نیا فرش۔۔امبر زہرا

اُس نے اپنی شادی کے چار بہترین جوڑے اٹھائے جو اُس کی اماں نے بڑے پیار سے 12 سال پہلے اُس کے بیاہ کے وقت اپنے ہاتھوں سے بنائے تھے۔ اِن چار جوڑوں کی قیمت اتنی ہی بن رہی تھی جتنی شاکر کالیئے کو چاہیئے تھی وہ جلد از جلد ان کو بیچ کر شاکر کالیئے کے اڈے پر پہنچنا چاہتی تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ رقم کے ساتھ شاکر کے اڈے پر تھی اُس کے لئے سب سے کٹھن مرحلہ یہی ہوتا تھا جب اسے یہاں سب عجیب اور گندی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اُس نے وہ پیسے جلدی سے شاکر کے ہاتھ میں تھمائے اور اس سے مارفین کا انجیکشن طلب کیا۔ شاکر نے ایک غلیظ مسکراہٹ کے ساتھ مارفین سے بھرا ٹیکہ اس کے حوالے کیا۔ وہ اک لمحہ ضائع کیئے بغیر اپنے گھر کی طرف دوڑی۔ گھر پہنچتے ہی اُس نے اپنے سر پر  اوڑھی ہوئی چادر کو اک طرف اچھالا اور انجیکشن لئےصفدر کی چارپائی کے پاس پہنچی۔۔ صفدر کو بےحوش ہوئے 3 گھنٹے ہو چلے تھے۔ اس نے صفدر کی آستین اوپر چڑھائی اور نبض ٹٹولنا شروع کی۔ آنسو آج بھی اُسی طرح بہہ رہے تھے جس طرح پہلی بار صفدر کے اِس نشے کے بارے میں سن کر بہے تھے۔ اب تو صفدر آخری سٹیج پر تھا ۔۔قصبے کے ہر ڈاکٹر نے اس کو شہر کی راہ دکھائی تھی۔ شہروں کے دھکے بھی کھائے مگر صفدر کی حالت میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا۔۔ وہاں کے ہسپتالوں کا عملہ خود مریضوں کو نشہ آور پڑیاں بیچتا تھا۔ شبنم کی مالی حالت مزید خراب ہوگئی اب اس کے پاس شہر جانے کا کرایہ تک نہیں تھا ۔ گھر کی ہر چیز اس نے صفدر کی خاطر بیچ ڈالی تھی۔

وہ انجیکشن لگا کر فارغ ہوئی تو دس سالہ زینب نے اسے آواز دے کر چونکا دیا۔ “اماں نیا فرش کب ڈلوائے گی نہ بیٹھا جاتا ہے نہ چلا جاتا ہے اور نہ ہی کھیلا جاتا ہے یہ پتھر بہت لگتے ہیں۔” شبنم نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے بالوں کو سہلایا اور کہا “میں جلد ہی نیا فرش ڈلوا دوں گی پھر تم جیسے مرضی اپنی بہنوں کے ساتھ یہاں کھیلنا”۔

شبنم اور صفدر کو اللہ سائیں نے تین رحمتوں سے نوازا تھا ایک وقت تھا جب صفدر نے بہت ترقی کر لی تھی الیکٹرانکس کی دکان ڈال رکھی تھی مگر اللہ جانے اسے یہ نشے کی لت کہاں سے لگی تھی اِس نشے کو خریدنے کیلئے دکان کے ساتھ ساتھ مکان کا آدھا فرنیچر بیچ ڈالا تھا۔ حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ اب شبنم کو اپنی تینوں بیٹیوں کو پالنے کیلئے لوگوں کے گھروں کا کام کرنا پڑتا ایسے میں وہ اپنے گھر میں نیا فرش کیسے ڈلواتی۔ چند دن گزرتے تھے کہ صفدر کو پھر سے دورہ  پڑنا شروع ہو جاتا تھا اور شبنم کو کسی طرح بھی اس کیلئے چند سانسیں خریدنی پڑتی تھیں جو صرف اور  صرف مارفین کے انجیکشن سے ہی ملتی تھیں۔ اس بار بھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ صفدر کو پھر سے نشے کی طلب ستانے لگی۔۔۔ اس کی تینوں بیٹیاں گھر کے باہر کھیل رہی تھیں۔ صفدر نے چارپائی پر پڑے پڑے شبنم کو آوازیں لگائیں وہ جیسے ہی اس کے پاس پہنچی اسے صفدر کچھ عجیب لگ رہا تھا آنکھوں کی بینائی تو کافی عرصہ سے کمزور ہو گئی تھی آج شاید اُس کی آنکھوں کی ساری روشنی ختم ہو گئی تھی۔۔ ایسی بے رونق آنکھیں تو صفدر کی کبھی نہ تھیں۔ آنسو پھر سے اس کے گالوں پر چمکنے لگے اسے صفدر سے بہت محبت تھی اس کی شادی کو بارہ سال ہو چکے تھے مگر اب صفدر کچھ اور تھا وہ محبت بھی صفدر کے نشے کی نذر ہو چکی تھی۔

شبنم نے جلدی سے چادر اوڑھی اور خالی ہاتھ ہی شاکر کالیئے کی طرف دوڑی۔ شاکر نے اسے انجیکشن دینے سے انکار کر دیا اس نے بہت منت سماجت سے شاکر سے اُدھار کا وعدہ کر کے ایک انجیکشن لیا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی ۔ آج اس کی چھٹی حِس اُسے بارہا خبردار کر رہی تھی مگر وہ اک یقین کے ساتھ اپنے گھر کا سفر طے کر رہی تھی۔ گھر پہنچتے ہی وہ صفدر کو انجیکشن لگانے کیلئے اسکی چارپائی پر بیٹھ گئی اُسے صفدر بے حس و حرکت لگا اس نے نبض ٹٹولی مگر وہ ساکن تھی۔ اُس کے سینے سے کان لگا کر اسکی دھڑکن کو سننا چاہا مگر وہ بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ صفدر کا دل اب کبھی نہیں دھڑکے گا۔ اپنے شوہر کے مرنے کا شبنم کو دکھ تو ہوا تھا مگر کوئی جھٹکا نہیں لگا تھا۔ وہ جلد ہی سنبھل گئی۔ نشے نے صفدر کو زندہ انسانوں کی صف سے اسکی زندگی میں ہی مُردوں کی صف میں دھکیل دیا تھا اور یہ اسکی سب سے بڑی مات تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

صفدر کی موت سے اس کی بیوی سمیت کسی کو بھی جھٹکا نہ لگا سب جیسے اس کے انجام سے واقف تھے۔ اسکی موت سے محلے والوں کی طرف سے جو رقم جمع ہوئی اُس رقم سے شبنم نے مکان میں نیا فرش ڈلوا لیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply