دیارِحبیب/محمد عثمان کھوکھر(2)

پہلی قسط کا لنک

ذکر حبیب سے پہلے دیار حبیب کا حال تو دیکھیں
وہی جہدخلیل “ربنا اللہ” والی نمرود کی آگ میں جھلستی ابلیسی وسوسوں سے بچتی بچاتی،اسماعیل کو چھری تلے لٹاتی ہاجرہ کو بے یار و مددگار صحرا میں چھوڑتی رُلاتی، وحشتوں کی زمین کو ارض کعبہ بناتی تہذیب محودیت کا مقام پا چکی ہے، تہذیب محودیت کا معمار ہاتھ اٹھائے مستقل نعمت کا تقاضا  کر رہا ہے چار سُو اللہ ہُو اکبر کی صدا ہے ۔ آنے والے جا چکے ہیں، وقت بدل چکا ،حالات بدل گئے اور اب دیکھیں تہذیب محودیت کے وارث اور دنیا کے سب سے بڑے بُت شکن باپ کے بیٹے جماد لایعقل کے سامنے جھکے پڑے ہیں اور جب کبھی کوئی فطرت شناس اس بے عقلی کے بارے میں پوچھ ہی بیٹھے، تو خاموش نہیں رہتے ہزار دلیل تراشتے ہیں اپنی اس جہالت پر۔۔۔۔ ان کے پاس اور تھا کیا اک جہالت کا ہی تو سرمایہ تھا جہالت بھی ایسی جو خاردار جنگلی جھاڑیوں کی صورت بڑھتی ہی چلی جائے   اور یہی نہیں ،قبیلہ پرستی کا جنون سوزاک کے مرض جیسا چمٹ چکا ہے جس سے جنم لینے والے بچے شجاع ،شاعر سخی اور عاشق تو ہیں مگر ایسے ہیں جن کے عمل اخلاق رذیلہ کو جنم دیں۔

قارئین وہ شاعر تو تھے مگر شاعر ایسے جو تعصب ضد اور عورت کو بڑھانے کے سواء کوئی مضمون نہ رکھتے ہوں سخی ایسے جو قبیلے کی شان اور اپنی انا کے واسطے ہر شے قربان کردیں شجاع ایسے  کہ بِنا  کوئی بات خون کی ہولی کھیلیں اور سال ہا سال قتل و غارت کو بہادری کا نام دیں ۔ ایسے میں عاشق کے کیا کہنے اور جب حسن بھی بے حجاب ہو!  تو ایسے میں داستان عشق کی کیا کہیں، جسکا اظہار کعبہ کی پیشانی پہ لکھا جائے ۔ برملا حسن کو بدنام کیا جائے اور ہائے حسن بھی اسی پہ اترائے۔ اختر شیرانی نے کہا تھا

اختر وہ میرے عشق ِرسوا کو دعائیں دیں

اپنی صورت پہ اس قدر انہیں  ناز کب تھا

میں سوچتا ہوں زندہ درگور کر دینے والی رسم کی ابتداء شاید انہی حالات کی دین ہو ۔جب کسی خودار اور عزت والے نے عورت کی بےتوقیری یوں دیکھی تو اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی بچی کو زندہ درگور کر دیا ہوگا دراصل محبت ایک بےپایاں جذبہ ہے جسکی کوئی سرحد اور حدود نہیں ،مگر قارئین محبت کو جب محدود کرتے ہوئے نسوانی ڈھانچے میں قید کر دیا جائے اور اسکے محرکات میں شہوت انگڑائیاں لے ، تو پھر  محبت پھولن دیوی کا روپ دھار لیتی ہے ۔جس کا مقصد اپنی بےتوقیری کا انتقام ہوتا ہے، وہ ذہنوں کو مفلوج کرتی عزتوں کو تار تار اور سماجی روایات کے لیے  باغی ثابت ہوتی ہے ۔ ارض کعبہ اور دیار حبیب کے باشندگان جو کبھی مرد بت شکن کے وارث تھے آج بت سازی کی صنعت کے بڑے سوداگر بنے ہیں ۔ انکے پاس کیا نہیں تھا شجاعت تھی سخاوت تھی زبان اور دل تھا ،بتا ؤکیا کسی قوم کی ترقی کے لیئے یہی باتیں کافی نہیں؟ افسوس!  جو لوگ اپنی تہذیب اپنے تمدن کے وارث نہیں ہوتے انھیں جہالت کی رسمیں نوچ ڈالتی ہیں، انکے فہم اور تدبر بانجھ عورت کے مکر جیسے خبیث ہوتے ہیں جن میں تعصب ضد اور خود نمائی کے فریبی ناگ رقصاں رہتے ہیں ۔ فریب زدہ آدمی قابل رحم ہوتا اور اگر سارا معاشرہ ہی فریب زدہ ہو تو انکی منزل خسر الدنیا ولا آخر ت کے سواء کچھ اور نہیں ہوتی ۔ قریب تھا کہ رسوائی کے مسافر منزل پاتے، ایسے میں نضر بن کنانہ کے خیمے سے اک نسوانی چیخ اٹھی، عدنان کی نویں پشت کے خیمے نضر بن کنانہ سے اٹھتی نسوانی چیخ سے قصی نے وجود پایا۔  آفتاب و مہتاب دیکھتے رہے قصی بڑھتا گیا دیکھتا گیا اور پھر اس نے سب بدل ڈالا۔  حرم کعبہ کی ان معاشرتی سماجی روایات کو جو انہیں  نوچتے،کھائے جا رہی تھیں وہ قبائل قریش جو جدا جدا تھے ، انکو فلسفہ اتحاد کے تحت اس نے قوت عطا کی منتشر لوگوں کے حاسد دلوں میں نفرت کی بنتی بلغم کو محبت لہو کی ر وانی بخشی، حکمت دانائی اور قیادت سے کعبہ کی متولیت پائی  اور تولیت پاتے ہی حرم کے مختلف مناصب قائم کیئے جیسے رفادہ ،سقایہ ان امور کے بعد خانہ بدوش لوگوں کو دارالندوہ جیسا جمہوری ادارہ دیا جہاں مل بیٹھ کر معاشرتی ،معاشی سماجی مسائل کا حل ڈھونڈا جانے لگا ۔ ایک اہم بات حاسد کے لیئے حسد ضروری ہے، مستشرقین اور مغربی نقاد کہتے ہیں دراصل اسلام بھی قصی کی اصلاحی تحریک کا اضافہ ہے۔ میرا یہ موضوع نہیں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں ۔ قصی کے ہاں چھے بیٹوں نے جنم لیا عبدالدار عبدمناف عبدالعزی عبدبن قصی تخمحرہ برہ۔۔  سب ناموں میں بت پرستی کی محبت عیاں ہے جبکہ اسلام کا پہلا قانون ہی بت شکنی کا درس ہے ۔ جیسے لا الہ الا للہ، حاسدوں شرم کرو ضابطہ حیات کا مرتب قانون اک قبائلی سردار کی قیادتی حکمت عملیوں کے برابر! افسوس اور افسوس قصی ایک سردار تھا اور ایک ایسا سردار جسے یاد کیا جائے مگر میں دیکھتا ہوں جب انصاف کی باری آئی تو قصی کا ایک فیصلہ جب مرگ وقت اس نے حرم کے منصب بڑے بیٹے عبدالدار کے سپرد کیئے جس کا وہ اہل نہیں تھا، تاریخی اوراق گواہ ہیں یہی فیصلہ بعد میں قبیلے کے اتحاد کو منتشر کرتا رہا!  نااہل اپنے ساتھ دوسروں کو ڈبوتا ہے منصب حرم کا تقاضاہے اسے اہل مند ملے۔۔۔  اور آخر تولیت قصی کے چھوٹے بیٹے عبدمناف کے ہاتھ آئی، عبدمناف کے چھ بیٹوں میں سے ہاشم نے قصی کے خصائل پائے۔  اس مرد صاحب حشم نے رفادہ اور سقایہ جیسے منصب کو احسن طریق سے ادا کرتے ہوئے حجاج کو آرام بخشا۔  حبشہ اور قیصر روم سے تعلقات استوار کرتے ہوئے قریش کے مال تجارت سے محصول ختم کروایا بدوں اور صحرا میں خانہ بدوش قبائل میں بھاگ دوڑ کر تجارتی قافلوں کے تحفظ کے لیئے حلف لیئے ، ہاشم تجارت کے سلسلے سے شام گئے اور واپسی پر مدینہ ٹھہرے جہاں سالانہ میلے کی رونقیں آباد تھیں۔ ہاشم کی نظر بنو نجار کی سلمی نامی عورت پر پڑی جسکی آنکھ حیا اور ماتھا اقبال مندی کا امین تھا۔ ہاشم نے شادی کی درخواست کی جو قبول ہوئی۔۔  ہاشم کی امین پشت اور شرافت سلمی کے بطن سے عبدالمطلب پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے ہاں آگے دس بیٹے پیدا ہوئے۔۔۔۔۔
کچھ محروم ہوئے اور کچھ نے دولت اسلام سے عزت پائی!
ابولہب حسن سے مالا مال ہوا اور کفر سے ذلت پائی
ابو طالب مرتے مر گئے مگر بھتیجے کا ساتھ نہ چھوڑا ایک الگ ہی وفا کا باب باندھا۔
حمزہ
عباس
اسلام کی عزت سے عزت دار ہوئے
ہاں وہ بیٹا “عبداللہ”
بوڑھے باپ کو اور بوڑھا کر گیا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply