نواز شریف بری ہو گئے/طیبہ ضیاء چیمہ

عمران خان نے سیاست، مولانا طارق جمیل نے تبلیغ، پیرنی نے چلہ ٹونہ جادو، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے فوج، جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ، ARY اور بول نے میڈیا اور جسٹس جاوید اقبال نے نیب کو سنبھال رکھا تھامگر ھائے تیری قسمت۔ پاکستان تبدیلی نیا پاکستان ریاست مدینہ حقیقی آزادی کچھ بھی نصیب نہ ہو سکا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے احتساب عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیا ہے۔

اب کیاسمجھا جائے نواز شریف پر مقدمات بنانے والے ادارے غلط تھے یا آج سرخرو کرنے والے غلط ہیں؟ کوئی تو غلط ہوگا؟ دائروں کا یہ سفر آخر کب تھمے گا؟ کب تک ایک دوسرے کی ٹانگیں گھسیٹنے کا نظام مسلط رہے گا؟ عوام نے تو تبدیلی کو بھی اندھا دھند سپورٹ کیا اور نواز شریف کو بھی تین مدینہ وزیر اعظم بنایا مگر عوام کے اعتماد اور جذبات کے ساتھ آخر کب تک کھلواڑ ہوتارہے گا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس میں سابق وزیراعظم نے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے ثابت کرنا تھا کہ نوازشریف نے پراپرٹیزکی خریداری کیلئے ادائیگی کی، سب سے اہم ان پراپرٹیزکی اونر شپ کا سوال ہے، نہ توزبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیزکبھی نوازشریف کی ملکیت رہی ہوں، بچوں کے نوازشریف کے زیرکفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں، ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نوازشریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔

منتخب وزیراعظم کو برطرف کرنے اور آئین پاکستان کے ساتھ ظلم کا سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا؟ آئین کی پاسداری بلا شبہ معتبر ہے مگر آئین پاکستان کی بنیاد تو آئین قرآن تھی اور قرآن کی خلاف ورزی الا ما شا اللہ دھڑلے سے کی جاتی ہے۔ اس میں ماشا اللہ ادارے ہی نہیں میڈیا کا کردار سب سے شرمناک رہا ہے۔ الا ما شا اللہ متعدد صحافی اور اینکر بھی سر فہرست ہیں۔ منافقت بددیانتی کرپشن سے ارب پتی بننے والے بھی جب آئین کی پاسداری پر بات کرتے ہیں تو قرآن کو بھول جاتے ہیں؟ قرآن حق سچ ایمانداری کی بات کرتا ہے مگر کتنے صحافی اور اینکر قرآن کی پاسداری کرتے ہیں؟

سیاستدانوں اور اداروں کے خلاف زبان اور قلم چلانا، کسی کو ہیرو کسی کو زیرو بنانا آسان ہے مگر جس کو موقع ملتا ہے مال مفت چھوڑتا کوئی نہیں۔ آئین کی حقیقت پر قائداعظم نے بارہا تاکید فرما دی تھی۔ الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کے سلسلے میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ وکلا کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ وہاں یہ مکالمہ ہوا: ارکانِ وفد: پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟ کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟ قائداعظم: پاکستان کا دستور بنانے والا مَیں کون ہوں؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے ہی بن گیا تھا۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر محمد جان نے پوچھا “اگر ہم فرض کرلیں کہ آپ کی موجودگی میں پاکستان بنتا ہے اور آپ اس ملک کے سربراہ ہیں تو پھر دستور کی حیثیت کیا ہوگی؟

قائداعظم: “اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کے پاس تیرہ سوسال سے دستور موجود ہے۔ “ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: “”مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا مَیں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سوسال قبل قرآنِ حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔ “ممبئی میں عیدالفطر کے موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “”مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآنِ پاک غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی”۔

قائداعظم نے فرمایا: “مَیں نے قرآنِ مجید اور قوانینِ اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کاروحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی پہلو ہو یا معاشی، غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے اِحاطہ سے باہر ہو۔ قرآنِ کریم کی اصولی ہدایت اور طریقِ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت، غیرمسلموں کے لیے حسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ دیتی ہے، اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“اسلامی حکومت کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور فرمائش کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کے لیے تعمیل کا مرکز “قرآنِ مجید” کے اَحکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں نہ اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ “اسلامی حکومت”دوسرے الفاظ میں”قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply