مسٹر خاتمی کے دور میں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے اور رفاہی امور کے سلسلے میں اساتذہ کے مظاہروں کا ایک نمایاں سلسلہ شروع ہوا۔ یہ مظاہرے اپنے ساتھ ایران میں اصول پرست سیاسی دھڑے کی حمایت بھی لئے ہوئے تھے۔ اساتذہ کی اس تحریک کا نتیجہ نیشنل سروس مینجمنٹ بل کے مسودے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ مسوّدہ بطورِ بل مسٹر خاتمی کی دوسری حکومت کے آخری مہینوں میں ساتویں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ اس مسوّدے میں مجوزہ تجاویز میں سے اسکولوں کے انتظامی آئین نامے کی تدوین، ہیڈ ماسٹرز و پرنسپل نیز دیگر اکیڈمک اتھارٹیز کو مزید اختیارات کی تفویض، اساتذہ کی کونسلز کے اختیارات میں اضافہ، اسکولوں میں پرنسپل کے چناو، ٹریننگ اور انتخاب کے منصوبے پر عمل درآمد، تعلیمی مدیریت کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ بنانا، تعلیمی تنظیموں اور فعالیت کی حوصلہ افزائی، نصابی کتب میں سائنسی طریقہ کار کے مطابق زیادہ سے زیادہ ماہرینِ تعلیم کی آراء کی روشنی میں اصلاحات کرنا۔۔۔ وغیرہ شامل تھا۔
اس کے بعد احمدی نژاد کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ایران میں تعلیم و تربیت کا چوتھا دور شروع ہوا۔ یاد رہے کہ مرتضیٰ حاجی کے زمانے میں تعلیم و تربیت کے میدان میں ترقی اور رشد کا ایک “بیس سالہ وژن” سامنے رکھ کر ماہرین تعلیم کا ایک گروپ غور و خوض اور تمرکز کے ساتھ ایک تعلیمی دستاویز لکھ رہا تھا۔ ملک کے انقلابی طبقے اور اصول پرست حضرات اس کاوش کو ناکافی سمجھ رہے تھے۔ احمدی نژاد کے دور میں بہت زیادہ ترامیم، اصلاحات اور اساسی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے کے بعد سپریم کونسل آف ایجوکیشن نے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ وزیر تعلیم نے سخت کوشش اور جدوجہد کے بعد یہ منصوبہ منظوری کے لیے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کو بھیج دیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں نظامِ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے محکمہ تعلیم و تربیت میں اتنی تبدیلیاں کی گئیں اور اتنا اتار چڑھاو آیا کہ انقلاب کے بعد احمدی نژاد کے دورِ حکومت تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی ایک الگ تاریخ ہے، جسے اس مضمون میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس دور میں وزارت تعلیم اس نتیجے پر پہنچی کہ انقلابِ اسلامی کے بعد تعلیم و تربیت کے میدان میں اب تک ایران میں ہونے والی کاوشیں اور مجوزہ تعلیمی منصوبہ مفید ضرور ہے، لیکن یہ ایران کے ثقافتی اور سماجی تقاضوں پر مبنی نظریاتی ماڈل کے تقاضوں کے مطابق نہیں اور اسی وجہ سے مروجہ تعلیمی نظام میں اصلاح کی خاطر کی جانے والی کوششیں متوقع نتائج نہیں لاسکتیں۔ ایران کی وزارتِ تعلیم کے اسی نتیجے تک اپنے قارئین کو لانا ضروری تھا۔ آج پاکستان میں بھی بالکل یہی صورتحال ہے۔
پاکستان کے تعلیمی بحران کی ایران سے مماثلت
ماضی کے ایران کی مانند آج پاکستان کا نظامِ تعلیم بھی شدید بحران سے دوچار ہے۔ ہر مرتبہ تعلیمی نظام میں کی جانے والی ساری اصلاحی کوششوں کا نتیجہ پہلے سے زیادہ ابتری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ تعلیمی منصوبے پر ماہرانہ نقد اور بروقت ترامیم کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی قوم کو آج تک ایک جامع اور مطلوبہ نظام تعلیم نہیں دے سکے۔ اس کیلئے ہمیں تین مراحل طے کرنے چاہیئے:
پہلا مرحلہ
۱۔ پہلے سے موجود و مجوّزہ تعلیمی منصوبے میں اصلاحات و ترامیم کے مقامات کا تعیّن:
ایک مقررہ مدّت کے اندر اس سلسلے میں ماہرینِ تعلیم کی ایک کمیٹی مختلف سکولوں، کالجز، یونیورسٹیز، دینی مدارس اور مختلف علمی سوسائٹیز و کمیونٹیز سے مقالہ جات لکھوائے، کانفرنسز منعقد کرائے اور اس منصوبے پر مکالمہ و مباحثہ کروائے۔ ان کاوشوں کی صورت میں سامنے آنے والے اعتراضات اور نقد کی روشنی میں ایک اصلاحی و ترمیمی مسوّدہ تیار کرکے ماہرین کے سامنے رکھا جائے۔
دوسرا مرحلہ
۲۔ تعلیمی منصوبے کے ابتدائی، وسطی اور نہائی اہداف کا از سرِ نو جائزہ اور تعین:
منصوبہ وہی قابلِ عمل ہوتا ہے، جس کے اہداف نپے تُلے اور واضح ہوں۔ ایک اسلامی و رفاہی ریاست کے تعلیمی منصوبے کا نہائی اور واضح ہدف یہی ہے کہ صراطِ مستقیم پر قائم رہتے ہوئے خدا کا قرب حاصل کیا جائے۔ خدا کے اس قُرب کے سفر میں انسان نے سیاست، اقتصاد، مدیریت، اخلاق، ایجوکیشن، کیمسٹری، فزکس، ٹیکنالوجی اور۔۔۔ ان سارے شعبوں پر عبور صراطِ مستقیم سے پانا ہے۔ ماہرینِ تعلیم نے یہ تشخیص دینا ہے کہ ابتدائی (پرائمری) تعلیم میں یہ صراطِ مستقیم اس مدیریت، شیڈول، محتویٰ، ماحول اور نصاب کے ساتھ طے کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مڈل، ہائی، انٹرمیڈیٹ اور بعد کی تعلیم کیلئے بھی ماہرین نے ہی مذکورہ عناصر کو مشخص کرنا ہے۔
تیسرا مرحلہ
۳۔ تعلیمی منصوبے کے بنیادی نظریاتی ماخذ جیسے کتاب و سُنّت، افکارِ قائداعظم و علامہ اقبال:
ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے تعلیمی منصوبے کے بنادی ماخذ بھی مشخص ہونے چاہی,ے۔ ایک نظام تعلیم جن کتابوں اور شخصیات کی تعلیمات پر کھڑا ہوگا، اُن میں سے ہر اُس کتاب اور ہر اُس شخصیت کا کھل کر ذکر کیا جانا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امر فقط دینیات کی کتاب تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایک تعلیمی ادارے کی مدیریت، شیڈول، نصاب، اساتذہ کی ٹریننگ، ماحول اور برتاو سب کچھ اسی کے مطابق ہوگا۔ جب یہ بنیادی ماخذ مشخص ہو جائیں گے تو شکوک و شبہات اور مخفی کاری کے سب دروازے خود بخود بند ہو جائیں گے۔
ان تین مراحل کے ساتھ ایک مضبوط اور شفاف پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔
تعلیمی پالیسی میں شفافیّت:
پالیسی سازوں یا تعلیمی حکمت عملی بنانے والوں کو اس خیالی دنیا سے نکل کر پاکستان کے زمینی حقائق یعنی پاکستانی ثقافتی اور سماجی تقاضوں پر مبنی ایک نظریاتی ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظریاتی ماڈل ایسا ہونا چاہیئے کہ جو ملک کے اطراف و کنار میں قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل ہو۔ مثلاً جب ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مُسلم اقلیتیں بھی رہتی ہیں تو نظامِ تعلیم کے بنیادی ماخذ قرآن و سُنّت قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر مُسلم اقلیتوں کے بچوں کو اُن کے اپنے ادیان کے مطابق نظریاتی رُشد کا اس میں کوئی سامان ہی موجود نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں انہیں مسلمان بنانے کیلئے ایک دعوتی و تبلیغی قسم کا نظام بنا دیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو یہ یکساں نظامِ تعلیم اور ایک قوم ایک نصاب کی روح کے منافی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں قرآن و سنّت کو بنیادی ماخذ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سُنّت نے دیگر ادیان و مذاہب کو جو مذہبی آزادی اور سماجی احترام دیا ہے، اُس کی جھلک استادوں کی تربیت، سکول کے ماحول اور کتابوں کے صفحات سے چھلکے۔ جہاں دوسرے ادیان کی آبادی کے تناسب سے کتابوں میں ان کے مشاہیر، خوبیوں اور تہواروں کا ذکر موجود ہو، وہیں تعلیمی اداروں کے بچوں کو عملاً دوسرے ادیان کے تہواروں اور عبادت گاہوں میں لے جا کر انہیں ادب و احترام کے ساتھ باہم جینا سکھایا جائے۔ یہی حال اور یہی حل پاکستان میں بسنے والے تمام اسلامی مسالک و فرق کا بھی ہے۔ ورنہ اگر نظامِ تعلیم کو اسلامی بنانے کا مطلب کسی ایک فرقے کا اسلام زبردستی ٹھونسنا ہے، استادوں کے حُلئے بھی ایک ہی فرقے کے ہوں، کتابوں میں بھی ایک ہی فرقے کے اکابرین اور نظریات کا پرچار ہو اور سکول کا ماحول بھی ایک فرقے کی مسجد کا سا نظر آئے تو ایسا عملاً ممکن نہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ وہ ایک فرقہ بھی مزید لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنے گا اور لوگ مجبوراً اپنے بچوں کو پرائیویٹ اور معتدل اداروں میں بھیجنا پسند کریں گے۔ کسی بھی ملک کے منابع اور وسائل کسی ایک فرقے یا گروہ کی ملکیّت نہیں ہوتے، لہذا نظامِ تعلیم کے نام پر ملکی وسائل اور منابع کو کسی ایک فرقے کی تریج و اشاعت کیلئے استعمال کرنا قانوناً بھی درست نہیں۔ ایک ملک کے نظامِ تعلیم میں ملک کی ساری اکائیوں کی مناسب اور متناسب نمائندگی ضروری ہے۔ جب نظامِ تعلیم میں ساری ملکی و قومی اکائیوں کی نمائندگی ہوگی تو تب وہ نظامِ تعلیم مُلکی ثقافتی اور سماجی تقاضوں کی ضروریات کو پورا کرسکے گا۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب پالیسی ساز اسلامی تعلیم و تربیت کے فلسفے سے آگاہ ہوں۔
اسلامی فلسفہ تعلیم و تربیّت:
اسلامی فلسفہ تعلیم و تربیت کا طرہِ امتیاز یہ ہے کہ یہ دنیا کے ہر دین، مسلک، مکتب اور عقیدے کے لئے ایک معقول بیانیہ رکھتا ہے۔ یہ انسانی احساسات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے انسان کو عقل و منطق اور شعور کے ساتھ ایک حقیقی انسان بننے کی دعوت دیتا ہے۔ ایسا معقول، منطقی اور افہام و تفہیم سے آراستہ فلسفہ ماہرینِ تعلیم کو ہرگز دھونس، جبر، دغا بازی، فریب کاری اور مخفی چالوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پس ہمارے تعلیمی پالیسی سازوں کو سب سے پہلے اسلام کے فلسفہ تعلیم و تربیت کو حقیقی معنوں میں سمجھنا چاہیئے اور اس کے مطابق ملک و قوم کیلئے پالیسی تشکیل دینی چاہیئے۔ نظامِ تعلیم کیلئے تین مراحل، اہداف کے تعیّن اور پالیسی کی شفافیّت کے ساتھ ہمیں اُن قواعد کی بھی ضرورت ہے، جن کی پابندی کرنے سے ہی ایک نظامِ تعلیم تشکیل پا سکتا ہے۔
اسلامی تعلیم و تربیت کے جامع ترین اصول
اب ہم اسلامی تعلیم و تربیت کے صرف تین جامع ترین اور اساسی اصولوں کو بطورِ نمونہ پیش کر رہے ہیں: ۱۔ علمی اصول ۲۔ فلسفیانہ اصول ۳۔ دینی اصول
اب آیئے ان اصولوں کی شناخت اور اہمیت پر قدرے روشنی ڈالتے ہیں:
1۔ علمی اصول
بہترین نظامِ تعلیم وہی ہے، جو کسی معاشرے و سماج کی تعلیمی و تربیتی ضروریات کو جانتا ہے۔ صرف ضروریات کا جاننا کافی نہیں بلکہ یہ بھی انتظام ہونا چاہیئے کہ مفقود ضروریات کو کن علوم و فنون سے پورا کیا جانا ہے۔ لہذا تعلیم و تربیت کا پہلا علمی اصول یہ ہے کہ کسی معاشرے و سماج کی کمیوں اور خامیوں کو دور کرنے کیلئے مطلوبہ علوم و فنون کے مطابق اساتذہ کا انتخاب کیا جائے اور انہیں تربیت دی جائے، اداروں کا ماحول انہی علوم و فنون کے مطابق ہو اور کتابوں میں وہی علوم و فنون ماہرانہ نوآوری کے ساتھ درج ہوں، نیز عملی دنیا میں طلباء کو ان سے آشنا کرنے کا اہتمام ہو۔
۲۔ فلسفیانہ اصول
ایک اسلامی فلسفے و نظریئے پر مبنی نظامِ تعلیم کے ماہرین کے مطالعات میں یہ ہونا چاہیئے کہ انسان اپنے بارے میں، کائنات کے بارے میں، موجودات کے بارے میں، اپنے اور دیگر موجودات کے درمیان تعلق اور وجود میں آنے کے بارے میں ماضی میں کیا سوچتا رہا ہے اور حال و مستقبل میں اس کی سوچ کا دائرہ کہاں تک وسیع ہونے کا امکان موجود ہے۔ ہر شعوری تحریک اور مکتب کے پیچھے اُس کا مخصوص فلسفہ ہوتا ہے۔ فلسفے کی مختلف تشریحات اور تعریفوں سے قطع نظر علم فلسفہ ایسے موضوعات کی تحلیل کرتا ہے، جو تجربی سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ ایک فلسفی گہری عقلی روش یعنی عمیق اور لچکدار تنقید کے ساتھ کائنات کے بارے میں انسانی سوچ، افراد کے انفرادی و اجتماعی رویّوں نیز ان کے عمل و ردعمل کا منظم طریقے سے جائزہ لیتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ فلسفیانہ مکاتب کو سمجھے بغیر ہی کوئی شخص نظامِ تعلیم انسان کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھائے اور وہ مطلوبہ اہداف تک بھی پہنچ جائے۔ تعلیم و تربیت کے لئے فلسفیانہ اصولوں کا جاننا اور ان سے عملاً استفادہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
یہ فلسفیانہ قواعد مزید تین دستوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:
الف:۔ اصول ِمعرفت، ب۔ شناختِ دنیا کا اصول، ج۔ شناختِ انسان کا اصول، د۔ اقدار کا اصول
الف: اصول ِمعرفت
تعلیم و تربیت کا مقصد ہی انسان کو ایک ہدف کی طرف لے جانا ہے۔ انسان کے ذہن اور دماغ کو سمجھے بغیر اسے اپنے ہمراہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس مقصد کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا انسان کے اردگرد کچھ ایسے حقائق بھی موجود ہیں، جو اس کی عقل میں نہیں سما سکتے؟ اگر ہمارا جواب ہاں میں ہوگا تو ہم ان حقائق کی معرفت کو حاصل کرنے کی جستجو کریں گے اور انسان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہمارا تعلیمی پروگرام اُس شخص سے قطعاً مختلف ہوگا، جس کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسان کے دماغ میں آسکتا ہے، وہی حقیقت ہے اور اس سے ماوریٰ کچھ بھی نہیں۔
یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ معرفت اور شناخت کسے کہتے ہیں؟ معرفت کی شرائط اور لوازم کیا ہیں؟ کیا معرفت اور شناخت کے درجات اور اقسام ہیں؟ کیا معرفت گھٹتی اور بڑھتی ہے؟ کیا حقائق کے بارے میں سب افراد کو یکساں معرفت حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا معرفت کو باطل بھی کیا جا سکتا ہے؟ معرفت اور شناخت کے حصول کے وسیلے کون سے ہیں؟ استاد، کلاس، مراقبہ، کتابیں، تجربہ، شہود، الھام، وحی۔۔۔ ان میں سے کونسا وسیلہ کس انسان کیلئے کن حالات میں کارآمد ہوتا ہے؟ کیا معرفت کو ایک مقام یا ظرف سے دوسرے میں منتقل کیا جا سکتا ہے؟ معرفت کا ڈھانچہ کیسا ہے؟ معرفت کی ماہیت مفرد ہے یا مرکب؟ یعنی معرفت بذات خود ایک مستقل علم ہے یا دیگر علوم سے مرکب ہے؟ انسان کی معرفت کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟
کیا انسان اس جہان کے علاوہ کسی اور جہان کی معرفت اور شناخت بھی حاصل کرسکتا ہے؟ کسی کے بارے میں معرفت کا کیا مطلب ہے؟ کیا معرفت سچی اور جھوٹی بھی ہوسکتی ہے؟ ہمیں کسی چیز کی معرفت ہو یا نہ ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تعلیم و تربیت میں معرفت اور شناخت سے کیا مراد ہے۔؟ انسانی ذہن کو ایک ہدف تک پہنچنے کیلئے ایسے ہزاروں سوالوں کے جوابات چاہیئے ہوتے ہیں۔ معرفت اور شناخت کے اصولوں سے آگاہی کے بغیر انسان کو کسی قسم کی جامع اور حقیقی معرفت عطا نہیں کی جا سکتی اور حقیقی معرفت کے بغیر انسان اپنے حقیقی ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس اسلامی نظامِ تعلیم کو معرفت کے تصوّرات سے آگاہ اور ہم آہنگ ہونا چاہیئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو معاشرے میں پائے جانے والے تمام فکری طبقات کو ایک نظامِ تعلیم کے اندر سمویا جا سکتا ہے۔
ب۔ شناختِ دنیا کا اصول
شناختِ دنیا کا اصول، اسے جہان بینی بھی کہا جاتا ہے۔ اس دنیا کی “ایک مخلوق انسان” ہے، نسل انسانی کی حیات، بقاء اور ارتقاء کیلئے انسان مجبور ہے کہ اس جہان اور دنیا کو اچھی طرح پہچانے۔ دنیا کے بارے میں اس کے نظریات واضح اور روشن ہونے چاہیئے۔ اس سلسلے میں دانشمند مختلف آراء رکھتے ہیں، کچھ دنیا کو مادے کے علاوہ ایک روحانی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اس جہان کے اعتبار سے روح اور مادے کے اختلاط کے قائل ہیں۔ انہیں ہر ذرّے میں ایک روحانی توانائی جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لہذا ان کے ہاں سائنس و مادہ اور تعلیم و تربیت سب کچھ روحانیت سے آمیختہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے برعکس، کچھ دانشمندوں کے نزدیک یہ جہان اور دنیا ایک مادی حقیقت ہے۔ ان کے نزدیک سائنسی علوم اور تعلیم و تربیت کو مادے اور اس کی مختلف حالتوں تک ہی محدود رہنا چاہیئے۔ ظاہر ہے یہ دو طرح کی سوچ دراصل دو طرح کے نظام تعلیم و تربیت کو جنم دیتی ہے۔ لہذا ایک نظامِ تعلیم کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیمی منصوبہ بندی میں آئیڈیالوجی اور نظریات کو مبہم نہ ہونے دے، ورنہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔
ج۔ شناختِ انسان کا اصول
ایک نظامِ تعلیم میں سب سے پہلے خود انسان کو اُس کی اپنی شناخت ہونی چاہیئے۔ نظامِ تعلیم انسان سے اُس کی شناخت اور خودی چھیننے کے بجائے اُس پر مُنکشف کرے کہ وہ کون ہے؟ کیسا ہے؟ اُسے کیسا ہونا چاہیئے؟ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ آیا انسان فقط مادی جسم کا نام ہے یا یا وہ مادی بدن اور روح سے مرکب ہے؟ وہ صرف مادی جسم اور ضروریات رکھتا ہے یا اس کی ایک روح بھی ہے اور اس کی روحانی تعلیم و تربیت کی بھی ضرورت ہے؟ اپنے بدن کا تو ہر انسان کو شعور ہے، لیکن کیا روح کی معرفت، شعور اور تعلیم و تربیت و ارتقاء بھی اس کیلئے ممکن ہے؟ جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ انسان کیا ہے تو پھر ہم اس کی تعلیم و تربیت کا بھی ٹھیک طریقے سے بندوبست کر پائیں گے۔ انسان کی شناخت ایک بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے، انسان شناسی کی اصطلاح انسان کے وجود کے طول و عرض کی وضاحت کے لئے استعمال ہوتی ہے، کسی بھی تعلیمی نظام میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی ادراکات کی ہے۔
کیونکہ تعلیمی نظام کے تمام اجزاء، بشمول تصورات، اہداف، اصول اور طریق کار، سب کا تعلق انسانی ادراک کے احوال اور طول و عرض سے ہے۔ انسان کو اُس کی درست شناخت کرائے بغیر کوئی بھی نظامِ تعلیم کسی شخص کو کسی مقصد یا ہدف کی طرف حرکت نہیں دے سکتا، یعنی انسان کو جانے اور پہچانے بغیر اُسے اس کے ہدف تک پہنچانا ممکن نہیں، لہذا انسان کو جاننا اور اس کی خصوصیات کو پہچاننا نظامِ تعلیم کی اساسی شرائط میں سے ایک ہے۔ انسان کے بارے میں بطورِ مخلوق، ماہرینِ تعلیم کا مشاہدہ اور علم جتنا گہرا ہوگا، اس کی تعلیم کے لئے منصوبہ بندی اتنی ہی معیاری، موثر اور اسے مقصد تک پہنچانا اتنا ہی آسان ہوگا۔
د۔ اقدار کا اصول
نظامِ تعلیم انسان کی اقدار کا سانچہ ہوتا ہے۔ ایک نظامِ تعلیم میں دینی اقدار یا سیکولر اقدار میں سے کس کا غلبہ ہے، اس کا تخمینہ اُس نظامِ تعلیم کے پروردہ طالب علموں کی عملی زندگیوں سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ سیکولر اخلاق و کردار جلد اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاو کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ اسلامی اقدار میں انسان کا بااخلاق ہونا دراصل اس کا الِہیٰ تر ہونا ہے۔ الِہیٰ اور غیر الِہیٰ اقدار و اخلاق اور کردار کبھی ڈھکا چھپا نہیں رہ سکتا، ایک نظامِ تعلیم کے ماہرین کیلئے اقدار کے منابع اور اقسام کو ذاتی طور پر جاننا ضروری ہے۔انہیں سماج کی لیبارٹری میں عملی طور پر معلوم ہونا چاہیئے کہ اقدار و اخلاق اور اقدار کے حسن و قبح کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اگر کسی نظامِ تعلیم کے ماہرین، اقدار و اخلاق اور کردار کے استخراجی و استنباطی قواعد سے آشنا نہ ہوں تو وہ نظامِ تعلیم بھی مطلوبہ اخلاق و کردار کے حامل افراد تیار نہیں کر پائے گا۔ پس اسلامی نظام تعلیم و تربیت کی تشکیل میں نمایاں طور پر الِہیٰ اقدار کی شناخت کا بندوبست ہونا چاہیئے۔
3۔ دینی اصول
انسان کے اہداف کا تعین دین کرتا ہے۔ ایک دیندار انسان اپنے لئے صرف اسی ہدف کو قبول کرتا ہے، جس کی تصدیق اس کا دین کرے۔ انسان کے ہدف کے تعین اور تصدیق کے عمل کو ہدایت کہا جاتا ہے۔ جو شخص توحید کی شناخت اور اس پر ایمان رکھتا ہے، وہ کسی طور بھی کسی مادی ہدف کیلئے اپنی زندگی کو صرف کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص ملحد اور سیکولر نظریات کا ہوتا ہے، وہ صرف اُسی کام کو انجام دیتا ہے، جس میں اُس کا مادی فائدہ ہوتا ہے۔ پس اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں دین کو بطورِ ماخذ اصول یعنی جڑ اور بطورِ ضابطہ اصول یعنی قاعدہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں دین کی ان دونوں جہتوں سے استفادے کیلئے ماہرینِ تعلیم کو دین کے عمیق فہم اور استخراجی صلاحیت سے مسلح ہونا چاہیئے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کیلئے دین ایک جڑ بھی ہے اور ایک قاعدہ بھی۔
خلاصہ:
کسی بھی قوم کا مستقبل اُس کے نظامِ تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتا ہے۔ اُس کے جوانوں نے مستقبل میں کیسا ہونا ہے، اُس کے ملک کی ضروریات کہاں سے پوری ہونگی؟ آگے چل کر ملک کے اندر برداشت، تحمل، میرٹ، اخلاق، مساوات، عدالت اور رواداری کا کیا عالم ہوگا اور بیرونی دنیا کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہونگے۔۔۔ یہ سب ایک نظامِ تعلیم ہی طے کرتا ہے۔ ہم، ہماری قوم اور ہمارا ملک آج جہاں بھی کھڑا ہے، یہ ہمارے گذشتہ نظامِ تعلیم کے باعث ہے اور آگے ہم کس مقام پر پہنچیں گے، اُس مقام کا تعیّن بھی ہمارا نظامِ تعلیم ہی کرے گا۔ ملکی سلامتی، ہر طرح کے استحکام اور قومی عزت و وقار کیلئے نظامِ تعلیم کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایران نے اسے اپنی ترجیحات میں رکھا اور بالآخر ایک بہترین تعلیمی منصوبے کو حتمی شکل دے کر نافذ کر دیا ہے۔ نظامِ تعلیم کو اوّلین ترجیح میں قرار دینے کے ثمرات آج سب کے سامنے ہیں۔ ایران اس وقت دنیائے اسلام کے تمام اہم مسائل میں جہاں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے، وہیں بدترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی اور عسکری میدان میں ساری دنیا کو حیران کئے ہوئے ہے۔
ہمیں پاکستان کے تعلیمی منصوبے کو شدّت پسندی، فرقہ وارانہ دھونس، مُلحدانہ یلغار اور سازشی چالوں کی کھٹائی سے نکال کر پاکستان کی ثقافتی اور سماجی ضروریات کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ ہمیں فرقوں کے اسلام کے بجائے حقیقی اسلام کو ہی اپنا فلسفہ اور اسے ہی اپنا اصول قرار دینا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اقلیتیں بھی ایسے نصابِ تعلیم کو قبول کریں گی اور سارے فرقے بھی۔ ہم اپنی آج کی نسل کو اسلامی مساوات، دینی مواخات، معاشرتی عدل، قانونی انصاف، اقلیتوں کے ساتھ رواداری، معاملات میں حُسنِ اخلاق، قومی بیانئے پر استقلال، اختلافات کی صورت میں احترامِ باہمی، مقابلے کی دنیا میں محنت و مشقت، رشوت اور دھونس کے بجائے میرٹ اور تعصبات کی جگہ سائنس و ٹیکنالوجی کی جیسی تعلیم دیں گے، ہمارا کل کا پاکستان ویسا ہی ہوگا۔ ہمیں اپنے اپنے تعصبات کی وجہ سے اپنے کل کے پاکستان کو مشکلات میں نہیں دھکیلنا چاہیئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں