دیارِحبیب/محمد عثمان کھوکھر(1)

ایک بار نہیں کئی بار میں نے چشم تصور سے اس خطہ زمین کو دیکھا ہے جہاں چشم دنیاداری کے لیے کوئی رعنائی نہیں۔ وہ سر سبز کہسار اور شجر جو دل کو راحت اور ذہن کو سکون بخشتے ہیں وہاں تو وہ بھی چٹیل میدان اور ویران شانہ اے محبوب کے جیسے منہ چڑھاتے  ہیں ۔
اک ایسی زمین جہاں کسی سیاح کے لیئے کوئی دلچسپی نہیں اور کسی فاتح کے لیئے کوئی مہم نہیں
مگر ہائے
آداب محبت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا

یہ قلبِ  دنیادار کا قصہ نہیں، یہ ذکر ہے ان مشتاق نگاہوں کا جن کا تخیل اور تصور انہی گلیوں میں قصداً بھٹکا رہتا ہے۔وہ خاک یثرب و بطحا کو ہتھیلی ہتھیلی چنتے آنکھ کا سرمہ بنائے گلہائے عقیدت کے نذرانے پیش کرتے،ان ہواؤں اور فضاؤں کو محبوب کے بوسوں کی طرح ہونٹوں پہ امانت رکھے ہجر کو آدابِ وصل سے ہمکنار کرتے ہیں۔
دیار حبیب   کا حُسن آنکھ سے نہیں دل سے دیکھا جاتا ہے ۔،مگر ہم وہ نہیں جو عقیدت کے جوش میں بھٹک کر ہوش اور خرد کو چھوڑ دیں،اوراقِ خرد میں بکھرے ہوئے الفاظ دل کو سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔
یارو مجھے بتاؤ ایسا خطہ زمین جو باہر پانیوں سے اور اندر ریت کے صحراؤں سے بھرا پڑا ہو،جہاں ہواؤں کے جھکڑ مجنوں کی لیلی کو اور کالا کر دیں ،جہاں پانی کی کم یابی فرہاد سے طلب شیریں کا حوصلہ چھین لے۔
جہاں قیصر و کسری کے بادشاہوں کا کوئی آوارہ خیال بھی سیر کو نہ بھٹکے
ایسی سرزمین کے باشندوں کا حال حیات کیا ہوگا؟
وسائل کی کمی اور مشاغل کی کم یابی اخلاق اور اخلاقی روایات کو بانجھ پنے کی بیماری لگاتے ہیں،
ایسے میں تہذیب اور ثقافت بد چلن عورت کی طرح کھڑکی سے جھانکتی جانے کب گھر کی دہلیز کو پاؤں میں روند ڈالے ،کوئی نہیں جانتا۔
ہوا بھی کچھ ایسے ہی وہی سرزمین جو کبھی محبت میں ستائے دیوانوں کے لیئے دشت قیس ہوا کرتی تھی جہاں لیلی کو سکوت اور بغیر کسی آہٹ سے محسوس کیا جا سکتا تھا،اس دشت کی وحشت کو آتش نمرود کو گلنار کر دینے والے اطہر و مطہر بدن کا لمس عطا کرتے ہوئے تہذیب موحدیت کی بنیادیں رکھی گئی،وہی تھور زمین جو بیقراری سمیٹے ہوئے تھی اسے بی بی ہاجرہ اور اسماعیل کی ایڑی سے قرار بخشا گیا۔

وقت ٹھہرنے والا کب ہے اسکی طبعیت میں دیوانے کا مزاج دھڑکتا ہے۔۔
دو تنہا مقدس لوگ گذرتے دن اور رات میں خدا کے بعد اپنی امیدوں کے محور خلیل اللہ کو سرشام یاد کرتے رات پہ دن اور دن پہ رات کے پردے دیکھتے رہے۔ ایسے میں بطن معدہ کو تقویت دینے کے واسطے دربدر پھرتا پھراتا اک قافلہ سا چشمہ زم زم پہ آن ٹھہرا۔۔
ماں اور بیٹا اور وہ قافلہ جس کے بطن سے کئی اقوام اور پیغمبر کی حیات تھی رہن سہن میں مشروطی گرییں باندھ رہے ہیں ۔ جانے والے کب لوٹ کے آئیں، یعقوب کی آنکھ سے بہتر کون جانتا ہے،بی بی ہاجرہ کی آنکھیں جانے کتنی مسافتیں طے کرتی  ہوں گی، مگر خلیل للہ ایسے گئے کہ صبر ایوب کے حوصلے باندھنے پڑے۔

درد کچھ اور بڑھ جاتا ہے جب بیٹا کبھی پاک باز عورت سے باپ کے نہ آنے کا سبب پوچھے اور خاموشی مسلسل خاموشی سے چڑنے لگے۔مضبوط ہوتی ہڈیاں اور پنڈلیوں کو رعنائی دیتا گوشت جوانی کی دہلیز کو عبور کر رہا ہے مگر شعور ابھی اس قابل کہاں ہے جو بی بی ہاجرہ اور خلیل اللہ کے امتحان کو سمجھ سکے ۔ ہائے اس مکتب کا اصول الگ ہے جس نے سبق یاد کیا اسے چھٹی نہ ملی۔

جانے والے آئیں نہ آئیں اس یاس اور آس میں مبتلا بی بی ہاجرہ نے اسماعیل کو مشروطی ٹھہرے ہوئے قافلے کی ایک عورت سے عہد حیات میں باندھ دیا۔۔
محبت مل جانے سے بڑھتی ہے وہ اک مدت سے ٹھہرے اجنبی اب اپنے ہیں
دو تنہا ماں اور بیٹا اب مل جانے سے قبیلے کی طاقت آواز اور بازو میں محسوس کرتے ہیں۔مگر راحت دل وہ سکون چشم سا انسان آج بھی جانے کہاں ہے!
دھڑکتے دل جانتے ہیں جدائی درخت پہ پھیلی امربیل کے جیسی ہے جسکی زردی پھیلتی ہی جاتی ہے اور وہ دو منتظر آنکھیں ہیں کہ مٹی تلے بند بہشت بریں میں کھلتیں یاقوت و مرجان کے موتی محلوں میں خلیل اللہ کا عکس اپنے کالے ڈوروں میں بھرنے کی چاہ میں ہمیشہ کے لیئے بند ہو گئیں۔
عجیب مصلحتیں ہیں وہ نہیں رہے اور جانے والے لوٹ آئے ہیں۔

کہتے ہیں مدت کے گئے جب لوٹ کے آئے تو وہ وحشتوں کے ویرانے انسانی گھرانوں سے آباد ہوچکے تھے، سب سے جدا اور وہ الگ سا خیمہ جہاں بی بی آباد تہیں وہاں کوئی لڑکی سی گھریلو کام کاج میں مصروف تھی۔
خلیل اللہ دروازے پہ آئے آواز دی اسماعیل بیٹا اسماعیل ،
اندر سے آواز آئی گھر پہ نہیں گئے ہوں گے کہیں بے وجہ کا شکار کرنے ،
پوچھا کس حال میں ہو؟
جواب آیا خدا کی پناہ بس دن کٹ رہے ہیں ہر لمحہ مصیبت ہر پل بے بسی
لوٹ آنے والے پھر جانے کو ہیں البتہ کہتے گئے سنو بیٹا اسماعیل آئے تو کہنا بابا آئے تھے اور وہ کہہ گئے ہیں بیٹا اپنے گھر کی چوکھٹ بدل ڈالو، خلیل اللہ کے گھرانوں کی چوکھٹیں ایسی نہیں ہوتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آداب فرزندی سیکھے ہوئے ذبیح اللہ گھر آئے در و دیوار سے پھوٹتی خوشبو کسی اپنے کا پتہ دے رہی تھی۔۔
پوچھا کون آیا تھا ؟
جواب آیا اللہ جانے کوئی بوڑھا شخص تھا کوئی خاص نہیں آپ کا پوچھا حالات کا پوچھا اور جاتے کہہ گئے اسماعیل سے کہنا اپنی چوکھٹ بدل ڈالو ۔
کہا، بی بی جاؤ ،آج سے تم آزاد ہو، تمہیں معلوم نہیں وہ خلیل اللہ تھے اور انہیں  رب کی ناشکری کسی صورت گوارہ نہیں۔
گھروں کے مکین گھروں کی شان ہوتے ہیں کبھی بلند بالا عمارتیں مکینوں کو اعلیٰ  نہیں بناتی ،نمرود کا محل تھا مگر اس کی شان و شوکت کو نمرودیت کھا گئی۔
چوکھٹیں خدا شناس ہوں تو گھرانے خیموں میں بھی آباد بہشت سا سکون پاتے ہیں
چوکھٹ بدل دی گئی ہے آنے والے شکر گزار اور اطاعت شعار ہیں
اتفاق سے اسماعیل آج بھی گھر نہیں اور خلیل اللہ آواز دے رہے ہیں
جواب آیا بزرگ برتر آئیے تشریف لائیے اسماعیل بھی آئے آپ کہیے کیا کھائیں گے؟
حال و حالات کا پوچھا تو جواب آیا الحمداللہ پیٹ کو شکوہ نہیں خوشحالی نے کہنیوں کو گوشت سے بھر دیا ہے
خلیل اللہ مسکرائے کہا بیٹی اسماعیل سے کہنا سبحان اللہ کیا شاندار چوکھٹ ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

امتحان بھی عجیب ہیں جب چھوٹے تھے  تو صابرین میں سے تھے اور جب بڑے ہوگئے ہیں تو منتظرین میں سے ہیں   ۔
انتظار ختم ہوا ۔۔
خلیل اللہ آج آنکھوں کے سامنے ہیں کوئی گلہ شکوہ نہیں، محبتیں بانٹی جا رہی ہیں اور ادھر ہے کہ سمیٹی جا رہی ہیں ۔
خلیل اللہ معمار بنے خدا کا گھر تعمیر کر رہے ہیں اور ذبیح اللہ پتھر کی سل اٹھائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔
بغیر چھت اور دروازے کے خدا کا گھر تعمیر ہو چکا ہے !
تہذیب موحدیت کا تمدن پھیل رہا ہےخدا کے نغمے اور حمدیں گائے جا رہے ہیں قدوسیوں کے قافلے قطار در قطار اُتر رہے  ہیں۔ویرانے آباد ہو چکے ہیں وحشتیں کنارہ کر چکی ہیں ۔دعائے خلیل اللہ کے ثمرات پھیل رہے ہیں۔بقاء اور ہمیشہ کی بقاء خدا کی ذات کے سواء کسے ہے ،کیا خلیل اللہ اور ذبیح اللہ  ۔۔
بنیادیں رکھنے والے چلے گئے ہیں ۔ بعد والے عقیدتوں میں جانے والوں کو یاد رکھے  ہوئے ہیں
کوئی چاہتا ہے ،ہمارے بعد آنے والے اپنے بڑوں کی صورتوں سے ناواقف ہو جائیں گے
کیوں نا ایسا ہو جائے کہ ہم انکی شبیہہ اُتار لیں،ان کو دیکھ کر ہمیں خدا یاد رہے گا،اتاری ہوئیں شبیہہ وہ تصویریں جو کبھی گھر تہیں آنے والی نسل اسے خانہ  ءخدا میں ٹانک رہی ہے
وہ جو کبھی نصیحت کے لیئے اتاری گئی تہیں آج وسیلے کے لیئے معاون بنی ہوئی ہیں،عقیدت میں یہی خرابی ہے یہ بڑھنا جانتی ہے،عقیدت مندوں میں سبقت کا جنون طاری ہوتا ہے ہر ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتا ہے اسکی صورت چاہے کچھ بھی ہو،تہذیب موحدیت میں اب وہ اٹھان کہاں ؟
نئے ذہن کے نئے لوگ عقیدت کے جوش میں نئی نئی رسمیں ایجاد کر رہے ہیں۔دیکھیے تو اک عمر نامی شاید خزاعہ قبیلے کا آدمی اٹھتا ہے شام جاتا ہے اور وہاں سے ہبل نام کا بت اٹھا لاتا ہے
اسے کعبہ میں نصب کیا جاتا ہے اور اب عقیدت مندوں میں سبقت کا جوش ٹھاٹہیں مارتا ہے کوئی لات کو لا رہا ہے اور کوئی عزیٰ  پہ فریفتہ نائلہ کا بت اٹھائے نصب کرنے کو بے قرار ہے۔۔ ۔
ہائے دنیا کے سب سے بڑے بت شکن کی اولاد ہی خرافات اور ظلم کا شکار ہوتے بت ساز بن چکی ہے ۔
تہذیب موحدیت کے تمدن کو پھیلانے والے جماد لایعقل کے پیروکار بن چکے ہیں  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply