کوانٹم تھیوری/انور مختار

ایک پیچیدہ تھیوری ہے اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چند مباحث کا جاننا اہم ہے جن میں کوانٹم وجودات (Quantum Entitites) پر مشتمل تجرباتی حقائق، مرکزی کوانٹم تھیوری اور کوانٹم تھیوری کی تعبیرات کے حوالے سے موجود مسائل شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

اس باب میں انہی کا احاطہ کیا گیاہے۔کوانٹم تھیوری کی تعبیر اور اطلاق میں اختلاف کی وجہ سے فلسفیانہ مسائل پیدا ہوئے ہیں مگر یہ مسائل کوانٹم تھیوری نہیں بلکہ اس کی تعبیر میں اختلاف کی وجہ سے ہیں۔کوانٹم تھیوری سے متعلقہ مسائل کافی پیچیدہ ہیں لیکن کوانٹم تھیوری کے درست فہم کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوانٹم وجودات ، کوانٹم تھیوری اور کوانٹم تھیوری کی تعبیرات میں موجود فرق کو پہچان لیں۔ کوانٹم حقائق سے مراد وہ تجرباتی مشاہدات و حقائق ہیں جو کوانٹم وجودات جیسا کہ پروٹان، نیوٹران، الیکٹران اور فوٹان کے بارے میں تجربات سے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ حقائق اگرچہ حیران کن ہیں مگر ان میں اختلاف نہیں پایا جاتا لیکن ان کی تعبیرات میں ضرور اختلاف موجود ہے ۔ کوانٹم تھیوری ریاضی کے اعداد و شمار پر مبنی ایک تھیوری ہے ۔کوانٹم تھیوری کی بنیادی ریاضی مساوات کو 1920ء کے آخر میں دریافت کیا گیا تھا۔اس تھیوری کو کوانٹم وجودات اور ان سے منسلک تجرباتی حقائق کی وضاحت کے لیے استعمال کیا گیا۔ کوانٹم تھیوری کی مساواتیں بہت زیادہ کامیاب رہی ہیں اور پچھلے ستر سالوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پیشن گوئیوں اور وضاحت کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ کامیاب تھیوری ہے۔ یاسر پیرزادہ اپنے کالم”غیر یقینی کائنات میں سب کچھ ممکن ہے” جو آج 5 جولائی 2023 کو Daily Jang میں شائع ہوا ہے لکھتے ہیں کہ خدا بھلاکرے ورنر ہائیزن برگ کا جس نے کوانٹم میکینکس کا ’اصول ِعدم قطیعت ‘ بولے تو Uncertainty Principle دریافت کرکے ہمارے لکھاریوں کو تصوف کوسائنس سے ثابت کرنےکا موقع فراہم کردیا۔یہ اصول بظاہر سادہ ہے ، اِس اصول کی رُو سے ایٹم میں موجود ذرات کی رفتار اور مقام کا بیک وقت تعین نہیں کیا جا سکتا ۔یہ اصول نیوٹن کی کلاسیکی طبیعات کے ماڈل کی نفی ہے کیونکہ نیوٹن نے ہمیں بتایا تھا کہ اگر کسی شے پر طاقت نہیں لگائیں گے تو وہ شے ساکن رہے گی، اپنی جگہ موجود رہے گی، جبکہ ہائزن برگ کہتاہے کہ کسی ایٹمی ذرے کی حالت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس وقت کہاں ہوگا، ایک لمحے میں اگر وہ ذرہ مقام الف پر ہو تو اگلے ہی لمحے وہ ’ کائنات میں کہیں بھی ہوسکتا ہے ۔‘ ظاہر ہے کہ یہ بیان صوفیانہ ٹچ لیے ہوئے ہے ، صوفی حضرات بھی اسی قسم کی کیفیات کا ذکر کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آن ہی آن میں ایسی دنیائیں دیکھ آتے ہیں جن کی منظر کشی ممکن نہیں ۔اب ورنر ہائزن برگ تو جرمنی میں پیدا ہوا تھا ، وہ کسی خانقاہ کا مجاور نہیں تھا ، اسے تو ایک رات تنہائی میں کسی پارک میں بیٹھے بیٹھے یہ اصول القا ہوا تھا ، بالکل ویسے جیسے نیوٹن پر کشش ثقل کا قانون اُترا تھا۔لیکن ہائزن برگ کے اِس قانون نے تو گویا تصوف کے فلسفے میں نئی روح پھونک دی ، اشفاق احمد صاحب نے اِس پر’ من چلے کا سودا‘ لکھ مارا جس میں بظاہر ایک ان پڑھ موچی ڈرامے کے مرکزی کردار ارشاد کو، جو تصوف کی راہ کا مسافر ہوتا ہے ،کوانٹم میکینکس پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔اُس کا ایک مکالمہ دیکھیے ’’کوانٹم تھیوری کو جانے بغیر اور فوٹون کی کیفیت سمجھنے بنا حضرت غوث الاعظم دستگیرؒ کا یہ اسرار کیسے سمجھ میں آجائے گا کہ موحد جب مقام توحید پر پہنچتا ہے تو نہ ہو موحد رہتا ہے نہ توحید ، نہ واحد نہ بِسیار ، نہ عابد نہ معبود،نہ ہستی نہ نیستی،نہ صفت نہ موصوف،نہ ظاہر نہ باطن،نہ منزل نہ مقام، نہ کفر نہ اسلام،نہ کافر نہ مسلمان ۔۔۔At sub atomic level matter does not exist with certainty but rather shows tendencies to exist, this is why particles can be waves at the same time۔۔۔نہ عابد نہ معبود، نہ صفت نہ موصوف،نہ واحد نہ بِسیار، نہ ظاہر نہ باطن۔۔۔کھُل گئی بات ، کھُل گئی بھائی جان، واضح ہوگیا کہ ہم کسی بھی ایٹمی ایونٹ کو یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے،صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے ، تو پھر آگے اُس کی مرضی ، اُس کی مرضی ۔۔۔‘‘
کوانٹم میکینکس نے اشفاق احمد کو ہی نہیں آئن سٹائن کو بھی چکرا کر رکھ دیا تھا ، اُس کا مشہور قول کہ ’’God does not play dice with the universe‘‘بھی اسی تشکیک کو ظاہر کرتا ہے، اِس سے مرادیہ تھی کہ خدا اتفاقات پر انحصار نہیں کرتا یعنی خدا کے نزدیک کوئی چیز محض اتفاقی نہیں ہوتی بلکہ اُس کے پیچھے علت و معلول کا سلسلہ ہوتا ہے تب وہ چیز وجود میں آتی ہے ۔اِس معاملے میں آئن سٹائن اور ماہر طبیعات نیلز بوہر کے درمیان مباحث کا ایک طویل سلسلہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ، سائنس کی اِن دیوقامت ہستیوں کے درمیان ہونے والی بحث اِس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا کائنات لگے بندھے اور یقینی طبیعاتی قوانین کے تحت کام کرتی ہےجن میں کسی غیر یقینی اصول کی گنجایش نہیں ؟ آئن سٹائن اسی تصور کا قائل تھا جس کی وجہ سے اُس نے کہا تھا کہ خدا کی اِس کائنات میں اتفاقاً کچھ نہیں ہوتا ، جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی طبعی قانون کا نتیجہ ہوتا ہے ، بعض صورتوں میں ہم اُس طبعی قانون سے واقف ہوتے ہیں لیکن اگر ہم کسی قانون سے واقف نہ ہوں تو اسے غیر یقینی کیفیت کا نام دینا بہرحال درست نہیں ۔آئن سٹائن کے اِس مشہور زمانہ بیان سے کچھ لوگ یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ شاید اُس کا اشارہ ایسی کائنات کی طرف تھا جو خدا کی تخلیق کردہ ہے اور جس میں ہر بات حتمی طور پر طے شدہ ہے ، چونکہ یہ نکتہ نظر مذہب سے قریب تر تھا اِس لیے مذہبی دانشوروں نے اسے انہی معنوں میں لیا جبکہ آئن سٹائن کا مقصد کوانٹم میکینکس پر سوال کرنا تھا ، وہی کوانٹم میکینکس جو بعد ہمارے صوفی لکھاریوں کا من پسند موضوع بن گئی ۔ جدید دور کے مسلم فلسفیوں اور تصوف کے داعی لکھاریوں میں سے حسین نصر نےاِس سائنسی تصور کوبہت سلیقے سے اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے ۔آئن سٹائن چونکہ کلاسیکی طبیعات کا دلدادہ تھا اِس لیے اصولِ عدم قطیعت کو قبول کرنے میں اسے تامل تھا،اُس کے نزدیک یہ کائنات ایسی ہم آہنگ اور فزکس کے قوانین میں جکڑی ہوئی تھی کہ جس میں کسی بے ترتیبی یا بے یقینی کی کوئی گنجایش نہیں تھی ۔لیکن آپ قدرت کا ’اتفاق ‘دیکھیں کہ جو آئن سٹائن اتفاقات کا قائل نہیں تھا اسے کوانٹم میکینکس کے موضوع ’فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ ‘پر مقالہ لکھنے پر طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا ،جبکہ آئن سٹائن کے خصوصی اور عمومی نظریاتِ اضافیت زیادہ ’ہِٹ ‘ ہیں۔
یہاں ایک سوال بہت دلچسپ ہے کہ اگر ایٹم میں موجودذرات کے مقام اور رفتار کا بیک وقت تعین کرنا ممکن نہیں تو پھر ہمارے سامنے موجود اشیا ساکن حالت میں کیوں رہتی ہیں اور ہم باآسانی اُن کی رفتار اور مقام کا تعین کیسے کر لیتے ہیں ۔ اِس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ ہے۔ ایک مرد دانا اسی سوال کے ہاتھوں اِس قدر زِچ ہوا کہ اُس نے کوانٹم فزکس سے ہی توبہ کرلی۔ اُس کا نام ’اَروِن شروڈنگر‘ تھا ، اسے کوانٹم میکینکس کے بانیوں میں سمجھاجاتا ہے ، اُس کا ایک تخیلاتی تجربہ ’شروڈنگر کیٹ ‘ کے نام سے مشہور ہے ۔اُس نے کہا کہ اگر ہم ایک بلی کو کسی ڈبے میں بند کردیں اور ساتھ ہی ڈبے کوئی ایسا آلہ لگا دیں جس کی وجہ سے اگلے ایک گھنٹے میں بلی کی موت کا امکان پچاس فیصد ہو تو ایک گھنٹے بعد جب ہم ڈبہ کھولیں گے تو بلی کس حالت میں ہوگی ؟ عقل تو یہی کہتی ہے کہ بلی یا تو مری ہوئی ملے گی یا پھر زندہ مگر شروڈنگر کا کہنا تھا کہ کوانٹم میکینکس کے اصول کے مطابق ڈبہ کھولنے سے ایک لمحہ پہلے تک بلی آدھی مری ہوئی ہوگی اور آدھی زندہ۔یہ بات چونکہ بے معنی تھی اِس لیے شروڈنگر نے کوانٹم فزکس کو خیر آباد ہی کہہ دیا۔اب اُس سوال کی طرف آتے ہیں کہ روز مرہ مشاہدے میں ہمیں چیزیں عام حالت میں کیوں ملتی ہیں ، تو اِس کا جواب سائنس دان یوں دیتے ہیں کہ کوانٹم کی سطح پر ذرات چونکہ لہروں کے انداز میں حرکت کرتے ہیں اِس لیے اُن کے مقام کا تعین کرنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ نارمل حجم کی اشیا کی حرلت میں ویولنتھ اِس قدر معمولی ہوتی ہے کہ اس کا احساس ہی نہیں ہوپاتا جبکہ ایٹم کی سطح پر ذرے کی کیفیت یکسر تبدیل ہوجاتی ہے ۔یہ بات اب محض تھیوری نہیں رہی بلکہ سائنس دانوں نے الیکٹرونز پر تجربے کرکے یہ ’دیکھ‘ لیا ہے کہ اُن کی کیفیت غیر یقینی ہوتی ہے ۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ کالم کچھ زیادہ ہی ثقیل اور سائنسی ہوگیا۔دراصل کوانٹم میکینکس کی یہ دنیا اِس قدر حیرت انگیز ہے کہ بندہ چکرا کر رہ جاتا ہے ، کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ کائنات کی گتھی کوانٹم میکینکس کے کسی تجربے سے ہی سلجھے گی کیونکہ سائنس دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ایٹمی سطح پرالیکٹرون اور نیوٹرون کی گردش اور خلا میں اجرام فلکی کے گھومنے میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ سو میں یہ سوال آپ کے پاس چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایٹم کے اندر بھی ایک کائنات پوشیدہ ہوجو ہماری نظروں سے اوجھل ہو یا پھر ہم کسی دوسری کائنات کا محض ایک ایٹمی ذرہ ہوں؟ غیر یقینی کائنات میں سب کچھ ہی تو ممکن ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply