مانچسٹر سے مراکش تک(حصّہ اوّل)-فرزانہ افضل

گزشتہ ہفتے ہم نے خواتین کے ایک گروپ کے ہمراہ مانچسٹر سے مراکش تک کا یادگار سفر کیا۔  ان چھ روزہ چھٹیوں کا مقصد مراکش کی تاریخی عمارات اور ثقافت کو دیکھنا تھا۔  رائن ایئر لائن کی بروقت فلائٹ نے ہمیں شام سات بجے مراکش کے مینارہ ایئرپورٹ پہنچا دیا ۔ جونہی ہم نے مراکش کی سرزمین پر قدم رکھا تو مراکش ڈے ٹور کا اسٹاف ہمارے پُر تپاک استقبال کے لیے موجود تھا۔

خوبصورت مسکراہٹ لیے ہماری گائیڈ نوجوان لڑکی سعیدہ اور اپنائیت سے بھر پور جوان ہشام نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔  ان کے ہمراہ اپنی رہائش گاہ ریاد میں پہنچے۔  جو کہ ایک کشادہ خوبصورت گھر تھا جسے مالکان نے ہوٹل میں منتقل کر دیا تھا۔  فریش ہو کر ہم رات کے کھانے کے لئے جامعہ الفنا میں ایک ریسٹورنٹ میں گئے۔  اس جگہ پر صبح سے لے کر رات گئے تلک خوب رونق ہوتی ہے۔ دن کے وقت تو بازار اور مختلف سٹال مگر رات کے وقت  میوزک اور مختلف گروپوں کے پرفارمنس، جلتی ہوئی لالٹینوں کے سٹال  اور لوگوں کا ہجوم گو کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔  ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ  مراکش ہر سال انٹرنیشنل فلم فیسٹیول منعقد کرتا ہے اور اس ہفتے میں یہ فلم فیسٹیول چل رہا تھا جس کے لیے بالی وڈ کے اداکار رنویر کپور خصوصی طور پر شرکت کے لیے آئے تھے۔  ریسٹورنٹ کی چھت جہاں سے جامعہ الفنا کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا، کھانے کے دوران  یکدم شور اٹھا، معلوم ہوا کہ ایک بڑی سی گاڑی میں رنویر کپور وہاں سے گزرے ہیں۔ کھانے کے بعد ہم نے گنے کا رس پیا۔  سامنے ہی خوطوبیہ مسجد کا مینار نظر آ رہا تھا۔  موسم بہت خوشگوار تھا  ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

اگلے روز صبح ناشتے کے بعد  ہم اپنے گائیڈز کے ہمراہ مراکش کے مشہور و معروف تاریخی اور مقبول سیاحی مقام بحیہ محل پہنچے ۔ انیسویں صدی کا تعمیر شدہ یہ محل محض ایک عمارت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ پوری تاریخ  وابستہ ہے ۔  اس محل کی تعمیر کا آغاز 1859 میں مراکش کے بادشاہ سلطان حسن اول کے شاہی وزیر سائ موسٰی نے کیا  جو بادشاہ کے گھریلو معاملات کا انچارج تھا۔  سائ موسٰی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے با احمد نے اس محل کا انتظام سنبھال لیا اور مزید تعمیر کرکے اس کو بڑھایا۔  احمد مراکش کا بشپ بنا اور گرینڈ وزیر بھی۔ تاریخ کے مطابق با احمد کی چار بیویاں اور چوبیس عورتیں حرم میں تھیں۔  با احمد رومانوی طبیعت کے مالک تھے مگر چوتھی شادی کے بعد اپنی چوتھی بیوی بحیہ کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی محبت کے ثبوت کے طور پر بحیہ پیلس کو مزید تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔  اور اس کا نام اپنی محبوب ترین بیوی بحیہ کے نام پر رکھا۔  ڈیڑھ سو سال پرانے اس  محل میں ایک سو ساٹھ کمرے ہیں ہر چھت کا ڈیزائن دوسری سے مکمل طور پر الگ ہے۔  چھتوں میں دیودار کی لکڑی استعمال کی گئی ہے اور  مہندی ، زعفران اور انار کے چھلکوں سے رنگ نکال کر مینا کاری کی گئی ہے۔  مختلف ڈیزائنوں کی فرشی اینٹیں اٹلی سے منگوائی گئی تھیں۔  اس وقت کے رائج بارٹر سسٹم کے تحت  ٹائلوں کے بدلے میں مراکش کی شکر دی گئی۔  مراکش کی شکر تو چائے کے اطالوی پیالوں میں گھل گئی مگر ان کے آرٹ سے بھرپور ٹائلیں ہمیشہ کے لئے بحیہ محل میں امر ہوگئیں ۔ اس محل کے کمروں کی تمام کھڑکیاں محل کے صحن کی جانب کھلتی ہیں اور کوئی بھی کھڑکی باہر کی طرف نہیں بنائی گئی اس کی وجہ عورتوں پر خاص نگرانی اور پردے کا انتظام تھا تاکہ وہ باہر نہ دیکھ پائیں۔ با احمد  اپنے محل کی تقریبات کیلئے نابینا موسیقار اور سازندے رکھتا تھا  تاکہ وہ محل کی خواتین  کو نہ دیکھ سکیں،  اس بات کا بھی امکان  تھا کہ وہ خود سازندوں کو نابینا کر ڈالتا تھا۔   حرم کا حصہ علیحدہ تھا  جس میں غسل خانے  اس دور کے مطابق بنے  ہوئے تھے۔ اس محل میں تاریخ کے ساتھ ساتھ بہت سی کہانیاں ہیں۔  دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اس وسیع و عریض محل کی خوبصورتی کو سراہتے ہیں۔

محل کے ٹور کے بعد ہم نے کسبہ کے علاقے میں ایک مراکش خاندان کے گھر پر روایتی لنچ کیا۔  مراکش میں سب سے پہلے سبز چائے  مختلف قسم کی بریڈ رول کے ساتھ پیش کی جاتی ہے ۔  اس کے بعد رنگا رنگ سلاد سے سجا بڑا سا تھال میز پر سجا دیا جاتا ہے۔  اور اس کے ساتھ ثابت مسور کی دال اور بریڈ رکھی جاتی ہے۔  اس کے بعد وہاں کا مشہور کھانا  مرغی یا بکرے کے گوشت سے بنا تاجین پیش کیا جاتا ہے  جس کو مٹی کے بڑے سے برتن  میں ڈالا جاتا ہے اور مٹی کے کون نما ڈھکن سے ڈھانپا ہوتا ہے ۔ اسکے بعد فروٹ سے تواضع کی جاتی ہے ۔ مراکش کے لوگ بہت سادہ محنتی اور محبت والے ہیں۔  ہم نے ان سے گلے مل کر شکراً کہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اسکے بعد خوطوبیہ مسجد کے باغات دیکھے ۔

سولہویں صدی کے آخر میں بنا شاہی قبرستان جہاں سعدین خاندان دفن ہے ، وہاں پر گئے۔ بن یوسف مدرسہ دیکھا ۔  سلطان ابو الحسن نے اپنے دور بادشاہت میں 1331  کے بعد اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔  یہ مدرسہ مراکش کی سب سے بڑی  اسلامی درسگاہ تھی جس میں اسلام، قرآن اور تفسیر کے ساتھ ساتھ تاریخ اور سائنس کے مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔ کلاس روم  بہت چھوٹے سائز کے ہیں جن میں 5 یا 6 طلباء ایک استاد سے علم حاصل کرتے تھے۔  یعنی کلاس کا سائز آج کل کے  گرامر اسکولوں کے کلاس سائز سے بھی آدھا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی معیار سے یہ ادارہ پورے ملک کا بہترین کالج تھا۔ ایک طرف ہمیں سزا کا کمرہ بھی نظر آیا  گائیڈ نے بتایا کہ جب کوئی بچہ ہوم ورک نہیں کرتا تھا تو اس کو اس کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا۔ مگر اس کمرے کے چھوٹے سے دروازے میں کھڑکی موجود تھی جس سے بات چیت کی جا سکتی تھی۔  مگر آج کل کے دور میں  سکولوں میں اس طرح کی سزا کا کوئی تصور نہیں کیونکہ اسے بچوں پر بے جا سختی اور بدسلوکی کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔  باقی تفصیل اگلے حصّے میں پڑھیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply