• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برصغیر کے پہلے اسلامی انقلاب کا آنکھوں دیکھا احوال(میر محبوب علی دہلوی)(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔۔حمزہ ابراہیم

برصغیر کے پہلے اسلامی انقلاب کا آنکھوں دیکھا احوال(میر محبوب علی دہلوی)(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔۔حمزہ ابراہیم

خلاصہ یہ کہ پھر ہم سید احمد کے پاس پنجتار پہنچے، جب کہ جناب سید نے مولانا اسماعیل کو پکھلی دمتوڑ کے علاقے میں بھیج دیا تھا۔ یہ کام بھی انہوں نے سید شاہ کی آرزو کے عین مطابق اپنے غلط منصوبے کے تحت خلافِ مشورہ کیا تھا۔ تو میں نے سید صاحب کی مجلس کا جب یہ حال دیکھا ، سمجھ گیا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں اور مجھ کو یقین ہو گیا کہ اختلافات کے جھگڑوں میں علما مارے جائیں گے اور جاہلوں کا مذہب سید صاحب کے کشوفات اور معارف ہوں گے جو کہ بابِ جہادِ شرعی میں جمہور علما کے بیان کردہ طریقے کے خلاف ہوں گے۔ میں نے خلوت میں سید صاحب سے کہا:

”اے میرے سید! جہاد کا مدار مشورے پر ہے اور جہاد امورِ شرعیہ میں ایک بڑا رکن ہے۔ لڑائی کا مدار دھوکے میں ڈالنے پر ہے ۔ یہاں آپ خود دھوکہ کھا رہے ہیں، کسی دوسرے کو دھوکے میں نہیں ڈال رہے ہیں۔ میرے نزدیک پہلا حیلہ یہ ہے کہ آپ اس مقام میں اقامت فرمائیں۔ یہاں کے باشندوں میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت نہ کریں۔ اور جو آپ چاہتے ہیں اس کا اظہار نہ کریں۔ جب تک کہ آپ کے پاس ہندوستان سے بارہ ہزار مجاہد نہ آ جائیں۔ جب غریب الوطن، صبر کرنے والے، بارہ ہزار مجاہد آ جائیں تو آپ ان مقامات پر حکومت کریں اور اعلان کر دیں کہ اپنی جان و مال سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کافروں سے جہاد کرو۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میں امیر المومنین اور زمین پر الله کا خلیفہ ہوں اور میری اطاعت تمام لوگوں پر واجب ہے، کیوں کہ یہ نرالی بات رئیسوں اور سمجھ داروں کو وحشت میں ڈالتی ہے“۔

میری اس بات کو سن کر سید صاحب نے کہا:

”جس کام کو میں نے سنوارا ہے، اس کو تم بگاڑ رہے ہو، تمہاری اطاعت خاموشی کے ساتھ سننے کی ہونی چاہیے۔ ایسی خاموشی جیسی اس پہاڑ کی ہے جو میرے سامنے کھڑا ہے“۔

میں نے کہا:

”یہ بات مجھ جیسے شخص سے نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ ان امور میں مسلمانوں کو صحیح مشورہ نہ دینا میرے نزدیک حرام ہے۔ اب جبکہ آپ مجھے خاموش رکھنا چاہتے ہیں اور میں خاموش نہیں رہ سکتا تو اصلاح فی ما بین المسلمین کی وجہ سے مجھ پر لازم ہے کہ آپ سے الگ ہو جاؤں اور لوگوں کو اس اختلاف کی خبر نہ ہو، اور آپ مجھے ہندوستان جانے کی اجازت دیں۔ آپ روٴسائے ہند کو میرے ساتھ خط لکھ کر دیں تاکہ میں انہیں آپ کی اطاعت کی ترغیب دوں۔ اور اگر وہ لوگ جان گئے کہ میں مکدر خاطر ہو کر آپ کے پاس سے لوٹ آیا ہوں تو عقلا آپ سے نفرت کرنے لگیں گے اور جھلا مجھ پر تکبر کریں گے تو یہ میرے، آپ کے اور لوگوں کیلئے بہتر نہیں ہو گا“۔

میری یہ بات سید صاحب سے تنہائی میں ہوئی اور جناب سید نے علانیہ یہ بات کہی:

”جو بھی میرے پاس سے اپنے وطن لوٹ کر جائے گا اس کا ایمان گیا“۔

اس معاملے میں بھی میں نے ان کی بد اندیشی کا مشاہدہ کیا۔ میں نے ان سے کہا:

”آپ عجلت کر رہے ہیں، مگر اس معاملے میں عجلت مناسب نہیں۔بہتر ہو گا اگر آپ مجھ کو اپنا وکیل بنا کر پشاور کے رئیسوں کے پاس بھیج دیں اور آپ ان کو لکھ دیں کہ وہ لوگوں کو آپ کی اطاعت سے منع نہ کریں اور آپ کے پاس آنے والے مجاہدوں کا راستہ وہ لوگ نہ روکیں“۔

سید صاحب نے کہا:

”میرے نزدیک یہ صورت مناسب نہیں ہے کیوں کہ یار محمد (رئیس پشاور) کے دل میں ذرہ بھر ایمان نہیں ہے، وہ تم کو قتل کر دے گا“۔

میں نے سید صاحب سے کہا:

”اگر اس نے مجھے قتل کر دیا تو اس کے خلاف آپ کی طرف سے اتمام حجت ہو جائے گا۔ بلا سوال و جواب آپ کا ان سے قتال کرنا جائز نہیں، کیوں کہ وہ لوگ آپ کی آمد سے پہلے کے یہاں کے حکام ہیں“۔

یہ سن کر سید صاحب خاموش رہے۔جب میں نے یہ دیکھا تو کہا:

”مجھے اپنا وکیل بنا کر لاہور کے کتے کے پاس بھیج دیجیے اور اسے لکھ دیجیے کہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے پاس ایک وکیل بھیجتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئیں یا پھر جزیہ دینا قبول کریں۔ اس لئے میرے اس وکیل اور قاصد کے ذریعے میرے خط کا جواب دو“۔

اس پر جناب سید نے کہا:

”میں ایسا نہیں کروں گا، کیوں کہ وہ ہم پر ہنسیں گے اور مسلمانوں پر کافر کا ہنسنا میرے نزدیک جائز نہیں“۔

جب میں نے یہ حالت دیکھی، میں سمجھ گیا کہ میرا یہاں رکنا جلد ہی فتنہ و فساد کا موجب ہو گا، اس لئے میں نے سید صاحب سے رخصت لی۔ جب سید احمد نے مراجعت کیلئے میرے عزم مصمم کو دیکھا اور جو لوگ میرے ساتھ تھے ان میں سے اکثر لوگ ان کی اجازت اور میری مرضی کے بغیر میرے ساتھ ہندوستان واپس ہو لئے تو سید صاحب نے مختلف لوگوں کے نام متعدد خطوط لکھے، جن کی تعداد 28 ہے۔ ان کے ان خطوط کے مخاطب سلطان دہلی ابو النصر معین الدین محمد اکبر، صاحب تمغا نواب احمد بخش خان فیروز پور، شاہ عبد العزیز کے نواسے مولانا ابو سلیمان اسحاق، شیخ ابو سعید مجددی اور اسی طرح ہندوستان کے دیگر روٴسا اور علما تھے۔

جب میں پشاور آیا تو یار محمد خاں نے میری تعظیم و توقیر کی اور عزت و احترام کے ساتھ مجھے اپنا مہمان بنایا۔ میں نے سفر کے ضروری اخراجات کیلئے تین اونٹ فروخت کر دئیے۔ اس کی خبر سید صاحب کو پہنچی اس پر ان کے دل میں جو آیا، لوگوں سے کہا، اور میرے پاس یہ کہلا بھیجا کہ مکاتیب کے ساتھ میرے پاس آ جاؤ اور اگر نہیں آؤ گے تو انہیں میرے پاس بھیج دو، کیوں کہ مجھے فی الوقت کسی ہندوستانی کو خط نہیں لکھنا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ جناب سید وہی کرتے ہیں جو یار محمد خاں کا جاسوس سید شاہ کہتا ہے اور انہیں اس کے قول و فعل پر بڑا اعتماد ہے، تو میں نے حاجی ہاشم خان پشاوری کے ہاتھ سید صاحب کو خطوط بھیج دئیے اور ان کے بوجھ سے میں آزاد ہو گیا۔

پشاور سے میں نے مولانا اسماعیل کے خط کا جواب لکھا جو پنجتار میں تھے، کیوں کہ میرے پشاور پہنچنے کے بعد سید صاحب کی طلبی پر مولانا اسماعیل، سید شاہ کے ساتھ ناکام و نامراد پکھلی سے پنجتار لوٹ آ ئے تھے۔ملاقات کے بغیر واپس لوٹ جانے پر انہوں(شاہ اسماعیل دہلوی) نے مجھے تاٴسف کا خط لکھا۔ اس وقت میں بخار کی شدت اور اسہال کی وجہ سے کافی بیمار تھا اور ان کے پاس ملاقات کیلئے جانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ جب میری طبیعت بحال ہوئی تو میں کافی کمزور ہو چکا تھا اور مولانا اسماعیل سید صاحب کے ساتھ ساکوٹ کے پہاڑ کی طرف نکل گئے تھے جو بہت دور اور کافی مشکل تھا۔ اس طرح میں مولانا اسماعیل سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے مغموم دہلی لوٹ آیا، لیکن مولانا عبد الحئی صدیقی سے پنجتار میں میری ملاقات ہو گئی تھی۔ وہ کھجلی کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کا انتقال 7 یا 8 شعبان 1243 ہجری میں ہوا۔

میں 5 شعبان جمعرات کو دہلی پہنچا۔ میں نے سنا کہ جمعہ کو اہل ہند کے نام میری شکایت پر مشتمل مولانا عبد الحئی کا خط آیا ہے، مگر مولانا اسحاق نے فتنے کو دفن اور ختم کرنے کیلئے اس خط کو پوشیدہ رکھا۔ لیکن مومن خان مومن (اردو کےشاعر) اور امام علی فارسی خان بلرانوی اور ان جیسے جاہلوں نے میرے تعلق سے اپنے کذب و افترا پر مشتمل ایک خط دہلی سے مولانا اسماعیل کو لکھا کہ وہاں(سرحد) سے لوٹنے والے سید احمد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے اندر امامت کی لیاقت نہیں ہے اور وہ ایسے ایسے ہیں۔ یہ لوگ ان کے عیوب شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں، فساد ہے، جب کہ میں اس تہمت سے بری ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے ملاقات نہیں کی اور اپنے خطوط میں لکھ دیا کہ اس گروپ کے لیڈر محبوب ( مولانامحبوب علی) ہیں۔ مولانا اسماعیل نے ان کے عجوب میں ایک خط لکھا جس میں جمیع اہل اسلام پر سید احمد کی امامت کو ثابت کیا اور جو سید احمد کی توہین کرے، اس کی توہین اور قتل کو جائز لکھا۔ لیکن انہوں نے مجھے اور امیر امان علوی کو مستثنیٰ قرار دیا اور خط میں لکھا کہ سید محبوب علی سلمہ الله میرے نزدیک ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے ایسی باتیں کی ہیں، بلکہ میں ان کی غیرت اسلامی سے واقف ہوں، واللہ اعلم۔

سچی بات یہ ہے کہ علما اور امرا سے بے خبر جاہلوں کی چاہت نے ملک کو ویران کر دیا اور اسے چھوڑ دیا ہے۔ یہ خط دہلی میں 1244 ہجری کو آیا تھا۔ مفسدوں نے اس کے نقول لکھے اور اسے ملک بھر میں تقسیم کیا اور فساد برپا کیا۔ یعنی اس مکتوب کے سطور میں اپنے خبث باطن کو بھی شامل کر دیا اور حضرت فاطمہ کی پاک اولادوں کی عداوت میں لوگوں کو ہلاک کیا اور ان میں سے بعض نے مجھ سے بھی بغض روا رکھا، کیوں کہ میں بھی اولاد فاطمہ سے ہوں۔ بعض جاہلوں نے سید المجاہدین سے بھی عداوت رکھی اور مجاہدین کو مفسدین گردانا، حالانکہ یہ سب حرام اور ملت میں تخریب کے مترادف ہے۔

اس سلسلے میں لوگوں پر واجب ہے کہ مجاہدین جہاں اور جیسے ہوں، ان کیلئے دعائے خیر کریں اور سید احمد کیلئے دعائےرحمت کریں، کیوں کہ انہی کی وہ شخصیت ہے جس نے الله کی راہ میں سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور کفار سے جہاد کیا۔

سید صاحب کی شہادت میں خود ان کے معتقدین میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ ان کے بعض معتقدین کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ان پہاڑوں میں جہاں قوم گوجر آباد ہے (سوات)، روپوش ہو گئے ہیں۔ وہ دل سے روتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ غیبی امداد کرے۔ بعض کہتے ہیں کہ مولانا اسماعیل کی شہادت کے بعد وہ بھی شہید ہو گئے ہیں۔ ایک ہی دن اور ذی قعدہ کے مہینے میں بالا کوٹ ضلع درہ کنار کے پاس سکھ کافروں کے ہاتھوں دونوں کی شہادت ہوئی ہے۔ اور سید کرم علی حافظ قرآن کا بیان ہے کہ مولانا اسماعیل کے بائیس دن بعد جب کہ سید صاحب نماز پڑھ رہے تھے، شہید کر دئیے گئے اور ان کا سر کاٹ کر حاکم لاہور کے پاس بھیج دیا گیا۔ یہ 1246 ہجری کا واقعہ ہے۔ پھر جو ان کے زندہ رہنے کے قائل ہیں، ان میں القاسم الکذاب پانی پتی اور ان کے ہم خیال کہتے ہیں کہ جو شخص یہ خیال کرے کہ جناب سید کی وفات ہو گئی ہے اور دوسرے کیلئے جائز ہے کہ وہ امیر المومنین ہو جائے، وہ کھلا گمراہ ہے۔

یہ بدبخت دلوں کا مرض ہے۔ الله ہمیں ان کے شر سے بچائے اور شیطان، الله اور الله کے مخلص بندوں کا دشمن ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس مختلف فیہ فتنے کی وجہ سے لوگ سید صاحب کیلئے دعا ئے مغفرت نہ کریں۔ اگر سید احمد رحمہ الله زندہ ہوتے ہوئے بھی چھپے ہوئے ہیں تو وہ میرے نزدیک خاطی ہیں، کیوں کہ اس طرح چھپ کر رہنا جہاد کیلئے مفید نہیں بلکہ حد درجہ مضر ہے، کیوں کہ جہاد کا عمل واضح اور محکم آیات اور روشن احادیث کریمہ پر مبنی ہے۔ تنگ الہامات اور شاعرانہ خیالات پر نہیں۔ اس امت کے آخر کی اصلاح اسی سے ہو گی جس سے امت کے اولین کی اصلاح ہوئی تھی اور وہ جہاد میں الله کے رسولﷺ کا اتباع ہے۔ یہی فقہا اور علما کا طریقہ ہے جو عظیم فوج اور لشکروں پر غالب ہوئے۔ جیسا کہ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے قدیم کلام میں فرمایا:

”اور جو قوت تمہیں بن پڑے ان کے لئے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو الله کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے، الله جانتا ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ظاہر یہ ہے کہ علم شرعی سے ناواقفی کے باوجود تصوف اور صوفیہ سے قربت فساد در فساد ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply