عثمانی سلطنت کے زوال کی اہم وجوہ/منصور ندیم

کیا آپ یہ یقین کرسکتے ہیں کہ جب آج کل ایک معروف ترکی ڈرامہ “سلطنت”, دکھایا جاتا ہے کہ یورپ نے جیسے بنک اور سودی نظام سے سلطنت کو قابو کیا، تو کیا صرف یورپ کا ہی قصور تھا، حقیقت تو یہ تھی کہ انیسویں صدی کے وسط تک یہ عالم تھا کہ عثمانی حکومت کے اخراجات ، اس کے ٹیکس اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ تھے۔اس کے علاؤہ بھی کچھ اخراجات بنیادی ڈھانچے کی بہتری جیسے کہ نئی ریلوے اور ٹیلی گراف لائنوں پر بھی ہورہے تھے، اور بہت زیادہ اخراجات میں بہت کچھ فوج کے بھی تھے، اس سے اندازہ لگالیں کہ سنہء 1876 میں عثمانیوں کے پاس دنیا کی تیسری سب سے بڑی بحریہ تھی۔ لیکن اس سے بڑی حقیقت جو تھی وہ یہ تھی کہ زیادہ تر رقم حکمران طبقے کے لیے عیش و عشرت پر خرچ کی گئی۔ نئے بنائے جانے والے Dolmabahçe محل، جو سنہء 1856 میں مکمل ہوا تھا، اس کی لاگت اس وقت تقریبا پانچ ملین لیرا (تقریباً 35 ٹن سونا) تھی، جو اس وقت سلطنت کی کل سالانہ ٹیکس آمدنی کا ایک چوتھائی ہے۔ مزید چار محلات، جو صرف قدرے کم عظیم الشان تھے، اگلی دو دہائیوں میں تعمیر کیے گئے تھے۔

سنہء 1854 میں سلطنت کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ تھی روس کے ساتھ جنگ، اس جنگ کے بعد مالی حالات مزید خراب ہو گئے تھے، اور خزانے میں بڑھتی ہوئی کمی اور سلاطین کا اخراجات میں کمی کے لیے تیار نہ ہونے کے باعث، عثمانی حکومت نے بینک سے رقم ادھار لینے کا فیصلہ کیا تھا، خاص طور پر، فرانسیسی اور برطانوی بینکوں سے، چونکہ اس وقت لندن اور پیرس دنیا کے اہم مالیاتی مراکز تھے، اور اس لیے وہ قرض دینے کے لیے سب سے زیادہ رقم والے ممالک بھی تھے۔ تو جناب عثمانیوں نے پہلا قرضہ سنہء 1854 میں لیا۔ اور اگلے سال پھر مزید 5 ملین پاؤنڈ (84 ملین لیرا) کی بہت بڑی رقم 4% کی شرح سود پر لی گئی۔ اس قرض کا نصف حصہ کریمین جنگ پر خرچ ہوگیا تھا۔ بس جب قرض لینا شروع کیا تو عثمانی حکومت کو قرض سے واپس نکلنا ناممکن معلوم ہوا۔ ان کے اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھتے ہی چلے گئے، یہاں تک کہ ایک بار جب امن بھی لوٹ آیا، لیکن اس وقت تک عثمانی سلاطین کھلے ہاتھوں خرچ اور عیاشیوں کے مستقل عادی تھے اور تسلسل سے ملنے والے قرضوں نے انہیں آزادانہ طور پر خرچ کرنے کی عادت میں مبتلا کردیا تھا، کئی ایسی مثالیں تھیں، جب ان کے پاس سود کی ادائیگی کے وسائل بھی تھے اس کے باوجودسلطان عبدالعزیز کی بحری توسیع کی پالیسی چل رہی تھی، جو وسائل کی صورت آنے والے ٹیکس میں سے سالانہ آمدنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے تھے۔

سنہء 1875 تک سلطنت عثمانیہ اپنے غیر ملکی قرض دہندگان کی £200 ملین کی مقروض ہو کی تھی، اور ہر سال £12 ملین سود کی ادائیگی میں ادا کر رہی تھی، جو کہ اس وقت عثمانیہ کے مجموعی سالانہ ریاستی بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ صرف قرض  کے سود کی ادائیگی میں جاتا تھا۔ اس برس پہلی بار برطانیہ و فرانس کی جانب سے عثمانی سلطنت پر اپنی سود کی ادائیگیوں کے لئے ٹیکس بڑھانے پر مجبور کیا گیا، یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے پوری سلطنت میں عوامی سطح پر سلطنت کے خلاف بڑے پیمانے پر بغاوتیں شروع کرنے کی بنیاد رکھی تھی۔ اور ظلم یہ ہوا کہ بغاوتوں پر وحشیانہ عثمانی سلطنت کے جبر نے پھر روس کو یہ عذر فراہم کیا کہ اسے بلقان کے لوگوں کو ترک حکمرانی سے آزاد کرانے کے لیے جنگ کا اعلان کرنے کی ضرورت تھی۔ اس جنگ میں سلطنت عثمانی کی شکست کے بعد، برطانیہ اور فرانس نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے واجب الادا قرضوں کی تنظیم نو کو قبول کریں۔

اینگلو فرانسیسی بینکوں پر واجب الادا کل قرض تقریباً آدھا رہ کر £106 ملین رہ گیا تھا لیکن اس کے بدلے میں سنہء1881 میں عثمانی پبلک ڈیبٹ ایڈمنسٹریشن کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی گئی تھی، جس کے انچارج برطانوی اور فرانسیسی بینکوں کے شیئر ہولڈر تھے۔ او پی ڈی اے کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ سلطنت عثمانیہ میں براہ راست بعض مصنوعات اور لین دین پر ٹیکس وصول کرے اور رقم ملک کے قرض دہندگان کو دے دے۔ او پی ڈی اے نے ایک بہت بڑی بیوروکریسی (جنہوں نے اپنے عروج پر تقریباً 9,000 افراد کو ملازمت دی) کے طور پر تیار کیا اور اس نے سلطنت عثمانیہ کے اندر انفراسٹرکچر اور صنعتی منصوبوں میں جمع ہونے والی اضافی آمدنی کا کچھ حصہ بھی لگایا، او پی ڈی اے نے سنہء 1923 میں اپنے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات کھو دیے، لیکن سنہء 1939 تک کام کرتا رہا تھا۔
(حالانکہ حیرت کی بات نہیں کہ سلطنت عثمانیہ نے انفرا اسٹرکچر اور صنعتی منصوبوں کے ٹھیکے بنیادی طور پر برطانوی اور فرانسیسیوں کی کمپنیوں کو ہی دئیے تھے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

اصل نالائقی یہاں پر بھی تھی کہ اس وقت برصغیر کے نوابوں، مسلمانوں نے خلافت کی محبت میں بھی سلطنت عثمانیہ کو بہت ڈونیشن دیا تھا۔ جبکہ ہم ایک عجیب سے تاریخ گھڑ کر پیش کرتے ہیں کہ اس ساری سلطنت کی بربادی کو عربوں کی مزاحمت سے جوڑ دیتے ہیں۔ اصل سلطنت عثمانیہ کی بربادی قرضوں کا انبار تھا۔
نوٹ: یہ تصویر میں (Dolmabahçe Palace) وہی ہے جس پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جا رہی تھی .
دوئم سلطنت عثمانیہ کے زوال کی وجوہات کا آج کل کی کسی ریاست کے زوال سے وابستگی اتفاقی ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply