس سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔ اس کی وراثت اس کی چند بلیوں اور کچھ دوست لکھاریوں میں  تقسیم کی گئی  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گورے براڈوے کی شان تھا ۔ وہاں ڈائیلاگ تخلیق کرتا ، شاعری کرتا اور کئی  دفعہ گنگناتا تھا ۔ گورے کی سوتیلی ماں Ballet ڈانسر تھی لہٰزا وہ بیلے ڈانسنگ میں بھی لات اڑاتا تھا ۔ گورے کے والدین جب وہ ۱۳ سال کا تھا ،میں طلاق ہو گئی  ، اس کا باپ ایک ballet ڈانسر کے ساتھ فٹ ہو گیا ۔ جب گورے ۲۸ سال کا ہوا تو والدین میں پھر شادی ہوگئی  ۔ لیکن گورے ملنگ منش تھا اکیلا ہی رہتا تھا اپنی بلیوں کے ساتھ ۔ مجھے گورے کی اس سادگی کے علاوہ دو باتیں بہت پسند آئیں ۔ ایک اس کا  خاکوں اور تصویروں کی مدد سے لکھنا ۔ وہ کہتا تھا کہ  کوئی  کتاب ۳۰ صفحات  سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور اتنے ہی صفحات  کی اس کتاب میں تصویریں ہونی چاہییں  ۔
دوسرا اس کے نزدیک لکھاری کو اپنا تخیل پڑھنے والوں پر حاوی نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ اسے فکشن جو بہت تخیل آمیز ہوتی تھی سے سخت نفرت تھی ۔ وہ کہتا تھا
“If you create something , you are killing lot of other things .. I do leave most of the connections , and very little is pinned down, I feel that am doing a minimum of damage to other possibilities that might arise in a readers mind..”
لکھاری کا کام تو صرف ایک لیڈ یا مختلف راستہ دکھانا ہے ۔ لکھاری میرے نزدیک اسپارک پلگ کا کام کرتا ہے ، ہر کوئی  وہ چنگاری لیے بیٹھا ہے ، اس کو جلانے کی ضرورت ہوتی ہے یا اپنی موافق راہ ڈھونڈنے کا معاملہ ۔ ساترے نے بھی اسی لیے نوبل انعام لینے سے انکار کیا تھا یہ کہہ کر کہ  وہ institution نہیں بننا چاہتا ۔
گورے استخصار کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے بیانیہ کو مدھم اور کم روشن بھی رکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے نزدیک ہر پڑھنے والا اپنے حساب سے اس کا مطلب نکالے ۔ جس کو نیویارکر جریدہ کچھ یوں بیان کرتا ہے
“if a book is only what it seems to be about , then some how the author has failed .. “
اس کی اپنی کتاب doubtful guest تھی ہی دراصل doubts کے گرد گھومتی ۔ مہمان کیا ایک پرندہ ہے ؟ جانور یا انسان ؟ یہ پڑھنے والا ہی جانے اور اسی کا کام ، گورے نے تو کہانی بیان کر دی ۔ ایک اور بہت مشہور خاتون امریکی لکھاری Joy Williams کا بھی یہی بیانیہ ہے ۔ وہ بہت خوبصورت شارٹ اسٹوری رائٹر اور essayist ہے ۔ مجھے اس کے مضامین بہت پسند ہیں ۔ حال ہی میں اس نے ایک مضمون میں آج کے حالات پر کہا
“Two billion people on this earth less than a hundred years ago , now there are seven billion. And you can’t love them all is a problem .”
میرا بیانیہ  ذرا مختلف ہے کہ  ۹۹% فیصد لوگ استحصال کی چکی میں پِس رہے ہیں اور ان کو اس استحصال سے چھڑوانے کے لیے ہمیں خصوصا ً لکھاریوں کو ان سب سات ارب سے شدید محبت کرنی پڑے گی ، جو سابقہ چیس چیمپین بورس کیسپاروف جیسے لکھاری اور جہادی کر رہے ہیں ۔ بہت خوش رہیں ۔ اللہ نگہبان ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply