لچکدار دماغ (3) ۔ سوچ/وہاراامباکر

دماغ کیوں ہے؟ زندگی بغیر دماغ کے آسانی سے چلتی ہے۔ خوردبینی زندگی سے لے کر عظیم الشان درختوں تک زندگی کی بیشتر اقسام میں دماغ کا وجود نہیں ہے۔ تو پھر جانوروں میں یہ کیوں ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

کارل پوپر نے کبھی کہا تھا کہ “زندگی مسائل کے حل تلاش کرنے کا نام ہے”۔ یہ کسی اور چیز کے بارے میں کہا تھا لیکن یہ الفاظ ارتقائی بائیولوجی کے نقطہ نظر کے عکاس ہیں۔ ہر جاندار کو اپنے حصے کے چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔
دماغ کسی جانور کو ان چیلنج سے نمٹنے کی مشین بنانے میں مددگار ہیں۔ اپنا قدم ایک سمت میں لینا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے مسئلے کو حل کرتا ہے لیکن شعر کہنا یا تصویر بنانا؟ یہ بھلا کونسا مسئلہ حل کرتا ہے؟ (کئی نیوروسائنٹسٹ اور ماہرینِ نفسیات سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے احساسات یا پھر کسی موضوع کا اظہار کر دینے کا مسئلہ ہے)۔
شاید ایسا نہیں کہ “تمام” زندگی مسائل کو حل کرنا ہی ہو لیکن کم از کم بڑا حصہ تو ایسا ہی ہے۔
پہاڑ کی ڈھلوان پر پڑا پتھر اپنی قسمت بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ اس کی زندگی کسی بھی قسم کے مسائل سے خالی ہے۔ پودے زندہ ہیں لیکن جانوروں کے مقابلہ میں انہیں ماحول سے تبدیلی کے لئے بروقت فیصلے لینے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان میں وہ صلاحیت زیادہ نہیں۔ یہ اپنی جڑیں زمین میں جہاں پھیلا دیتے ہیں، یہی ان کے ماحول کا تعین کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف جانوروں کو اپنی صورتحال کے مطابق فیصلے لینے ہیں۔ خطرناک صورتحال سے بچنا ہے، موافق جگہ کی طرف جانا ہے۔ یہ مفید صلاحیت ہے اور چونکہ ان کی زندگی میں حرکت ہے، اس لئے انہیں مسلسل اس سے متعلق کئی مسائل کو حل کرنا ہے۔ معمے حل کرنے ہیں۔ اپنے ماحول کی خبر رکھنی ہے۔ اس کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے، اس کی تّک بنانی ہےاور پھر اس سب کی مدد سے مناسب ایکشن کرنے کے فیصلے لینے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کیلئے جانوروں میں انفارمیشن کو پراسس کرنے کے تین الگ طریقے ہیں۔
سکرپٹ، تجزیاتی اور لچکدار۔
سکرپٹ کا طریقہ سادہ اور روزمرہ کی روٹین کے مسائل حل کرتا ہے جبکہ زیادہ دشوار چیلنج اگلے طریقوں سے نمٹے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر ایک دلچسپ سوال آتا ہے۔
اگر کوئی بھی جاندار انفارمیشن پراسس کر رہا ہے تو کیا وہ اس وقت سوچ رہا ہے؟ سلائم مولڈ ایک سادہ سا امیبا ہے۔ اسے بھول بھلیوں میں رکھا جائے تو یہ اپنا راستہ بڑی اچھی طرح سے تلاش کر کے خوراک کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر خوراک کو ان بھول بھلیوں میں دو الگ جگہوں پر رکھا جائے تو یہ ایسے شکل بنا لیتا ہے کہ دونوں کو نگل لے اور اس کے لئے یہ سب سے ایفی شنٹ طریقہ اپناتا ہے۔ ان دونوں تک پہنچنے کے لئے یہ سب سے کم لمبائی کا طریقہ ہے۔ سلائم مولڈ بڑی ہوشیاری سے یہ مسئلہ حل کر رہا ہے۔
لیکن کیا یہ سوچ رہا ہے؟
اگر اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سوچ نہیں رہا تو کس بنیاد پر؟ یہ لکیر کہاں پر کھینچی جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
لغت کے مطابق سوچ “اپنے ذہن کو عقلی اور معروضی طریقے کسی صورتحال کا تجزیہ یا معاملہ کرنا ہے۔ کسی ممکنہ انتخاب یا ایکشن پر غور کرنا ہے۔ کسی چیز کا تصور بنانا یا ایجاد کرنا ہے”۔
نیوروسائنس کی ٹیکسٹ بُک کے مطابق، “سوچ ایسا کام ہے جس میں کسی محرک کو توجہ دی جاتی ہے، شناخت کیا جاتا ہے اور اس کا بامعنی ردِعمل دیا جاتا ہے۔ اس کی خاصیت آئیڈیاز کی لڑی ہے جس میں سے کئی نئے بھی ہو سکتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سادہ ترین الفاظ میں یہ تعریفیں کہتی ہیں کہ اس میں صورتحال کا تجزیہ شامل ہے اور آئیڈیا کی تخلیق شامل ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مولڈ کا سکرپٹ سوچ نہیں کہلائے گا۔ یہ صورتحال کا تجزیہ نہیں کر رہا بلکہ ماحول کے ٹرگر کا ردِ عمل دے رہا ہے۔ یہ آئیڈیا تخلیق نہیں کر رہا بلکہ پروگرام شدہ ریسپانس دے رہا ہے۔ جب بطخ اپنے گھونسلے میں انڈے کی حفاظت کر رہی ہے تو بھی ایسا ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ یاد رہے کہ طے شدہ سکرپٹ پر آٹومیٹک طریقے سے عمل کرنے کو جاندار (یا کمپیوٹر) کے سوچنے کی تعریف سے خارج کر دینا ہماری اپنی مرضی سے لگائی گئی لکیر ہے۔
اہم چیز اس بات کو پہچاننا ہے کہ جسے سوچ کہا جاتا ہے، وہ خود جاندار کے وجود کے بڑے حصے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ دماغ کا بڑا حصہ خودکار ہی ہے۔ جانوروں میں سوچ عمومی اصول نہیں بلکہ استثنا ہے۔ اور ان کے ساتھ بڑی حد تک زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
اور انسان؟ کیا ہمارے ایکشن سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں یا ہم بھی اپنی زندگی کا بڑا حصہ سکرپٹ شدہ عادات کے مطابق بغیر سوچے ہی گزارتے ہیں؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply