ایک امریکی کا وہم۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میتھیو گرین نام کا ایک سفید فام اور خوش شکل جوان امریکی، امریکہ میں تعلیم یافتہ خاتون سے بیاہ کرکے ماسکو میں آن بسا تھا۔ اس نے اپنے طور پر پیراسائکولوجی سے متعلق نصابی کتب لکھیں اور کورس مشتہر کیا۔ میں تب بے روزگار تھا۔ اس کے کورس کی فیس سات سو ڈالر تھی۔ میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی مگر چونکہ ایک سال پہلے مجھے کچھ عجیب سا تجربہ ہوا تھا اس لیے میں یہ کورس کرنے کا خواہاں تھا۔ خیر میتھیو سے ملا، اسے صورت حال بتائی اور کورس کرنے کی خواہش ظاہر کی، ساتھ ہی کہا کہ میرے پاس دو پینٹنگز ہیں، تم کورس کی مد میں وہ قبول کر لو۔ وہ خلیق اور خوش اخلاق امریکی تھا، مان گیا۔ ڈھائی ماہ کا کورس تھا، کوئی آٹھ کے قریب لوگ اس کورس میں شامل تھے، میرے اور ایک روسی کے علاوہ باقی سب امریکی یا یورپی تھے اور سب ہی اچھے عہدوں یا اہم پیشوں سے وابستہ۔ کورس مکمل کیا اور میتھیو سے دوستی ہو گئی۔ پیراسائیکولوجی کے درست ہونے سے متعلق ہم متفق تھے کہ ففٹی ففٹی ہے۔
کچھ عرصہ گذرنے کے بعد میں نے ایک پاکستانی کے ساتھ شراکت میں ہوٹل کا فلور لے کر کمرے کرائے پر دینے کا کام شروع کر دیا۔ چونکہ دفتر کے طور پر ایک کمرہ میسر تھا اس لیے میں نے بطور شغل کے پیرا سائکالوجسٹ ہونے کا چھوٹا سا اشتہار دے دیا۔
مخلوط نسل کا دراز قد امریکی جو ماسکو میں ایک بڑی عمارت تعمیر کرنے والی کمپنی کا چیف سول انجنیر تھا، میرا پہلا “گاہک” یا “مریض” تھا۔ جب وہ پہنچا تو میں نے اسے نہانے کے لیے کہا۔ جب نہا کر باہر نکلا تو میں نے اسے برہنہ ہو کر لیٹ جائے کو کہا۔ اس کے بدن پر ہوا میں دونوں ہاتھ لہراتے ہوئے میں نے گمبھیر آواز میں کہا ” اور میں ایک سیاہ سایہ دیکھ رہا ہوں”۔ وہ بول پڑا ہاں وہ مجھے افریقہ میں ملی تھی۔
پیراسائکولوجی کون سی؟ بات سائیکولوجی کی تھی مگر میرا اظہاریہ “پیر” کا سا تھا۔ میں نے اس کا علاج شروع کر دیا۔ یعنی اس سے باتیں کرنے لگا۔ حربہ وہی کہ کالا بکرا قربان کرنا ہوگا۔ ماسکو میں وہ بیچارا کہاں سے بکرا لاتا، کہاں قربان کرتا۔ ظاہر ہے میں نے ذمہ داری لی۔ کونسا بکرا کونسی قربانی؟ فیس کے علاوہ بکرے قربان کرنے کے پیسے بھی دھروا لیے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ وہ نا صرف ٹھیک ہو گیا بلکہ بہت مطمئن تھا۔ البتہ اس ایک ہی “گاہک” بعد میں نے یہ کام آگے نہیں بڑھایا کیونکہ جھوٹ بولنا مجھے پسند نہیں اور میں نے اس سے سب جھوٹ کہا ماسوائے نفسیاتی تسلیوں کے۔
اس کی کہانی یوں تھی:
میں آسٹریا کی برتھا سے بیس برس پہلے ریاض سعودی عرب میں واقف ہوا تھا۔ وہ بہت اچھی اور سگھڑ عورت تھی۔ سچ بولتی تھی، دیانت دار تھی۔ مگر اس کا مزاج بگڑ جایا کرتا تھا جس پر وہ جلد قابو پا لیا کرتی تھی۔ اس نے اپنے ہٹ دھرم ہونے سے متعلق مجھے پہلے سے بتا دیا تھا۔ دیکھنے میں وہ شرمیلی اور اللہ میاں کی گائے لگتی تھی مگر وہ تھی انتہائی منتقم مزاج۔
وہ اپنے قصبے کی سیاست میں شدو مد کے ساتھ حصہ لیتی تھی مگر مجھ سے تعلقات استوار ہونے کے بعد اس نے اپنی سماجی سرگرمیاں ترک کر دی تھیں۔ قصبے میں ہمارے تعلقات خفیہ تھے۔ میں شہر میں کھل کے گھوم پھر نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کا علیحدہ رہنے والا شوہر شرابی تھا۔ برتھا طلاق پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ چونکہ شوہر شرابی ہونے کے علاوہ برتھا کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتا تھا اس لیے وہ اس سے علیحدہ ہو کر رہنے لگی تھی۔ اس کے بچوں کے ساتھ میری اچھی شناسائی تھی۔ ہم نے مل کر بہت سفر کیے تھے۔ اس نے بچوں کی تربیت جدید خطوط پر کی تھی جس کے اچھے اثرات ظاہر ہوئے۔
وہ اپنے کنبے کے ساتھ 1980 میں سعودی عرب سے لوٹ گئی تھی۔ دس سال ہمارا کوئی رابطہ نہیں رہا۔ اس کا بھائی آسٹریلیا میں چل بسا تھا اور وہ نیا گھر تعمیر کرا رہی تھی۔ خط و کتابت سے ہماری آشنائی بڑھ کر ایک جذباتی رشتے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ میں تب مدینہ میں مسجد نبوی کی تعمیر نو میں مشغول تھا۔ ہمارے اس تعلق سے متعلق اس کے شوہر اور میری بیوی کو معلوم ہو گیا تھا۔ اس اثناء میں ہم بہت سے ملکوں میں اکٹھے جا چکے تھے، مثال کے طور پر پانچ بار امریکہ، کینیڈا، بنگلہ دیش، بھارت، سنگاپور، نیپال اور دوبار وہ میرے پاس ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں ملنے آئی تھی۔
گذشتہ ڈیڑھ برس میں پہلے اس کی بہن مری، چھ ماہ بعد اس کا بڑا بھائی اور دو ماہ پہلے کولون جرمنی کی آٹوباہن پر دل کا دورہ پڑنے سے اس کا چھوٹا بھائی چل بسا۔ اس کے خاندان میں لوگ سرطان اور دل کا دورہ پڑنے سے مکھیوں کی طرح مرنے لگے، دو بہنیں بچ رہی ہیں، جن میں ایک ذہنی طور پر معذور ہے۔
گذشتہ برس جب وہ میرے ساتھ بنگلہ دیش میں تھی تو اس کے نچلے پپوٹے پر خراش کی مانند ایک ہلکا سا نشان پڑا تھا۔ اکتوبر 1998 کو جب وہ ماسکو سے لوٹی تو اس کی تشخیص سرطان کی رسولی کے طور پر کی گئی۔ تین ہفتے پہلے دو گھنٹے کے کامیاب آپریشن کے بعد اسے نکال دیا گیا ہے۔ اس کا زخم ٹھیک نہیں ہو رہا جس کا وہ مجھے الزام دیتی ہے۔
برتھا میں غیر معمولی صلاحیتیں ہیں جو اگرچہ پیش رفتہ نہیں لیکن اس نے مجھے بتایا کہ اسے خاندان میں کسی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا پہلے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ اسے لگا جیسے جب گذشتہ برس میں مساوا، اریٹیریا میں تھا تو میرے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اس نے مجھ پر کبھی بداعتمادی نہیں کی تھی اور ایسا کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ جب اس کے گمان بڑھے تو اس نے سراغرساں کی خدمات لیں، اپنے حواس کا استعمال کیا، قسمت کا حال بتانے والوں سے رجوع کیا اور میری آنجہانی والدہ کو بطور معمول کے استعمال کرکے جب تک بال کی کھال نہیں نکال لی چین نہیں لیا۔ اس نے سفر کیے اور پیسے کی پرواہ نہ کی۔ اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ میرے دشمن کون ہیں۔ خاص طور پر میرا ایک جرمن رفیق کار جس نے مجھے پر یہ “سیاہ فام جوان ٹکھیائی” چھوڑی تھی۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ میں نے بدن فروش کو کتنے پیسے دیے تھے اور یہ کہ جب تک وہ عدیس ابابا نہیں لوٹ گئی تھی تب تک وہ مجھ سے کتنے پیسے اینٹھ چکی تھی۔ اسے اس کے جسمانی شرکاء کی تعداد اور اس کے گھڑی گھڑی کے اعمال کی خبر تھی۔ یہ جوان سیاہ فام بیمار تھی اور یہ بات اس نے ایک معمول کے توسط سے بات کرکے اس سے معلوم کی تھی۔ وہ بہت بے درد تھی اور قہقہے لگاتی تھی کہ اس کا بدن بیمار ہے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ عدیس ابابا میں وہ کہاں رہتی ہے تاحتٰی اسے اس کی نسوانی ختنہ تک کا علم تھا اور اس نے مجھ سے پوچھا آیا یہ درست ہے۔ اب اسے اور مجھے یہ احساس ہے کہ ہمارا واسطہ کچھ بہت برے اور ظالم لوگوں سے ہے۔ اسے اپنے گھر کی پڑچھتی میں سے ایک پلاسٹک کا لفافہ بھی ملا جس میں کاغذ میں لپٹے ہوئے زندہ کھٹمل تھے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ لوگ مجھ سے مالی مفاد حاصل کرنے کی خاطر ہمیں روحانی طور پر بلیک میل کر رہے ہیں۔
ایک سال پہلے جب میں عدیس ابابا سے لوٹا تو برتھا نے مجھے سے کئی سوال کیے کیے اور بار بار کیے تاحتٰی میں نے اعتراف کر لیا جس سے اس پر اعصاب شکنی کا حملہ ہو گیا۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ سیاہ فام کئی امراض میں مبتلا تھی۔ وہ مجھ سے ایک ہی سوال پوچھتی ہے، ” تم نے ایسا کیوں کیا؟” ہماری ای میلز اور فیکس میسیجز اسی سوال سے پٹے پڑے ہیں۔ وہ مجھے دھمکانے لگی ہے کہ وہ اپنے پہلے دوست کے پاس چلی جائے گی جو آج بھی اس کا معترف ہے۔ اسے مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ تیس سال پہلے اس کا دوست بنا تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر ہے، ایک فیکٹری میں کیمیائی مادوں سے وابستہ ہے، ایک بڑے مشترکہ گھر کا اب تک مالک ہے، وہ کہتی ہے کہ وہ وہاں محفوظ رہے گی۔ یا لونلی ہرٹس کلب میں جا کر کسی اور کو ڈھونڈ لے گی۔ بلکہ اب وہ کہنے لگی ہے کہ وہ آسٹریلیا ایک بینکار کے پاس چلی جائے گی جس کی بیوی کا ایک سال پہلے انتقال ہو چکا ہے اور وہ آج بھی برتھا کا پرستار ہے بلکہ اس کی مرتی ہوئی بیوی نے اسے اجازت بھی دے دی تھی مگر برتھا نے ابھی تک رضامندی ظاہر نہیں کی۔
اب وہ ایک بار پر میری آنجہانی والدہ کو معمول بنا کر ماسکو میں میرے بارے میں معلوم کرنا چاہتی ہے کہ کہیں میرے “ناجائز تعلقات” تو نہیں ہیں۔ جس عورت سے وہ یہ عمل کرواتی ہے، اس نے اسے بتایا کہ ایک رات معمول نے آ کر اس سے بات کرنا چاہی اور ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ معمول کرنے کی جلدی میں ہے کیونکہ یوں اس کی روح کو سکون ملے گا، اس عورت نے بتایا۔ اس نے بتایا کہ میری ماں ایک اچھا معمول ہے جو انگریزی میں بات کرتا ہے جبکہ دوسرا معمول جو ایک آسٹریائی خاتون ہے، صرف جرمن میں بات کرتی ہے اور کچھ ایسے فقرے بولتی ہے جو اسے سمجھ نہیں آتے۔ اس عورت کو میرے بارے میں ہر وہ چیز معلوم ہو چکی ہے، وہ بھی جو میرے لاشعور میں ہیں جیسے مثال کے طور پر 1963 میں بالٹی مور میں جس ہمسائی کے ساتھ میرا پہلا جنسی تجربہ ہوا تھا، اسے اس کے خاوند نے ایک اور آدمی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ کر اتنا پیٹا تھا کہ وہ بس مری نہیں تھی جبکہ مرد کو اس نے چاقووں کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ بات اسے معمول نے بتائی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ عورت بھی سامنے آ جائے گی اور یہ دونوں عورتیں یعنی بالٹی مور والی ہمسائی اور حبشہ والی ٹکھیائی میری دولت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
برتھا کا مجھ سے ایک ہی سوال ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ وہ سمجھتی ہے کہ میں اس سے جھوٹ بولتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ مجھ پر عذاب ہے کیونکہ میں زندگی بھر محتاط رہا اور برے کاموں اور برے لوگوں سے دور رہا۔
جب وہ اکتوبر 1998 کو ماسکو سے آسٹریا لوٹی تو روز تاش کے پتوں سے میرے اور اپنے بارے میں معلوم کرتی۔ اس نے کہا کہ کسی قریبی شخص کی جلد ہی موت ہوگی۔ تاش کے پتوں میں یہ سیاہ فام ٹکھیائی ہمیشہ میرے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ اب اسے ایک اور عورت بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ برتھا منفی باتیں بتاتی ہے جیسے کہ مقدمات ہونگے اور یہ کہ آسٹریلیائی بینکر اب بھی اس کا منتظر ہے۔
برتھا اس سے پہلے بہت مغرور، متکبر اور ضدی شخص تھی اگرچہ وہ کسی طرح اپنی ان صفات کو چھپائے رکھتی تھی۔ البتہ جب کوئی اس کے خلاف ہو تو وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ وہ غلطیاں کرتی ہے، جیسے سب انسان مگر وہ ہے کاملیت پسند۔ وہ ہر شے سے متعلق خبر رکھتی ہے اور پھر خیال رکھتی ہے۔ وہ چنائی کر سکتی ہے، بجلی کی تاریں اور پانی کے پائپ بچھا اور ٹھیک کر سکتی ہے، وہ کڑھائی سلائی بھی جانتی ہے اور ہر شے کو انتہائی صاف ستھرا رکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسی صفات والی عورتین بہت کم ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اس کے دل میں گھر کر جائے تو وہ بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ خرچیلی ہے مگر تھوڑی سی رقم سے بھی گذر بسر کر سکتی ہے۔ اس سے زیادہ پیار کرنے والی عورت کا میں تصور نہیں کر سکتا۔ میں دل کی گہرائیوں سے اس کی قدر کرتا ہوں مگر یہ سب باتیں جو چل رہی ہیں، نے مجھے بیمار کر دیا ہے۔
اب عام پڑھا لکھا شخص چاہے اسے نفسیات کا درک تک نہ ہو جان سکتا ہے کہ یہ امریکی انجنیر برتھا سے بہت پیار کرتا ہے۔ اس سے ایک غلطی ہو گئی تھی جبکہ برتھا بہت وہمی ہے۔ اس میں حبشہ کی جوان ٹکھیائی کا کوئی قصور ہے ہی نہیں۔ اگر اللہ نہ کرے انجنیر کو ایڈز ہونی بھی ہے تو آٹھ دس سال بعد ہوگی۔ مگر وہمی عورت نے اسے بھی وہمی بنا دیا کہ ٹکھیائی کی قربت سے وہ بیمار ہو گیا، وہ جادوگرنی ہے اور اس کے پیسے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ( جبکہ اصل میں برتھا کی نگاہ بھی اس کی دولت پر ہی ہے ) اور یہ کہ ان پر روحانی لعنت کا اثر ہے۔
یہ ذہنی مریض شخص بھی پڑھا لکھا تھا۔ ماہرین نفسیات سے بھی رجوع کر چکا تھا مگر انہوں نے اسے کہا تھا کہ بس وہم ہے، اسے جھٹک دو جبکہ میں نے روحانی معالج کا ڈرامہ کیا تھا۔ دنیا میں لوگ زیادہ ذہنی مریض ہیں اور کم علم اس لیے ماہرین نفسیات سے زیادہ نام نہاد روحانی ماہرین پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔
اپنے ارد گرد دیکھیے تو آپ کو ایسے بہت سے مل جائیں گے جو اپنے نفسیاتی معاملات کا حل روحانی لوگوں کے پاس دیکھتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply