غریبوں کا مسیحاء کون بنے گا ؟/ ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

پاکستان کی موجودہ صورتحال نہ گفتہ بہ ہے۔
عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے۔ہر سو شور اور ہنگامہ ہے۔مہنگائی نے آنکھوں کو نمدار اور چال کو ٹیڑھا بنا دیا ہے۔پاکستان کے جس شخص سے بات کی جائے اس کی زبان میں مہنگائی کی لکنت ہے۔
زبان پر تلخیوں کے کانٹے اگے ہوئے ہیں۔حکمرانوں سے شکوے شکایتوں کی لمبی لمبی رالیں ٹپکتی نظر آتی ہیں۔
ہر مکتبہ فکر سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔نہ کسی کو تیرنا آتا ہے اور نہ پانی میں کسی کو تیرنا اور نہ کسی کو حالات کا مقابلہ کرنا۔ ڈوبی معشیت سب کچھ بہا کر لے گئی ہے۔ لوگوں کو موجودہ حالات میں کنگالی اور تنگدستی کا کشکول ملا ہے۔اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی کے سب ہاتھوں میں کشکول ہے۔چہرے پر ندامت کی سلوٹیں بھی ہیں۔
ہر پارٹی کے پاس غریبوں کو ورغلانے کے لیے سبز باغات موجود ہیں۔ ان کے منشوری نکات سونے چاندی جیسے ہیں۔وعدوں کا بناؤ سنگار جمال پرستی جیسا ہے۔جہاں غریب پھر دیدار کے دھوکے میں پھنس جائیں گے۔یہ منظر کشش ثقل کے قانون سے عبارت ہو گی۔سوشل میڈیا پر تحریکی ٹولہ اپنی اپنی پارٹیوں کے منشور کا ورد کر رہا ہے۔ ملک میں غیر یقینی کیفیت اور فضا کا راج ہے۔اعتماد کی فضا سوگوار ہے۔بہروپیوں کی گرو بندی ہے۔ٹاک شو میں ہاتھا پائی کے قصے اپنی تاریخ رقم کر رہے ہیں.ملک آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دب چکا ہے۔ٹیکسسز کی بھرمار ہے۔ غریب طبقہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ہر سیاسی لیڈر اپنی صفائی میں بیان دے رہا ہے۔کیا میں مجرم ہوں۔۔۔؟ الیکشن 2024 کی گھنٹی جنوری کے آخری ہفتہ میں بجائی جا چکی ہے۔ معاملہ کہاں جا کر ٹھہرتا اور حل ہوتا ہے۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔بجلی کے بلوں نے تنخواہیں ہڑپ کر کے بد ہضمی کا ڈکار لے لیا ہے۔ ضروریات زندگی اور اشیائے خورد و نوش اس قدر مہنگی ہو گئی ہیں کہ نرخوں کی آواز کانوں سے ٹکرانے کے بعد براہ راست دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ کس کس چیز پر گفتگو کی جائے۔مہنگائی کا رونا رویا جائے ؟ حالات پر جگ ہنسائی کے بادل چھا چکے ہیں ۔
پٹرول کی قیمت نے ہر چیز کی قیمت میں دگنا اضافہ ہے۔عوام کو اٹھ روپے کی کمی سے کیا فرق پڑے گا۔بڑھتے ہوئے کرایوں نے گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔بیچاری عوام چیختی چلاتی ہے۔مہنگائی کم کرو۔ مگر افسوس ہر کوئی اپنی جگہ مجبور ہے۔آئی ایم ایف کے سامنے سب نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔لگتا ہے بے بسی اور بے حسی نے اذہان و قلوب کو سوچنے سمجھنے سے عاری بنا دیا ہے۔
ہر سو مجبوریوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔دور دور تک کوئی شنوائی نہیں۔ کوئی رحم کی اپیل نہیں۔انسانیت کھڈوں میں گر گئی ہے۔ظلم و ستم کے الگ قصے ہیں۔ جبر کے انداز فرق ہے۔ غریب روٹی کھانے کے لیے آٹا چور بن گیا ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ پھینکنے کی روایت اپنی جڑ مضبوط کر رہی ہے۔
مذکورہ حقائق دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ 24 کروڑ آبادی کہاں سر چھپائے؟ وسائل کے کنویں کہاں کہاں سے کھودیں تاکہ روزگار کا تیل مہیا ہو جائے۔عوام سے کیے گئے سب وعدے چکنا چور ہو گئے۔ان کی صورت بگڑ گئی۔ذاتی دشمنیاں اور بدلہ لینے کی تحسین نے جنونیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرنے کا رواج بڑھ گیا ہے۔حاکمیت اور بادشاہت کے خیال نے آنکھوں پر چربی چڑھا دی ہے۔تاکہ انہیں کوئی غریب نظر نہ آئے۔اور نہ سچ کا چاند دیکھنے کی توفیق ملے۔
جگہ جگہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔کمسن بچیوں کو ہراساں کر کے جنسی درندگی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔اقلیتیوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کی داستان مرتب کی جاتی ہیں۔
ذہن میں ایک ہی رسیلہ خیال ہوتا ہے جو دل میں آئے اسے خوب کرو۔دنیا لطف اندوزی کی جگہ ہے۔اچھے برے کی پہچان ختم کرو۔اپنی پہچان بنانے کے لیے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکو۔اپنی طاقت اور اختیار خوب استعمال کرو۔غریبوں کے واویلا پر اپنے کان بند کر لو۔خوشحالی کی گھنٹی بجا کر جتنی عوام چاہو اکٹھی کر لو۔انہیں جھوٹی معشیت کی لوریاں دو۔انہیں تقسیم کر کے حکمران بن جاؤ۔
یہی جتن ،وطیرے اور نفسیاتی حربے ہیں۔جن کے استعمال سے رعب اور دبدبہ پیدا ہوتا ہے۔عوام کو غربت کی چکی میں اس قدر پیس دو تاکہ وہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ معاشرے میں اندیشوں ، غموں، تلخیوں اور ناچاقیوں کے اس قدر کانٹے بکھیر دو تاکہ جو کوئی چلنے کی کوشش کرے۔ان کے پاؤں زخمی ہو جائیں تاکہ پاؤں درد اور جلن بڑھ سے بھر جائیں۔معاشی بدحالی کا اس قدر ناقص بیج بو دو تاکہ پودے بونے رہ کر پھل نہ دے سکیں۔ہر چیز کی حقیقت پر پردہ ڈال دو۔تاکہ لوگ دیکھ نہ سکیں۔
کیا حقیقت اور کیا افسانہ ہے؟ تاکہ لوگ پہچان اور کردار میں دھوکہ کھاجائیں۔وہ عمر بھر اپنی الجھنیں اور مجبوریاں حل کرتے پھریں۔ انہیں سوچنے کا موقع نہ دو کہیں وہ ترقی کا کوئی راستہ تلاش نہ کر لیں۔عصر حاضر میں ہر انسان کے سر پر بوجھ کی ایک گٹھڑی رکھی ہوئی ہے۔وہ اپنے سر سے اس کا بوجھ کیسے ہلکا کرے؟ چلے تو پاؤں میں چھالے پڑتے ہیں۔بات کرے تو زبان میں لکنت پیدا ہو جاتی ہے۔
ہاتھ چھوڑے تو ٹھوکر کھا کر گر جائے گا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے۔اس گٹھڑی میں کون کون سا بوجھ ہے۔جو سانس لینے میں دشواری ،چلنے میں لڑکھڑاہٹ اور بات کرنے میں ہچکچاہٹ پیدا کرتے ہیں۔
انسان پر مہنگائی کا بوجھ ہے۔فکروں کا بوجھ ہے۔اخراجات کا بوجھ ہے۔کفالت کا بوجھ ہے۔ظلم و ستم کا بوجھ ہے۔ الزامات کا بوجھ ہے۔منافقت کا بوجھ ہے۔وسائل کا بوجھ ہے۔بلوں کا بوجھ ہے الغرض جب انسان کو چاروں طرف بوجھ ہی بوجھ نظر آئے۔تو اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ ، چال میں لڑکھڑاہٹ اور سوچ میں فرق تو ضرور آ جاتا ہے ۔انسان کو حالات کی کشتی ڈوبنے سے پہلے اس میں سراخوں کا جائزہ ضرور لے لینا چاہیے۔اعتماد کرنے سے پہلے فطرت کے سانپوں سے لڑنا ضرور سیکھ لیںنا چاہیے ۔ بغاوت کے بنےبل ضرور دیکھ لیںنے چاہیے ۔یہی حکمت و خرد کا موقع ہے۔اگر وقت گزر جانے کے بعد آنکھوں سے پچھتاوے کے آنسو گریں۔تو پھر شاید یہ کہاوت ہم نے یاد نہیں کی ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” کسی بھی چیز کو موقع دینے سے پہلے اس کے ظاہری و باطنی خدوخال کا جائزہ ضرور لے لیں۔
موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر اپنے سیاسی مسیحاء کا فیصلہ کریں۔ کون حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا۔ملکی مفاد میں کون فیصلے کرے گا۔کون لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالے گا؟ اگرچہ
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مشکل وقت میں قوت فیصلہ کمزور پڑ جاتی ہے۔کیونکہ دو مخفی قوتیں انسان کا تعاقب کرتی ہیں۔پھر ضمیر کی عدالت جو فیصلہ سنا دے۔اسے لاگو کر دینا چاہیے۔روپوشی کی بجائے میدان میں کھڑا ہو جانا چاہیے۔کیونکہ جو ہوا کو دیکھ کر رخ بدل لیتا ہے۔وہ حالات کے تھپیڑوں سے بچ جاتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply