المھری ریاست، المھری زبان کی طرح متروک ریاست/منصور ندیم

عرب کی متروک زبانوں پر ایک مضمون لکھا تھا، اس میں عرب میں موجود المھری زبان کا ذکر تھا، المھری زبان نہ صرف رائج تھی بلکہ عرب میں ریاست “الدولة المهرية” کے نام سے سنہء 1886 سے لے کر سنہء 1967 تک وجود رکھتی تھی۔ سلطنتِ مہرہ ، جسے بعد میں کئی سالوں تک المھرہ ریاست اراضی اور سوکوترا یا قشن اور پھر سلطنت مہرہ کے نام سے جانا جاتا رہا، یہ جزیرہ نما عرب کے جنوب میں واقع ایک سابقہ ​​سلطنت تھی، جس میں تاریخی طور پر بلاد المہرہ کا علاقہ شامل تھا۔ جو اب مشرقی یمن اور بحر ہند میں سوکوترا جزیرہ میں واقع ہے۔ سنہء 1886 میں سلطنت المھرہ برطانوی راج میں شامل ہوئی اور عدن پروٹیکٹوریٹ کا حصہ بن گئی، گزشتہ صدی میں ساٹھ کی دہائی میں سلطنت المھرہ نے جنوبی عرب کی فیڈریشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا، لیکن یہ جنوبی عرب مشرقی تحفظ کے حصے کے طور پر برطانوی تحفظ میں رہی ۔ سنہء 1967 میں اس سلطنت کی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا، سنہء 1990 میں یمن عرب جمہوریہ کے ساتھ اس سلطنت کا خطہ متحد ہو کر جمہوریہ یمن قائم ہوا اور آج اس سلطنت کی زمینی۔ ۔ آج، سلطنت کی یمن میں دو گورنریٹس المھرہ گورنریٹ اور سوکوترا پر مشتمل ہیں۔

اس ریاست کے شیروں پر اس سے پہلے سنہء 1400 میں رسولی خاندان کی ریاست رسول قائم تھی، جسے سنہء 1432 میں بادجانہ خاندان نے حملہ کرکے چھین لیا تھا، ریاست رسول کے بعد یہاں طاہریوں کا عروج و حکومت رہی، سنہء 1456 میں محمد بن سعد نے نو جہازوں کے ساتھ عدن کی بحری فتح کا آغاز کیا تھا طاہری ابن سعد نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا۔ سنہء 1478 میں با دجانہ خاندان کے کنٹرول میں یہ جگہ پھر سے آگئی، جب ان کے نوجوان رہنما سعد بن فارس نے اس پر قبضہ کر لیا۔ سنہء 1480 کے آس پاس یہاں سوکوترا کے جزیرے پر المھری قبائل آباد ہونے شروع ہوئے، با دجانہ کا غلبہ یہاں پر مزید سات سال تک ہی رہا۔ سنہء 1495 میں، المھرہ قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑے نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ سلطان الکاثیری، جعفر بن عمرو نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پر الزویدی قبائل کی حمایت کی، اور با دجانہ کی بالادستی کے خاتمے کو یقینی بنایا۔ جس کےکے بعد اس سلطنت پر الزویدی قبیلے کے افرار خاندان کی حکومت رہی ، اور انہوں نے سوکوترا کے جزیرے کے علاوہ قشن کو اپنا دارالحکومت بنایا ۔

سنہء 1507 میں، یہاں پر پرتگالی بحری بیڑے نے حملہ کیا، جس کی قیادت Tristao da Cunha اور Afonso de Albuquerque کے پاس تھی انہوں نے سوکوترا پر ایک خون ریز جنگ کے بعد یہاں کے مرکزی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ سنہء1511 تک سوکوترا پر پرتگالیوں کی حکومت رہی، سنہء 1545 میں سلطان الخاثیری بدر بن طویرق نے ایک فوج کو متحرک کیا اور عثمانی ترکوں کی حمایت سے قشن پر قبضہ کیا ۔ پرتگالی، جو بحیرہ احمر اور بحر ہند میں تجارتی راستوں کے کنٹرول کے لیے عثمانیوں سے مقابلہ کر رہے تھے، اور اسے المھری قبائل کے حوالے کردیا جنہوں نے یہاں پر سلطنت المھرہ بنائی ۔ سنہء 1834 میں المھرہ ریاست کی برطانوی حکومت کے ساتھ تعلقات شروع ہوئے، برطانوی حکومت نے اس جزیرے پر کوئلہ ذخیرہ کرنے کے لئے م سلطان احمد بن سلطان اور اس کے کزن سلطان بن عمرو کے ساتھ قشن میں ایک معاہدہ کیا، یہ معاملہ بعد ازاں مختلف ادوار میں بگاڑ کا ہی شکار رہا، سنہء 1940 کی دہائی میں خلیج کی کئی ریاستیں بشمول المھرہ کو مشاورتی معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔اس معاہدے کی رو سے مقامی قیادت کو اب ان کے اندرونی معاملات پر اختیار نہیں اور اس معاہدے نے برطانوی حکومت کو ریاست کے اندرونی معاملات اور جانشینی کے انتظامات پر مکمل کنٹرول دے دیا تھا۔ یہ برطانوی معاہدے ہی خلیج عرب میں عرب قوم پرستی کے پھیلاؤ کو جنم کا ایک سبب بنے تھے۔

سنہء 1960 کی دہائی میں برطانویوں نے مقبوضہ جنوبی یمن لبریشن فرنٹ کی طرف سے شروع کی گئی مختلف گوریلا فورسز کے خلاف نقصان اٹھانا شروع کیا اور 14 اکتوبر سنہء 1963 کے انقلاب کے بعد سنہء 1967 تک برطانوی افواج نیشنل لبریشن فرنٹ کے خلاف ہونے والے نقصانات کے نتیجے میں پیچھے ہٹ گئیں، پھر یہ خطہ بھی المھرہ ریاست میں شامل ہوکر آزاد ریاست “مہرہ اسٹیٹ آف لینڈ اور سوکوترا” کا حصہ بن گیا۔ اس المھرہ ریاست کےخاندانی سلاطین آل عفرار کے خاندان سے ہی رہے، جن کی ترتیب یوں رہی،

محمد بن علی بن عمرو آل عفرار سنہء 1482

عامر بن طویری بن عفرار آل عفرار سنہء1507

محمد بن عبد الله آل عفرار سنہء 1548

سعيد بن سعيد آل عفرار سنہء 1620

عامر بن سعد بن طویری آل عفرار سنہء 1833

علي بن عبد الله بن سالم آل عفرار سنہء 1876

سالم بن حمد بن سعد آل عفرار سنہء 1886

عبد الله بن عيسى آل عفرار سنہء1931

علي بن سالم بن سعد آل عفرار سنہء 1944

حمد بن عبد الله بن عيسى آل عفرار سنہء/ 1950

عيسى بن علی بن سالم آل عفرار سنہء 1967

سنہء 1967 میں سلطنت مہرہ کو عوامی جمہوریہ جنوبی یمن نے اپنے اندر ضم کر لیا تھا، سلطان عیسیٰ بن علی الافرار سلطنت المھرہ اور سوکوترا کے آخری سلطان تھے۔ یہ واحد جنوبی سلاطین میں رہے جو مشکل وقت میں بھی ملک چھوڑ کر نہیں گئے، اس سلطنت کے واحد کامیاب اور عوامی فلاح کے اعتبار سے بھی ایک بہترین سلطان رہے، نے عوامی بہبود کے لئے عيسى بن علی بن سالم آل عفرار نے ملکی سلامتی و ترقی کے لئے کئی غیر ملکی دورے کئے، سعودی ریاست کی تشکیل کے بعد عيسى بن علی بن سالم آل عفرار نے سعودی دورہ کیا، وہاں پر شاہ سعود بن عبدالعزیز آل سعود سے ملاقات کی اور سنہء 1956ء میں عيسى بن علی بن سالم آل عفرار

حج ادا کیا اور سنہء 1960ء میں سلطان عیسیٰ نے ریاستی سطح پر عصری تعلیم کے لئے پہلا طالب علم مشن کویت بھیجا تھا، عيسى بن علی بن سالم آل عفرار نے ہی سنہء 1964 میں پہلے پرائمری اسکول کا ریاست میں آغاز کیا اور صحت کے لئے مختلف صحتی مراکز بنائے۔ غیر ملکی سائنسدانوں کو پانے جزیرے پر دعوت دی۔ بالآخر عوامی جمہوری جمہوریہ یمن نے سنہء 1990 میں یمن عرب جمہوریہ کے ساتھ متحد ہو کر جمہوریہ یمن تشکیل دیا ۔

عیسیٰ بن علی بن سالم بن حمد بن نے العفرار نے سنہء 1951 سے سنہء 1967 میں سلطنت المھرہ کے زوال کے خاتمے تک اس سلطنت پر بحیثیت آخری حکمران حکومت کی۔ یہ ریاست آج ختم ہوچکی ہے، مگر اس ریاست کے عہد میں یہاں ڈاک ٹکٹ جاری ہوتے تھے۔

نوٹ:

1- اس خطے کی مقامی زبان میں المھری زبان تھئ، مگر آج وقت کے ساتھ جیسے یہ ریاست متروک ہوچکی ہے،ویسے ہی المھری زبان بھی متروک ہورہی ہے، اس سلطنت میں عربی زبان کے علاؤہ اسوقت کچھ قبائل میں کچھ قدیم سامی زبانیں بھی بولی جاتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

2- تصاویر میں اس ملک کے ڈاک ٹکت، ریاست کے آخری سلطان عیسیٰ بن علی بن سالم بن حمد بن سعد العفرار کی تصویر اور ریاست کا نوشی موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply