خدا کرے کہ نیا دور سب کو راس آئے / گل بخشالوی

صدر ِ پاکستان عارف علوی نے سمری پر دستخط کر د یے اور قومی اسمبلی تین دن قبل تحلیل ہو گئی ۔ مقررہ مدت سے تین دن قبل 13 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم ( مشترکہ مفادات کونسل ) کی بد ترین حکمرانی کا دور ختم ہو گیا ، اس ناجائز حکمرانی میں سب سے بُرا کردار مسلم لیگ ن اور فضل الرحمان گروپ کا رہا ،

 

 

 

 

انہوں نے اپنی شیطان حکمرانی میں مرحوم جنرل ضیاءالحق کے ظلم اور جبر کی حکمرانی کی آخری سرحدیں تک عبور کر نے کے بعد قومی خزانے سے ا لوداعی دعوت اڑائی اور جہاں جہاں سے آئے تھے وہاں واپس چلے گئے ، اب ان کے مقدر کا فیصلہ عوامی عدالت میں ہو گا۔

پاکستان پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکہ  پاکستان میں سابق وزیراعظم کیخلاف کسی سازش میں ملوث نہیں۔ امریکہ  نے سابق وزیراعظم پاکستان کے دورہ ء روس پر تشویش کا اظہار ضرور کیا تھا ۔ سابق وزیراعظم پاکستان نے روس کے یوکرین پر حملے والے دن دورہ کیا، میتھیو ملر نے کہا کہ سابق پاکستانی سفیر ( امریکی درباری ) بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ  پر الزامات جھوٹے ہیں۔ امریکہ  نے نہیں کہا کہ سابق پاکستانی وزیراعظم کو جانا چاہیے۔ لیکن وہ یہ کہنا بھول گئے کہ اگر عمران خان کی حکمرانی قائم رہی تو پاکستان کو تنہا کر دیں گے۔

مشترکہ مفادات کونسل کی حکمرانی میں اداروں نے جو کردار ادا کیا دنیا جانتی ہے لیکن پاکستا ن میں آج بھی کچھ زندہ لاشیں ہیں ،جو چوروں اور قومی لٹیروں کی بد کرداریوں کے باوجود ان کے گیت گا  رہے ہیں ، ان کی نظر میں سابق وزیر ِ اعظم ہی مجرم اور قومی غدار ہیں اس لئے کہ وہ پاکستان کی حقیقی آزادی کے لئے آواز حق بلند کر رہے ہیں ، دنیا بھر نے عمران خان کو حق و صداقت کا علمبردار قرار دیا لیکن ، پاکستان کی زندہ لاشوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔

یزید پرست درباریوں کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد تحریک ِ انصاف کا شیدائی سڑک پر نہیں آیا ، دراصل امریکی غلاموں کے غلا م شعور کے اندھے ہیں ، وہ پاکستانی ہیں لیکن امریکی غلاموں کے درباری ہیں ، دیکھنے کے لئے چشم ِ بینا کی ضرورت ہوتی ہے ، شیدائی سڑکوں پر آئے ہیں ، لیکن وہ شیدائی تھے پی ڈی ایم کے بلوائی نہیں تھے ،تحریک ِ انصاف کے  یہی شیدائی 9 مئی کو بھی سڑکوں پر نکلے تھے لیکں ان میں کچھ پی ڈی ایم کے بلوائی تھے ، جنہوں نے اد اروں کی خواہش پر وہ کیا جو کوئی  اپنے دیس کے وقار کے ساتھ نہیں کر سکتا ۔

جنگل میں شیر کو قید کر نےکا  مطلب یہ نہیں کہ جنگل میں کتے راج کریں گے بڑے بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر برتن سے وہ ہی کچھ ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے ، ان کا کہنا ہے ، اور مشکل دور ایسا فلٹر ہے جو آپ کو منافق ، لالچی اور مکار دوستوں سے پاک کر دیتا ہے۔

امریکہ کے مشہور جج فرینک کیپرو ریٹا ئر ڈ ہوئے تو اس کو کورٹ سے الوداع کہنے  کے لئے پورا شہر امڈ آیا ، اس لئے کہ وہ جج تھا فیصلے   لیتے ہوئے حلف کا پاس رکھتا  تھا ، وہ امریکی تھا لیکن امریکی صدور اور جر نیلوں کا درباری نہیں تھا ، ایمانداری سے فرائض سر انجام دینے والوں کی عزت ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں ایڈیشنل سیشن جج حکمرانوں کی دلالی میں عجلت میں فیصلے کرکے دیس سے بھاگ جاتے ہیں ، لیکن وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں انصاف کے شیدائی دنیا کے کونے کونے میں آباد ہیں ، پی ڈی ایم کے درباری جج دلاور کے ساتھ بر طانیہ میں جو ہُوا اور ہو گا دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہی ہے ، اس لئے قومی عد التوں میں حق اور صداقت کے علم بردار ا پنے آنے وا لے کل  کا بھی ضرور سوچیں ۔ جہاں تک پاک فوج کے بڑوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی عوا م ان کے ساتھ کھڑی ہے تو وہ غلط کہہ ر ہے ہیں، پاکستان کی عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور پاک فوج کے جرنیل قومی لٹیروں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اس لئے افغانستان کے جنرل کا کہنا ہے کہ جب بھی پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو الزام افغانستان کو دیا جاتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے تم جرنیلوں نے تو امریکہ سے ڈالر لے کر سرحد پر باڑ لگا دی ہے دہشت گرد کس راستے سے آتے ہیں ، اور اگر آتے ہیں تو تمہارے ادارے اور فوج کہا ہوتی ہے انہیں تو تم نے عمران خان کے پیچھے لگایا ہے ، جب افغانستان سے دہشت گردی کے لئے بارود سے بھری گاڑیاں آتی ہیں تو انہیں کیوں نہیں پکڑتے ،
اپنے اداروں ، فوج اور آئی ایس آئی کو تنخواہ کس بات کی دیتے ہو ، کالم کے آخر میں دعا کر تا ہوں کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا دور سب راس آئے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply